ویریندر کمار پینیولی
کوپ-29 گزشتہ دنوں ختم ہوگیا جس کی معاشیات بہت کچھ پٹرول کے پروڈکٹس پر منحصر ہے۔ اس نے کوپ-29میں تمام تنقیدوں کے دوران بھی تیل-گیس شعبہ کا بچاؤ جاری رکھا ہوا ہے۔ کوپ-28بھی ایسے ملک میں ہی ہوا تھا۔ دوسری طرف، ہندوستان، چین اور امریکہ کوئلہ کو اپنی اقتصادی ترقی کا انجن بنائے ہوئے ہیں۔ اس کو وہ مستقبل قریب میں چھوڑنے والے بھی نہیں ہیں لیکن آب و ہوا کے بحران کے درمیان زیادہ تر ممالک کی ہی طرح یہ حقیقت انہیں قبول کرنی ہوگی کہ مستقبل میں بین الاقواتی کاروباری برادری سے الگ تھلگ ہونے سے بچنے کے لیے دیر سویر انہیں کاربن نیوٹرل ہونا ہی پڑے گا۔
یوروپی یونین، جاپان، کوریا جمہوریہ سمیت 110سے زیادہ ممالک نے 2050تک کاربن نیوٹریلیٹی پانے کے عزم کا اظہار کیا ہوا ہے۔ چین 2060تک ایسا کرلے گا۔ ہندوستان 2070تک ہی ایسا کرپائے گا۔ یوروپی یونین تو ان درآمدات پر بھی کاربن ٹیکس لگانے کا سوچ رہی ہے جن کی مینوفیکچرنگ میں تھریش ہولڈ ویلیو سے زیادہ اخراج ہوتا ہے۔ ایسے میں مجبوراً ہی سہی مختلف ممالک اپنے اپنے یہاں فوسل ایندھن کی کھپت، استعمال، پیداوار پر سخت سے سخت اصول نافذ کررہے ہیں۔
ڈی کاربونائزیشن یا کاربن فری ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ گلوبل وارمنگ میں اضافہ کو 1.5ڈگری سیلسیس پر ہی باندھنے کی بڑی ضرورت کے بعد بھی کوئلہ سمیت فوسل ایندھنوں کے تقریباً بلاتعطل استعمال کی چھوٹ سبھی چاہتے ہیں۔ حالاں کہ آئی پی سی سی کا ماننا ہے کہ زمین کا گرم ہونا کل کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کے متناسب ہوتا ہے۔ موجودہ وقت میں ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کثافت بڑھتی جارہی ہے۔ امریکہ کے ادارہ این او اے اے کے مطابق مئی، 2023 میں فضا میں ماہانہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کثافت ریکارڈ اعلیٰ سطح پر پہلے صنعتی دور کی کثافت سے 50فیصد زیادہ تھی۔ دنیا میں 85فیصد توانائی فوسل ایندھنوں کوئلہ، پٹرولیم اور گیس سے حاصل کی جاتی ہے۔ پٹرولیم اور گیس سے وابستہ صنعتیں تو ہیں لیکن لوہا، اسٹیل، الیومینیم، سیمنٹ، بجلی، ہائیڈروجن، کھاد اور کیمیائی صنعتیں بھی کاربن انٹینسو ہیں۔ اسٹیل، سیمنٹ، کیمیکل سیکٹر کی صنعتوں سے ماحول میں تقریباً 20فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ پہنچتا ہے۔ ہر شعبہ میں بڑے بڑے اخراج میں کمی کی ضرورت ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو تو ماحول سے ہٹانا ہی پڑے گا لیکن درختوں کے ذمہ ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کا کام سونپ کر ہم آب و ہوا کے بحران کی وسعت اور شدت کا سامنا نہیں کرسکتے۔ درخت چوں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا استعمال فوٹوسنتھیسس اور بایوماس بڑھانے میں کرتے ہیں، اس لیے وہ ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ ہٹانے میں مؤثر رہتے ہیں۔ ان سے زمین کے اندر کاربن کا دخیرہ بھی ہوتا ہے۔ بہت زیادہ بایوماس بڑھانا پڑے گا۔ جنگلات میں آگ لگنے جیسے حادثات بھی ہوتے ہیں۔
