محمد حنیف خان
دعویٰ اور وعدہ کرنا آسان ہے لیکن اس دعوے اور وعدے پر کھرا اترنا بہت مشکل ہے کیونکہ دعوے اور وعدے کے لیے صرف زبان چلانا ہوتا ہے جبکہ زمینی سطح پر اسے درست ثابت کر نے کے لیے عمل کے مرحلے سے گزرنا ہوتاہے جو سب سے زیادہ مشکل ہے۔جس میں حالات کے ساتھ ہی ہماری سوچ اور فکر کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔اگر فکر صالح ہو توکوئی کام مشکل نہیں ہوتا لیکن اگر فکر میں کجی ہے تو عمل میں بھی کجی در آتی ہے،جس کی سب سے بہترین مثال اتر پردیش ہے۔جہاں گزشتہ پانچ برسوں میں ہر طرف صرف خوف کا ماحول رہا،جو اس لیے نہیں تھا کہ حکومت سخت ہے اور وہ نظم و نسق سے سمجھوتہ نہیں کرتی ہے بلکہ اس لیے رہا کہ جذبہ انتقام حاوی رہا۔جس کی ایک دو مثالیں نہیں ہیں،اہم بات یہ ہے کہ جذبہ انتقام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ماورائے عدالت فیصلے لے کر ان کو عدالتوں میں درست بھی ثابت کیا گیا،جس کی وجہ سے عوام میں خوف کا ماحول پیدا ہو ا،اسی کی بنیاد پر یہ کہا جانے لگا اور دعویٰ بھی کیا جانے لگا کہ اترپردیش سب سے زیادہ محفوظ ریاست ہے۔ حالانکہ سرکاری اعداد و شمار خود اس طرح کے دعوؤں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہونے کا محاورہ اب جمہوریت میں ہونے والے انتخابات میں بونا نظر آنے لگا ہے۔انتخابات میں کامیابی کے لیے دعوے اور وعدے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سچ اور حق کی قدریں اپنی حقیقت کھو چکی ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے لیڈر ایسے وعدے نہ کرتے جسے وہ پورا نہ کرسکیں اور ایسے دعوے نہ کرتے جن کی کوئی زمینی حقیقت نہ ہو۔موجودہ اسمبلی انتخابات میں حکمراں پارٹی اور حزب مخالف دونوں پوری طرح سے عوام کے دل و دماغ پر قبضہ کی کوشش میں ہیں جس کے لیے وہ ہر طرح کے حربے آزما رہی ہیں۔طرفہ تماشہ یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر منھ بھرائی اور پولرائزیشن کا الزام عائد کرنے والے خود کھلے عام وہی کام کر رہے ہیں لیکن ان کے ماتھے پر ذرا بھی شکن نہیں آتی ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ یہ وہ گھٹی ہے جسے پلانے کے بعد ووٹر کا خود پر قابو نہیں رہ جاتا اور وہ وہی کرے گا جو یہ گھٹی پلانے والا چاہے گا۔اسی لیے مذہب کے ساتھ ہی غلط وعدے اور دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔چونکہ اترپردیش آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اس لیے یہاں کے الیکشن کو سب سے زیادہ اہم تصور کیا جارہا ہے۔ہر شخص کی نظر یہاں کے انتخابات پر ہے کیونکہ 2024میں پارلیمنٹ کا راستہ بھی اترپردیش سے ہو کر ہی جائے گا۔
انتخابات میں الزام اوررد الزام کے ساتھ ہی درالزام کوئی نئی بات نہیں ہے،لیکن ہر پارٹی الیکشن میں عوام کے پاس کچھ خاص مسائل لے کر جاتی ہے جس کی بنیاد پر وہ الیکشن لڑتی ہے اور عوام کو اپنی طرف راغب کرتی ہے۔ اترپردیش میں یوں تو بہت سی پارٹیاں میدان میں ہیں لیکن حکمراں پارٹی بی جے پی اور حزب مخالف سماج وادی پارٹی کے مابین دوبدو مقابلہ نظر آ رہا ہے۔ایک طرف سماج وادی پارٹی نے جہاں ترقیاتی کاموں کو اصل مسئلہ بنایا ہے اور حکومت کو ہر جگہ آئینہ دکھا کر اپنے دوراقتدار میں کرائے گئے ترقیاتی کام عوام کے سامنے رکھ رہی ہے، وہیں حکمراں پارٹی ریاست کے عوام کی سلامتی اور سماج وادی پارٹی کے دور میں مبینہ غنڈہ گردی کو اپنا اصل مسئلہ بنائے ہوئے ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے عوام کے تحفظ اور سلامتی پر سب سے زیادہ کام کیا ہے۔اسی لیے بی جے پی کا ہر چھوٹا بڑا لیڈریہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا ہے کہ بی جے پی کے دور اقتدار میں سماج کا ہر طبقہ محفوظ رہا۔ کوئی کسی پر ظلم نہیں کرسکا۔ ریاست کا نظم و نسق اس نے بہت اچھا رکھا۔ لیکن بی جے پی کے دعوے میں کتنی سچائی ہے یہ تو اعداد و شمار کے جائزے سے ہی پتہ چلے گا، اگر چہ یہ اعداد و شمار حکومت کے ہی ہیں مگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا راستہ بھی نہیں جسے دستاویزی حیثیت حاصل ہو۔
