خواجہ عبدالمنتقم
مجھے یاد ہے کہ تقسیم ہند کے بعد دیگر ریاستوں میں ملازمت نہ ملنے یا تنخواہیں کم ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ روزگار کی تلاش میں دہلی آتے تھے اور یہیں کے ہوکر رہ جاتے تھے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اُس پرآشوب دور میںپرانی دہلی کے علاوہ کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں یہ لوگ رہ سکیں۔ اسی پرانی دہلی کے تین اداروں-شمع، ہمدرداور اینگلوعربک اسکول ودلی کالج میں بیشتر لوگوں کو روزگار ملا۔ وہاں سے ترقی کرکے وہ دیگر اداروں میںچلے گئے۔ ان کی اولادنے بھی یہیں تعلیم حاصل کی اورہر میدان میں بشمول سیاست، صحافت و انتظامیہ میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ یہ ایک اچھا سلسلہ ثابت ہوا ورنہ پرانی دہلی خالی ہوگئی ہوتی چونکہ کافی لوگ پاکستان ہجرت کر گئے تھے اور یہ سلسلہ برابر جاری تھا۔ تعلیمی اداروں کے استاد بھی پاکستان چلے گئے تھے۔دہلی کے سب سے قدیم اسکول اینگلو عربک اسکول/کالج کے اساتذہ میں سے صرف دو اساتذہ جناب یوسف صاحب مرحوم اور ہمارے والد عبدالمقتدر مرحوم یہاں رہ گئے تھے جنہوں نے فسادات کے دوران ان اداروں کو ہونے والے ناقابل تلافی نقصان کو اپنی نم آنکھوں سے دیکھا مگر حالات کا انتہائی مستقل مزاجی سے مقابلہ کیا۔ 60سال کی عمر کا شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو، جس کا تعلق شہر کے اس علاقے سے نہ رہا ہویا نہ ہو۔ تقسیم ہند کے بعدزیادہ تر لوگ کم از کم شروع شروع میں آکر یہیں قیام کرتے تھے۔ان میں سے بہت سے لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ر ہے مگرجب زوال آتاہے تو لوگ نہ صرف انسانوں بلکہ مقامات کی اہمیت کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔ شاہجہاں آباد، اردوئے معلی ودبستان دہلی،(جس نے بقول خواجہ الطاف حسین حالی دبستان لکھنؤکو بھی وقیع تر بنایاچونکہ غدر کے بعد بہت سے اردو شعرا واصحاب قلم لکھنؤ ہجرت کرگئے تھے)کو کون نظر انداز کرسکتا ہے؟ سرسید، علامہ راشدالخیری ومیر وغالب کی یہ دہلی آپ سے کماحقہ احترام و توجہ کی خواہاں ہے۔
کیا ثنا خوان و محبان سر سیدکو اس بات کا علم ہے کہ اگر آپ دریا گنج میں سرسید کے موروثی گھر کی جانب جانا چاہیں تو اس کے دو راستے ہیں، ایک سر سید روڈ سے اور دوسرا گولچہ سنیما کے پیچھے گلی (موجودہ نام پرتاپ گلی،جہاں کسی زمانے میں پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا خاندان رہائش پذیر تھا ) سے تو دونوں جانب آپ کو یکدم یا کچھ دور جا کر پیشاب گھر ملیں گے۔ گولچہ سنیما بند ہوچکا ہے لیکن پیشاب گھر اپنی غلیظ شکل میں موجود ہے اور آتی جاتی خواتین کو وہاں سے نیچی نگاہ کر کے گزرنا پڑتا ہے۔پیشاب گھر کے چاروں طرف ہمیشہ غلاظت کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔ اگر آپ سرسید روڈ سے جائیں گے تو آپ کو سرسید کے موروثی گھر کے سامنے ایک اور پیشاب گھر ملے گا مگر کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا اور نہ ہمارے رہنماؤں کواس کی کوئی فکر ہے۔ہمارے اقبال مند رہنما کہا ںہیں؟ کیا وہ اتنا چھوٹا سا کام بھی نہیں کرا سکتے؟ شاید یہی وجوہات ہیں جو بہت سے لوگ جنہیں اس علاقہ سے جنون کی حد تک محبت تھی اور ہے، اس علاقہ کو چھوڑ کر پہلے اوکھلا چلے گئے اور اب اوکھلا و جامعہ کے علاقہ کی حالت سے بھی بد زن ہو کر نوئیڈا یا گریٹر نوئیڈا شفٹ ہو رہے ہیں۔اب آپ کوہر گلی کوچے میں کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ملے گا۔ باہر سے کسی مہمان کو بلاتے ہوئے شرم آتی ہے،جس کے لیے صرف مکین ہی ذمہ دار نہیں بلکہ کارپو ریشن کا غیر ذمہ دار عملہ بھی ذمہ دار ہے۔
یہ وہی سر سید ہیں جنہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی اور کیمبرج یونیورسٹی کی طرز پرعلی گڑھ میں 1877میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا اور اس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد ڈا لی۔ وہ انگریزی طرزتعلیم کے حامی ضرور تھے مگر وہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کی وکالت صرف اس لیے کرتے تھے کہ مسلمانوں کو توہم پرستی اور جہالت سے نجات دلائی جاسکے۔سر سید کا درج ذیل قول آج بھی چشم کشا اور با معنی ہے جس کی بنیاد پر کسی بھی فورم پر یہ بات بہ آسانی ثابت کی جا سکتی ہے کہ وہ حقیقت میں سید تعلیم کہلانے کے حقدار ہیں:
’علم ایسی چیزہے جو صداقت سکھانے، اخلاق درست کرنے،زندگی کی راہ بتانے، ابنائے جنس کے ساتھ بسر کرنے، اپنے اور دوسروں کے حق پہچاننے میں کار آمد ہے۔ یہ تمام باتیں انسانیت کی ہیں، مگر بغیر علم کے نہیں آتی ہیں۔ بہ حیثیت انسان ہونے کے ہمارا فرض ہے کہ اپنے تئیںانسان بنیں نہ کہ مثل حیوان کے اپنی زندگی بسر کریں۔‘
یہی وہ سر سید ہیں جن کا کہنا تھا کہ ہندوستان کا نام تبھی اونچا ہوگا اور وہ تبھی صحیح معنوں میں ترقی کرے گا جب ہندو اور مسلمان دونوں مل کر کام کریں۔ 1857کے نامساعد حالات میںمسلمانان ہند کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ ایک طرح سے غار تاریکی میں چلے گئے تھے، سرسید انہیں اس غار سے نکال کر پھر سے باوقار شہریوں کی صف میںلاکر کھڑا کرنا چاہتے تھے۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کوکامل درجہ کی تہذیب اختیار کرنے اور ان کا شمار دنیا کی معزز، مہذب اور تعلیم یافتہ قوموں میں کرانے کے خواہاں اور کوشاںتھے۔ انہوں نے اپنے اس تعلیمی خواب کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے1864میں علی گڑھ میںسائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔ اس کا اصل مقصد مغربی علوم کی کتب کے تراجم ہندوستانی زبانوں میں تیار کراکرقوم کے سامنے پیش کرنا تھا تاکہ وہ مغربی تعلیم کی جانب رجوع ہوں اور وہ سائنٹفک و دانشورانہ فکرورویہ اپنائیں۔ اگرسرسید احمد خاں، جنہیں مہاتما گاندھی جیسی عظیم ہستی نے پیامبر تعلیم کہہ کر پکارا، نے اپنے تعلیمی مشن کو عملی جامہ نہ پہنایا ہوتا تو مسلما ن ا ٓج بھی ہر شعبۂ حیات میں کتنے اور پسماندہ ہوتے، اس بات کا اندازہ مسلمانوں کی تاہنوز تعلیمی واقتصادی پسماندگی سے لگایا جاسکتا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر سرسید اس دنیا میں نہ آتے یامابعد مسلمانوں میں انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا رجحان نہ پیدا ہوتا تو ہندوستانی مسلمان تعلیمی اعتبار سے یتیم ہوتے اور مسلمانان ہند کی جدید تعلیم کے اعتبار سے شرح خواندگی کم از کم ملک تقسیم ہونے تک نہایت کم رہتی بلکہ ایک طرح سے منجمد رہتی اور اس کے پگھلنے کا کوئی راستہ نہ نکلتا اور وہ دیگر فرقوں کے مقابلے میں بہت پیچھے رہتے اور رہے بھی۔
صرف یہی نہیں اسی علاقہ میں رضیہ سلطان کی قبر بھی ہے۔جی ہاں وہی رضیہ سلطان جسے ایک بہترین منتظمہ، منصرم اور ایک قابل حکمراں کے طور پر جانا جاتا ہے جس نے غریب، امیر، چھوٹے بڑے، ہندو مسلم غرض یہ کہ ہرشخص کے ساتھ انصاف کیا، مظلوموں کی فریاد سنی، مجرموں کو سزا دی اور اپنے دائرۂ حکومت میں رشوت خوری کا لگ بھگ خاتمہ کردیا۔ مگر افسوس اس کی قبر کو بھی وہ اہمیت حاصل نہیں جو ہونی چاہیے تھی۔
ہو سکتا ہے ہمارا یہ مضمون حکومت دہلی، علیگ برادری اور اردو دوست اداروں و انجمنوںمیں شاید کوئی حرارت پیدا کرے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکر یٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]