عبدالماجد نظامی
جنوری 2021 میں عظیم پریم جی یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم نے پانچ ریاستوں میں بچوں کی تعلیم پر کورونا کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس سلسلہ میں ایک سروے کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ بچوں میں سیکھنے کی رفتار کافی دھیمی پڑ گئی ہے، وہ معمولی چیزیں نہیں سمجھ پا رہے ہیں اور لکھنے پڑھنے کی بنیادی صلاحیتوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ معمولی حساب کرنے میں بھی انہیں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس اسٹڈی پر اب تک ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران بچوں اور بچیوں کی تعلیمی لیاقت میں کتنی گراوٹ آئی ہوگی، اسے سمجھنا بہت آسان ہے۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کی تحقیق کے علاوہ انڈین ایکسپریس نے بھی ایک رپورٹ تیار کی تھی۔ اس کے مطابق ریاست گجرات کے اندر دسویں کلاس میں تعلیم حاصل کرنے والے اسٹوڈنٹس کی حالت یہ بتائی گئی تھی کہ تقریباً ایک تہائی طلبا و طالبات کو رعایتی نمبرات دے کر اگلی جماعت میں پہنچایا گیا۔ اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی بنا پر اسکول بند رکھے جانے کے نتیجہ میں جو تعلیمی گراوٹ پیدا ہوئی ہے، اس سے متاثر صرف نچلی جماعتوں کے بچے اور بچیاں ہی نہیں ہوئے ہیں بلکہ اونچی جماعتوں کے طلبا و طالبات بھی یکساں طور پر ہوئے ہیں۔ جب اسٹڈیز اور سرویز کا ذکر ہو رہا ہے تو اس ضمن میں پرتھم کی رپورٹ کا حوالہ دینا بھی مفید ثابت ہوگا۔ مارچ2021میں پرتھم اور اے ایس ای آر نے مشترکہ طور پر کرناٹک میں ایک فیلڈ ورک کیا تاکہ بچوں کی تعلیمی لیاقت کا جائزہ لیا جائے اور اسکول بندی کے اثرات کا صحیح صحیح اندازہ لگایا جاسکے۔ اس فیلڈ ورک میں جو نتائج سامنے آئے وہ چونکانے والے ہیں۔ پرتھم-اے ایس ای آر کا کہنا ہے کہ تعلیمی گراوٹ محض ایک سال کی اسکول بندی کے نتیجہ میں اس حد کو پہنچ گئی کہ آٹھویں جماعت کے محض66.4فیصد طلبا و طالبات ہی تیسری جماعت کی سطح کی کتابیں پڑھ سکتے ہیں جبکہ تین سال قبل تقریباً 70فیصد بچے اس سطح کی کتابیں پڑھ سکتے تھے۔ ان تمام تحقیقی مطالعوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسکول جانے والے بچوں کا کس قدر نقصان ہوا ہے اور ان کا مستقبل کس طرح تاریکی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اگر کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں تعلیمی اداروں کے بند رکھے جانے کا جائزہ لیا جائے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان اب تک بیس مہینوں تک اسکولوں کو بند رکھ کر اول درجہ حاصل کرچکا ہے۔ حالانکہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی کیونکہ بچے کورونا سے متاثر نہیں ہوتے یا بہت معمولی درجہ میں ان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں بھی تحقیقات موجود ہیں۔ اسپین نے اسکول جانے والے ہر عمر کے بچوں سے متعلق تقریباً 10لاکھ ڈاٹا کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ اس مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ان کا آر ویلیو(وائرس پھیلنے کی شرح) صرف ایک فیصد ہے جبکہ کم عمر کے بچوں میں آر ویلیو صرف0.2ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یوروپ کے ایک دوسرے ملک سویڈن نے تو سولہ برس سے کم عمر کے بچوں کا اسکول کبھی بند ہی نہیں کیا اور دوسرے پیشوں کے مقابلہ ان اسکولوں کے اساتذہ پر کورونا اثرات کم رہے۔ یہ ساری تفصیلات اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ اسکولوں کو بند رکھنے کا کوئی معقول جواز موجود نہیں ہے۔ ہمارے پالیسی ساز لیڈران جو بار بار یہ کہتے ہیں کہ ہم کورونا سے بچوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اسی لیے اسکول بند کرتے ہیں، اس کی کوئی سائنٹفک دلیل موجود نہیں ہے۔ یہ محض سیاسی لیڈران کی ناکامی کا غماز ہے۔ وہ دراصل عوام کے جذبات کا استحصال کرکے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں اور کورونا کی روک تھام کے سلسلہ میں سنجیدہ ہیں۔ اس کے لیے اسکول اور کالجز کو سب سے پہلے بند کر دیتے ہیں جبکہ تمام ماہرین نے کئی بار یہ مشورہ دیا ہے کہ صورتحال اگر بگڑ جائے تو اس صورت میں بھی تعلیمی ادارے سب سے اخیر میں بند کیے جائیں اور عوامی سرگرمیوں کی بحالی کی صورت میں سب سے پہلے انہیں کھولا جائے۔ لیکن اس کے برعکس زندگی کی تمام سرگرمیاں جاری رہتی ہیں جب کہ اسکولوں کو بند رکھا جاتا ہے۔ حالانکہ اس سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ مثلاً آن لائن تعلیم کی وجہ سے بچوں کی تعلیمی لیاقت میں جو کمی آتی ہے، اس کے علاوہ دوسرے سنگین مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں جن میں سماجی نابرابری سب سے اہم پہلو ہے۔ اقتصادی اعتبار سے کمزور والدین اپنے بچوں کے لیے ڈیجیٹل وسائل کا انتظام کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں اور بچیوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ اگر ایک گھر میں لڑکا اور لڑکی دونوں اسکول جانے والے ہوں اور والدین صرف ایک اسمارٹ فون کا انتظام کر سکتے ہیں تو ترجیح لڑکوں کو دی جاتی ہے، اس سے لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے اور دھیرے دھیرے ان کا تعلیمی سلسلہ رک جاتا ہے جس کی وجہ سے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔ اسکول بندی کی صورت میں بچوں کی بڑی تعداد مزدوری میں لگ گئی ہے، اس سے بھی مستقبل میں ان کی سماجی ترقی داؤ پر لگ گئی ہے۔ اس کے علاوہ جن غریب بچوں اور بچیوں کے لیے اسکول یا آنگن باڑی میں تعلیم کے ساتھ ساتھ مناسب غذا کا انتظام کیا جاتا تھا، وہ ان سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ قارئین اندازہ لگائیں کہ ایسی صورتحال میں بچے کن کن نفسیاتی مسائل سے دوچار ہو رہے ہوں گے اور ان کے والدین پر کیا کچھ بیت رہی ہوگی؟ اسکول بندی کے نتیجہ میں بچوں کے اندر پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل کو اس بات سے سمجھا سکتا ہے کہ برطانیہ جہاں کے اسکول ہندوستان کے مقابلہ کم مدت کے لیے بند رکھے گئے ہیں، وہاں کی رپورٹ موجود ہے کہ بچوں کے نفسیاتی مسائل میں شدید حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح امریکن اکیڈمی آف پیڈی ایٹریکس نے بچوں میں موجود دماغی صحت کے بحران کو قومی ایمرجنسی قرار دیا ہے۔ ہندوستان میں دماغی صحت کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے مسائل ہیں جن سے بچے دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے میں اس کا بھلا کیا جواز ہو سکتا ہے کہ انہیں مزید طویل مدت تک اسکول کے ماحول سے دور رکھا جائے؟ بچوں کی صحیح نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسکول کے ماحول میں وقت گزاریں جہاں وہ اپنے اساتذہ کی نگرانی میں زندگی کے چیلنجز کو حل کرنے کا نسخہ سیکھیں۔ آن لائن تعلیم کبھی بھی کلاس روم کی تعلیم کا متبادل نہیں ہوسکتی ہے۔ پالیسی ساز لیڈران کو چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات کو درست کریں۔ اسکول کو بلاتاخیر کھولنے کا انتظام کریں تاکہ اساتذہ بچوں کی ان تمام خامیوں کو دور کرنے کا سلسلہ شروع کرسکیں جو اسکول بندی کے نتیجہ میں در آئی ہیں۔سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کورونا کے باوجود انتخابات ہورہے ہیں، کورونا گائیڈلائنز کو طاق پر رکھ کر لیڈران انتخابی تشہیر کررہے ہیںتو کیا ہزاروں کی بھیڑ میں کورونا نہیں پہنچے گا؟ پھر اسکول اور کالج کھولنے میں کیا قباحت ہے؟ اب تو سنیماہالوں کو بھی 50فیصد صلاحیت کے ساتھ کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ کیا سنیما ہالوں میں کورونا نہیں پہنچے گا اور اس نے اسکولوں اور کالجوں پر ہی نظریں گاڑ رکھی ہیں کہ وہ کھولے نہیں جارہے ہیں؟ اسکولوں اور کالجوں کا کھلنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسکولوں کا کھلنا ہی بچوں کے حقوق کی بحالی کی راہ میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]