اگر کوئی آئینی عہدے دار یہ دعویٰ کرے کہ میری حکمرانی میں فلاں ریاست یا ملک سب سے زیادہ محفوظ ہے تو اس کے دعوؤں میں سچائی بھی ہونی چاہیے مگر چونکہ وہ آئینی عہدیدار خود کو پہلے ایک سیاسی لیڈر اور پارٹی کا کارکن مانتا ہے، اس لیے سچ نہ ہونے کے باوجود وہ ایسا دعویٰ کرتا ہے اور اس میں اسے کوئی حرج بھی محسوس نہیں ہوتا ہے کیونکہ اس کے پیش رو اس طرح کے وعدوں اور دعوؤں کو ’جملہ‘ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس طرح کی باتیں کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے اس لیے وہ بھی ایسا کر رہے ہیں۔دعویٰ یہ کیا گیا تھا کہ اترپردیش سب سے زیادہ محفوظ ریاست ہے لیکن مرکزی حکومت کی وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرنے والے ادارے این سی آر بی کے اعداد و شمار جو حقیقت پیش کرتے ہیں، وہ اس کے برخلاف ہیں۔
نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو دو زمروں تعزیرات ہند اور اسپیشل ایکٹ کے تحت الگ الگ جرائم کا ریکارڈ جمع کرتا ہے۔2020 میں اتر پردیش میں دونوں زمروں میں 657925 معاملات درج کیے گئے۔ان اعداد و شمار کے مطابق امن و سکون اور سلامتی کے معاملے میں اترپردیش سے خراب صرف دو ریاستیں تمل ناڈو اور گجرات ہیں۔تمل ناڈو میں1377681 جبکہ گجرات میں 699619 معاملات درج ہوئے۔تحفظ کے معاملے میں سب سے زیادہ محفوظ مقام یونین ٹریٹری لکشدیپ ہے جہاں پورے سال میں صرف 147 معاملات ہی درج کیے گئے۔یہاں ایک سوال آبادی کے تناسب پر کیا جا سکتا ہے کیونکہ اترپردیش ایک کثیر آبادی والی ریاست ہے جبکہ دوسری ریاستیں آبادی کے لحاظ سے چھوٹی چھوٹی ہیں۔ اس اعتبار سے اگر جرائم کا پیمانہ آبادی کے تناسب کو بنایا جائے تو زیادہ بہتر ہے اس معاملے میں بھی اترپردیش محفوظ مقام نہیں ہے۔اترپردیش میںایک لاکھ کی آبادی پر 287.4جرائم درج کیے گئے جبکہ یونین ٹریٹری دمن دیو میں محض 51.3جرائم درج کیے گئے۔اس طرح اگر جائزہ لیا جائے تو یوپی 20ویں مقام پر نظر آتا ہے جبکہ دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ سب سے زیادہ محفوظ مقام ہے۔تمل ناڈو اس معاملے میں سب سے خطرناک ریاست ہے کیونکہ فی لاکھ کی آبادی پر یہاں جرائم کی شرح 1808.8ہے۔
تعزیرات ہند کے علاوہ اسپیشل ایکٹ جو الگ الگ ریاستوں کے اپنے قوانین ہوتے ہیں ان کے تحت درج معاملات کا جائزہ لینے پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ اترپردیش میں جرائم کی شرح دوسری ریاستوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔جہیز کے لیے ہونے والی اموات کے معاملے میں اترپردیش سرفہرست ہے۔یہ وہ معاملات ہیں جو درج کیے گئے ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تھانوں میں ایف آئی آر درج کرانے کے لیے آج بھی عوام کو کتنی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جتنے بھی معاملات درج ہوتے ہیں، اس کا پچاس فیصد درج ہی نہیں ہوتا ہے۔جس کے بھی بہت سے اسباب ہیں۔تھانے دار خود کو بچانے اور ایس ایس پی و ایس پی کی نظر میں بہتر بنانے کے لیے کم سے کم معاملات درج کرتا ہے تاکہ اعلیٰ افسران کو یہ پیغام جائے کہ جرائم پر قابو ہے، اس سے اس کی اپنی ترقی بھی وابستہ ہوتی ہے،اس لیے جتنے معاملات درج ہوتے ہیں کم از کم اس سے نصف تو درج ہونے سے ہی رہ جاتے ہیں۔
جرائم کے اعداد و شمار اور حکمراں پارٹی کے دعوؤں سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں اخلاقی قدروں سے یکسر تہی دست ہو چکی ہیں،اگر ایسا نہ ہوتا تو کم از کم وہ ایسے دعوے تو نہ کرتیں جن کی کوئی زمینی سچائی نہیں ہے۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام سیاسی لیڈروں کے بیانات کو سچ ماننے کے بجائے کم از کم سرکاری دستاویز کا جائزہ ضرور لیں جو تکنیک نے ہر انسان کی مٹھی میں رکھ دیے ہیں۔کیونکہ اگر سیاسی لیڈران پر بھروسہ کیا گیا تو عوام کی سلامتی،امن و امان اور بھائی چارہ سب خطرے میں پڑ جائے گا جس کی سب سے بڑی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ سیاست دانوں کو عوام کے بجائے صرف کرسی نظر آتی ہے اور کچھ نہیں۔
[email protected]