فلپائن اور چین کا حالیہ تنازع کوئی چونکانے والا نہیں ہے۔ چین کی توسیع پسندی جگ ظاہر ہے۔ ایک عرصے سے شرقی بحیرۂ چین اور جنوبی بحیرۂ چین کے علاقوں پر چین دعویٰ کرتا رہا ہے۔ اس کا یہ دعویٰ متعدد ملکوں سے اس کے تنازعات کی وجہ ہے۔ شرقی بحیرۂ چین کے ان علاقوں پر وہ دعویٰ کرتا ہے جنہیں جاپان اور جنوبی کوریا اپنا بتاتے ہیں تو جنوبی بحیرۂ چین میں ان علاقوں پر اس کا دعویٰ کرتا ہے جنہیں برونئی، تائیوان، انڈونیشیا، ملیشیا، فلپائن ، ویتنام اپنا اپنا علاقہ بتاتے ہیں۔ جنوبی بحیرۂ چین کا راستہ عالمی تجارت کے لیے بھی اہم ہے۔اس بحری راستے سے3.37 ٹریلین یعنی 33 کھرب اور 70 ارب ڈالر کی عالمی تجارت ہوتی ہے، اس لیے چین کا جنوبی بحیرۂ چین پر قابض ہو جانا متذکرہ ممالک کے لیے ہی باعث تشویش نہیں ہوگا بلکہ عالمی تجارت پر بھی اس کے منفی اثرات پڑیں گے مگر اس ایشو پر عالمی برادری کی بڑی حد تک خاموشی اور امریکہ کی غیر مؤثر حکمت عملی چین کا حوصلہ بڑھاتی جا رہی ہے۔ یہ بات عالمی برادری سے پوشیدہ نہیں ہے کہ امریکہ خود چین کا ایک ٹریلین یعنی 10 کھرب ڈالر سے زیادہ کا قرض دار ہے۔ جاپان کے بعد چین ہی وہ ملک ہے جس نے امریکہ کو سب سے زیادہ قرض دے رکھا ہے۔ اس صورت میں چین کی توسیع پسندی کو روکنے کے لیے کیا امریکہ سے کسی بھی حد تک جانے کی امید کی جا سکتی ہے؟کیا امریکہ سے یہتوقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ فلپائن اور چین کے تنازع میں کوئی مثبت کردار ادا کرے گا اور چین کی طاقت کے بھرم کو توڑنے کی کوشش کرے گا؟
عالمی برادری چین کی توسیع پسندی اور اس کے قرض جال پر توجہ دے گی، یہ امید بھی کم نظر آتی ہے۔ حالت تو یہ ہے کہ ایک عرصے سے چین سے تجارت کرنے والے ممالک اشیا کے ایکسپورٹ اور امپورٹ میں عدم توازن کی شکایت کرتے رہے ہیں مگر اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں نکال سکے۔ امریکہ کا ایکسپورٹ 1.43 ٹریلین ڈالر اور امپورٹ 2.34 ٹریلین ڈالر ہے، ہندوستان کا ایکسپورٹ 313 بلین یعنی 313 ارب ڈالر اور امپورٹ 474 ارب ڈالر ہے تو چین کا ایکسپورٹ اس کے امپورٹ سے زیادہ ہے۔ اس نے گزشتہ سال 2.59 ٹریلین ڈالر کا ایکسپورٹ کیا تو 2.06 ٹریلین ڈالر ہی امپورٹ کیا۔ اس سے کیا اندازہ ہوتا ہے؟ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ کی چین سے ٹریڈ وار چاہے جیسی بھی رہی ہو مگر اس سلسلے میں امریکہ کو اور کام کرنا چاہیے، ورنہ 2028 تک چین اگر واقعی دنیا کی سب سے بڑی اقتصادیات بن گیا تو اس کے بعد مسئلوں کو سلجھانا امریکہ کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ اس وقت چین کی دفاعی اور اقتصادی طاقت کو دیکھتے ہوئے خود کئی ممالک اس سے دشمنی مول لینا نہیں چاہیں گے، اس کے خلاف زبان کھولتے ہوئے بھی سوچیں گے۔ امریکہ کے لیے ابھی موقع ہے کہ وہ سپر پاور والا کردار ادا کرے۔ فلپائن کے معاملے میں چین کو یہ بتائے کہ اس کی منمانی نہیں چلنے دی جائے گی۔ فلپائن ایک خودمختار ملک ہے، چین کی اس کے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش دراندازی سمجھی جائے گی۔
فلپائن کے معاملے میں امریکہ نے اگر کوئی واضح کردار ادا نہ کیا تو یہی سمجھا جائے گا کہ امریکہ عراق اور افغانستان جیسے ملکوں کے خلاف ہی کوئی کارروائی کر سکتا ہے، سبھی ملکوں کے خلاف نہیں، کیونکہ فلپائن کا معاملہ چھوٹا نہیں۔ خود فلپائنی حکومت نے جنوبی بحیرۂ چین کے اس کے علاقے میں 200 سے زیادہ چینی جہازوں کی دراندازی کی بات کہی ہے۔ فلپائن کے وزیر دفاع ڈلفل لورنزانا کا کہنا ہے کہ ’ایسا نہیں لگتا کہ مچھلی پکڑنے والے (چینی) جہاز مچھلی پکڑ رہے ہیںاور ان جہازوں پر چین کے سمندری لڑاکے ہیں۔‘ سوال یہ اٹھتا ہے کہ جنوبی بحیرۂ چین کے 90 فیصد علاقے پر عالمی عدالت چین کے دعوے کو خارج کر چکی ہے تو پھر چین کے دعوؤں کی کوئی بات ہی کہاں رہ جاتی ہے۔ اس کے باوجود جنوبی بحیرۂ چین میں برونئی، تائیوان، انڈونیشیا، ملیشیا، فلپائن ، ویتنام کے علاقوں پر چین کا دعویٰ یہی ثابت کرتا ہے کہ اسے نہ عالمی عدالت کی پروا ہے،نہ امریکہ کے انتباہ کی اور نہ کسی اور ملک کی ناراضگی کی۔ وہ یہ جانتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کب اور کس کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہیں، اس لیے چین کے خلاف فلپائن کو اپنی لڑائی خود لڑنے پر مجبور ہوجانا پڑے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے!
[email protected]
چینی توسیع پسندی باعث تشویش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS