حالات کی سختی، آزمائش، پریشانیوں اور سازشوں کا سلسلہ رکنے کی جگہ برابر جاری ہے۔ لوگ ان سے متاثر ہیں، اسی لئے مسلسل ان پر بات و مذاکرات بھی کر رہے ہیں۔ ہاں ترجیحات اور فکر کے اختلاف کے لحاظ سے ان پر بات و مذاکرات کا اندازاور معیار الگ الگ ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کو پیدا کرنے والی اور کائنات کو بنانے والی ذات اللہ نے اس کا کیا حل پیش کیا ہے۔ اس نے جو حل پیش کیا ہے اس پر زمانہ کو گواہ بھی بنایا ہے۔ اس لئے کہ زمانہ نے دنیا کے تمام نشیب وفراز کا مشاہدہ کیا ہے۔اور پھر یہ کہ یہ بات ایسی نہیں ہے جو انسانوں کے تصور سے باہر کی ہواور آسانی سے لوگوں کی سمجھ میں آنے والی نہ ہو۔ لوگوں نے اتار چڑھاؤ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’قسم زمانہ کی۔ انسان در حقیقت بڑے خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘(العصر1-3)۔
اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ کامیابی اور نجات کے لئے چار خوبیوں، صفات، باتوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ کامیابی کی پہلی خوبی اور صفت یہ ہے کہ ’ ایمان لائے‘ یعنی اس ہستی کو جانا، پہچانا اور مانا جائے جس نے پوری کائنات کو بنایا ہے۔ انسانوں کو پیدا کیا ہے، ہر چیز کی مالک ہے، ہر جاندار کی پرورش کرتی ہے، پروردگار ہے۔ اس حقیقت کو جاننے اور پہچاننے کے بعد اس پر جما جائے ’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے‘‘(فصلت:30)۔ کائنات کو بنانے والی اللہ کی ذات کو رسمی طور پر نہیں، پورے شعور کے ساتھ مانا جائے ’’اے ایمان والو! ایمان لاؤ‘‘(النسا:136)۔ دوسری خوبی اور صفت یہ ہے کہ اس ہستی کو جاننے اور ماننے کے بعد اس کی بات بھی مانی جائے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ لوگ اپنا رشتہ نیکی سے قائم کریں ’ نیک اعمال کرتے رہے ‘۔ انسانوں سے جس کردار کو بنانے کے لئے اس ہستی نے کہا ہے، اپنا وہ کردار بنایا جائے۔ ’’ اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو‘‘(انفال:46)۔ فرمابرداری کی کیفیت اللہ سے دوستی والی ہوجائے ’’یقینا اللہ کے دوست ہیں‘‘(یونس: 62)۔
تیسری خوبی اور صفت یہ ہے کہ’حق کی تلقین کرتے رہے‘۔ جو حق اور سچ لوگوں تک پہنچا ہے، جو اچھائی ان تک پہنچی ہے وہ سب تک پہنچے۔ اس کا تذکرہ ہو، چرچا ہو۔ آپس میں بھی ہو اور ہر ایک کے درمیان بھی ہو۔ سچ کو ہر طرف پہنچنا اور سماج کو سچ کی بنیاد پر کھڑا ہونا اور بننا چاہئے۔ ہمارے ملک کا قومی شعار ہے’’ سَتّیَہ مِیوِ جَیتِے‘‘ جو قومی علامت و پرتیک کے نیچے دیوناگری رسم الخط میں منقش ہے۔ اس کا مطلب ہے: سچ ہی جیتتا ہے/سچ کی ہی جیت ہوتی ہے۔ سچ کو لے کر کھڑا ہوا جائے، سچ کے ساتھ کھڑا ہوا جائے ،یہ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ موجودہ حالات اس کا تقاضہ کرتے ہیں۔ لوگوں تک سچ پہنچے اس کا حکم انسانوں کے بنانے والے نے دیا ہے اور اپنے رسول محمد ؐ کو بھی دیا ہے کہ ’’ لوگوں تک پہنچا دیجئے‘‘(المائدہ:67)۔ اللہ نے اپنی بات ماننے والوں سے کہا کہ ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے، تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو‘‘(آل عمران: 110)۔محمدؐ نے فرمایا کہ ’’ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے……جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے ‘‘ (بخاری:6094)۔
سچ اور حق بولا ہی نہ جائے، اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس پر جما بھی جائے اور اس کی گواہی بھی دی جائے۔ ’’ اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ‘‘(المائدہ:8)۔ اسی بات کو ایک دوسری جگہ بھی اللہ نے فرمایا ہے ’’اے ایمان والو! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مولا کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ‘‘(النسا:135)۔ اس میں نفع ونقصان، اپنے پرائے، دوستی اور دشمنی کو نہ دیکھا جائے بلکہ پوری ہمت اور حوصلہ کے ساتھ بے غرض ہو کر سچ اور حق کا ساتھ دیا جائے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ سماج میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوتے ہیں اور آج بھی ہیں جو اپنے فائدے کے لئے نہیں چاہتے کہ سچ بولا جائے، لوگ سچ کی طرف متوجہ ہوں اور سچ کا چلن ہو۔ وہ اپنی زبان اور عمل سے صاف صاف کہتے ہیں کہ جو چاہے بولو اور جس کو چاہو بولو لیکن سچ مت بولو۔ اس وقت بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب معاملہ یہ ہو تو سچ بولنا، سچ پر جمنا، سچ کے ساتھ کھڑے ہونا اور سچ کی گوہی دینا اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔
چوتھی خوبی اور صفت یہ ہے کہ ’صبر کی تلقین کرتے رہے‘۔ اللہ نے حکم دیا ہے کہ’’صبر کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘(انفال:46)۔ یہ اس لئے ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب جھوٹ برائی کے ساتھ سچ کے سامنے آکر کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ جو نہیں چاہتے کہ سچ بولا جائے، سچ کا چلن ہو اور سماج سچ کی بنیاد پر کھڑا ہو۔ وہ سچ بولنے والوں اور اس کا ساتھ دینے والوں کو طرح طرح سے پریشان کرتے ہیں۔ ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ انہیں آزمائش سے دوچار کرتے ہیں۔ ستاتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں اور ظلم وسرکشی کا نشانہ بناتے ہیں۔ تمام انبیا کو اس کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا گیا کہ ’’اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھروں سے مار ڈالوں گا‘‘(مریم:46)۔ دھمکی دی گئی کہ ’’ اپنی بستی سے نکال دیں گے‘‘(الاعراف :88)۔ محمدؐ کو بھی طرح طرح سے ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ ان حالات میں حکم دیا گیا ہے کہ ردعمل، جذباتیت، اشتعال انگیزی میں نہیں آنا ہے بلکہ نرم گفتگو کرنی ہے’’اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے‘‘(النحل:125)۔ شیطان غصہ میں ڈالنے کی کوشش کرے تو اللہ کی پناہ میں آنا ہے اور ٹھنڈے دماغ اور نرم دلی سے حکمت کے ساتھ، بڑے پیار سے سچ بات کہنی ہے۔ برائی کا بدلا بھلائی اور نیکی سے دینا ہے ’’ برائی کو بھلائی سے دورکرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے‘‘(فصلت: 34)۔
انسانوں کو پیدا کرنے والی اور کائنات کو بنانے والی ذات کو مطلوب کردار، خوبیاں اور صفات پیدا ہوجائیں گی تو پھر وہ عظیم ہستی بھی اپنا وعدہ پورا کردے گی کہ ’’ اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا ساتھی ہے‘‘ (العنکبوت:69)۔ ایک اور جگہ اس ہستی نے فرمایا ہے کہ ’’ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کردیتا ہے‘‘ (الطلاق:2)۔ یہاں یہ بات سمجھنے والی ہے کہ حالات اور مشکلات سے نکلنے کا راستہ اللہ بتائے گا، آزمائش سے نکلنے کا دروازہ اللہ کھولے گا۔ یہ کام اللہ نے اپنے ذمہ لیا ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ راستہ اور دروازہ اسی کا ہے’ اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے‘ اور ’ راستہ پیدا کردیتا ہے‘۔ اللہ کو ناراض کر کے اور اپنے بوتے پر راستہ نہیں پایا جاسکتا ہے۔ بنی اسرائیل فلسطین کی سرزمین میں جانے کی اللہ کی بات نہ مان کر اور ناراض کر کے ریگستان سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈھتے رہے۔ وہ ریگستان جس کی لمبائی اور چوڑائی صرف تقریباً ستائیس میل تھی وہ اس میں چالیس سال تک بھٹکتے رہے۔ وہ اپنا سامان لادے پورا دن چلتے تھے، جب شام ہوتی تو خود کو وہیں پاتے جہاں سے چلے تھے۔ یہ اْن کی سزاتھی جو اللہ نے انہیں دی تھی کہ ’’ پس چالیس سال تک وہ زمین(فلسطین) ان پر حرام ہے، یہ زمین(فاران کے ریگستان) میں بھٹکتے پھریں گے‘‘(المائدہ:26)۔ اس وقت بھی اللہ کی نافرمانی کے ساتھ اور چالیس برس سے بھی دوگنی تگنی مدت سے راستہ ڈھونڈھا جارہا ہے اور وہ کام خود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو اللہ نے اپنے ذمہ لیا ہے، اسی لئے راستہ نہیں مل رہا ہے۔ جب اللہ کی بات مان کر اپنی ذمہ داری ادا کی جائے گی تو پاسباں بھی ملیں گے، کامیابی بھی ملے گی اور اللہ کا وعدہ بھی پورا ہوگا۔
qqq
عمیر کوٹی ندوی