حالاں کہ بڑی بڑی کمپنیاں ایئرلائنس وغیرہ بھی جنگلوں سے کاربن کیپچر کا ہی سہارا لے رہی ہیں۔ اپنی گرین ہاؤس گیسوں کے ای مشن کو نیوٹرلائز کرنے نیٹ زیرو اخراج ہدف پانے کے لیے اسی کا سہارا لے رہے ہیں۔ 2023میں اقوام متحدہ کے آب و ہوا سے متعلق مذاکرات کی قیادت کرنے کے لیے اعلان کردہ کوپ-28کے نامزد صدر یو اے ای کے صنعت اور جدید ٹیکنالوجی کے وزیر ڈاکٹر سلطان الزبیر کا بلاجھجھک یہ کہنا تھا کہ آب و ہوا کی ریاضی سے کچھ خاص نہیں ہوتا۔ اگر اس میں کاربن کیپچر کا عمل شامل نہیں ہے۔ متبادل توانائی کے سولراور وِنڈ انرجی کے استعمال بھی گرمی کم کرنے میں کارگر نہیں ہوسکتے۔ 11مئی،2023کو 1500سے زیادہ عالمی پالیسی سازوں، انڈسٹریل لیڈرس، انوویٹرس کو یو اے ای کلائمیٹ ٹیک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا: ’ہمیں تیزی سے ان تکنیکی حل کو تلاش کرنا ہوگا جو معیشت کو ڈی کاربونائز کریں۔ اخراج کو آئی پی سی سی رپورٹ کے مطابق 2030تک کم سے کم 43فیصد کم کریں۔‘
بائیڈن انتظامیہ نے بھی امریکہ کے پاور پلانٹوں کے آپریٹرس کو واضح ہدایت دی کہ انہیں اخراج روکنے کے اقدام کرنے ہی ہوں گے۔ امریکہ کے موسمیاتی سفیر کیری بھی متنبہ کرنے والے لہجہ میں کہہ چکے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ ایسے تیل اور گیس پروڈیوسرس، جو کہتے ہیں کہ انہوں نے وہ تکنیکی مہارت حاصل کرلی ہے جس سے ان کے فوسل ایندھن نکلنے اور اس کی کھپت کرنے میں دنیا کی گرم ہونے کی صورتحال مزید خراب نہیں ہوگی، ثابت کریں کہ ایسی تکنیک کفایتی شرح پر بڑے پیمانہ پر استعمال میں لائی جاسکتی ہیں اور تیزی سے موسمیاتی آفت کو ٹال بھی سکتی ہیں۔ وہاں لکوڈنیچرل گیس کے پروڈیوسرز بھی دعویٰ کررہے ہیں ہ وہ ڈی کاربونائزیشن تکنیکوں میں بڑی سرمایہ کاری نیچرل گیس کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کرتے ہوئے زیرو گرین ہاؤس ای مشن تک بھی پہنچیں گے۔ امریکہ میں کل کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج میں پاور پلانٹوں سے 31فیصد کا اخراج ہوتا ہے۔
کاربن کیپچر ٹیکنالوجی پر تنقید کرنے والے مانتے ہیں کہ اسے آب و ہوا کے بحران کو کم کرنے میں قابل اعتماد آلہ کے طور پر نہیں استعمال کیا جاسکتا۔ یہ کاربن فیزآؤٹ کا متبادل نہیں ہوسکتی۔فوسل ایندھنوں کا استعمال تو رکنا ہی چاہیے۔ دنیا کو 2050تک کاربن نیوٹرل بنانے کی ناگزیریت کو وقتاً فوقتاً اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل گوتیریس نے کہا ہے کہ ہر ملک، ہر شہر، ہر مالیاتی ادارہ-کمپنی کو 2050تک کاربن نیوٹریلیٹی پانے کی ضرورت ہے۔ نومبر، 2020میں انہوں نے الرٹ کیا تھا کہ گرم کرتی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی دوڑ میں ہم فنیشنگ لائن کے کہیں بھی نزدیک نہیں ہیں۔ حالاں کہ وہ پرامید بھی تھے کہ جو ممالک عالمی 65فیصد سے زیادہ کاربن اخراج اور فیصد معیشت کے لیے ذمہ دار ہیں، وہ شروعاتی 2021تک کاربن نیوٹریلیٹی کے حق میں متوقع عزم(Aspirational Commitment) کرلیں گے لیکن جی20کے ممالک، جو 80فیصد سے زیادہ آلودگی کے ذمہ دار ہیں، کو راہ دکھانی چاہیے۔ ایک ڈر تو ہے ہی کہ اگر ترقی یافتہ ممالک نے ایسی تکنیکوں کو دینے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تو غریب اور امیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلی کے نقصان کو برداشت کرنے کی صلاحیتوں کی خلیج مزید زیادہ ہوجائے گی۔