سیکولر اور مذہبی نظریات میں ٹکراؤ

0

28مئیاتوار کو صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کے الیکشن میں کوئی تیسرا امیدوار نہیں ہے اور اب صرف اور صرف موجودہ صدر طیب اردگان اور کمال خلیق اوگلو کے درمیان مقابلہ ہے کیونکہ تیسرے امیدوار اور وکٹری پارٹی کے صدارتی امیدوار سینن اوگان نے طیب اردگان کے حق میں اپنا نام واپس لے لیا ہے یعنی ان کی قیادت والے اتحاد کی اب حمایت طیب اردگان کو مل گئی ہے۔ طیب اردگان پہلے ہی اپنے حریف کمال خلیق اوگلو سے آگے چل رہے تھے کیونکہ طیب اردگان کو ووٹروں کی 50فیصد حمایت نہیں ملی تھی لہٰذا ملک میں دوبارہ پولنگ کرائی جارہی ہے۔ 69سال کے اردگان ترکیہ کے سب سے طویل مدت تک عہدے پر فائز رہنے والے صدر ہوگئے ہیں۔ مغرب کے لیے وہ دردسرہیں، ایک آزادخارجہ اور دفاعی پالیسی اختیار کرنے والے موجودہ صدر عام ترکیہ شہریوں کے دل میں بستے ہیں۔ ترکیہ کی خارجہ پالیسی غیرروایتی ہے۔ انھوں نے غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوکرین میں مغرب کی اندھی تقلید نہیں کی ہے اور نہ ہی روس کی جارحیت کی حمایت کی ہے۔ انھوںنے یوکرین اور روس تصادم میں ثالثی کرکے دنیا کو غذائی اور کسی حد تک توانائی بحران سے بھی باہر نکالا ہے۔ اگر ترکیہ کا غیرجانبدرانہ رول نہ ہوتا تو افریقہ کے کئی ممالک میں غذائی کمی کی وجہ سے ہزاروں اموات ہوسکتی تھیں۔ ترکیہ نے اس دوران کوشش کی جب یوکرین پرجارحیت دنیا کو غذائی بحران سے بچانے والے ترکیہ نے شام میں خانہ جنگی، خارجی مداخلت کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد کی بازآبادکاری کے لیے 4ملین مہاجرین کا بوجھ برداشت کرکے انسانیت کو برے بحران سے بچایا ہے اور آج صدارتی الیکشن میں یہ مہاجرین کا مسئلہ مرکزی اور کلیدی ایشو ہے۔ موجودہ صدر پر نکتہ چینی کرنے والے پچھلے دنوں کی قدرتی آفت زلزلہ میں مبینہ بدنظمی کو ایشو بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان پراقتصادی بدحالی اور عالمی امور میں غیرمعمولی دلچسپی لینے کاالزام بھی لگایا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں کووڈ19-کے بعد زبردست کساد بازاری، بے روزگاری اور دیگر اقتصادی مسائل کا سامنا کرناپڑ رہاہے اور ترکی بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔
ترکیہ نے اپنی سرحدوں کی حفاظت اور مفادات کادفاع کرنے میں کئی ممالک میں فوجی مداخلت کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رول اہل مغرب کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ 2011کی بدحالی کے بعد کئی عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ ترکی کے تعلقات بہت خراب ہوگئے تھے مگر اب ترکیہ نے اس سفارتی بحران پرکسی حد تک قابو پالیا ہے۔ مصر، سعودی عرب، یواے ای اور اردن وغیرہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی نے ترکیہ کی معیشت کو بحران سے بچانے میں مدد کی تھی جبکہ ان کے حریف کمال خلیق اوگلو ترکیہ کو مغرب پرستی، امریکہ کی پالیسی کی پیروی اور ایل جی بی ٹی وغیرہ کے تئیں جدید مغربی افکار کے مطابق رائے رکھتے ہیں۔ طیب اردگان کے برعکس کمال خلیق اوگلو پارلیمانی طرز حکومت کو بحال کرنے اور جدید طرز کے انتظامیہ کا وعدہ کررہے ہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS