چین کا عالمی ترقیاتی منصوبہ بی آر آئی: کامیاب یا ناکام؟

0

اسد مرزا
’’سری لنکا میں حالیہ معاشی بحران کے بعد ہونے والی سیاسی ہلچل نے ایک مرتبہ پھر چینی کے بی آر آئی منصوبے کو اس بحث کا مرکز بنا دیا ہے کہ آیا یہ کامیاب ہے یا ناکام اور ساتھ ہی اس میں شامل ممالک کے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں۔‘‘
چینی صدر شی جن پنگ نے 2013 میں ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے لیے بہت دھوم دھام اور بڑے وعدوں اور شاندار منصوبوں کے ساتھ بی آر آئی ( بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو)کا آغاز کیا تھا اس وقت اسے چینی خارجہ اور تجارتی پالیسی کا اہم محور قرار دیا گیا تھا۔بنیادی طور پر، BRI کو پہلے ون بیلٹ ون روڈ ) (OBOR کہ جاتا تھا۔ مجموعی طور پر بی آر آئی تقریباً 150 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں میں چینی سرمایہ کاری کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی ایک عالمی حکمت عملی کے طور پر پیش کی گئی تھی۔
شی جن پنگ نے بی آر آئی کو ’’بڑی ملکی سفارت کاری‘‘ کی حکمت عملی کا ایک مرکزی جز قرار دیا تھا، جس کے ذریعے چین اپنی بڑھتی ہوئی طاقت اور حیثیت کے مطابق عالمی معاملات کے لیے زیادہ سے زیادہ قائدانہ کردار ادا کرسکے۔ اگست 2022 تک، 149 ممالک BRI میں شامل ہوچکے تھے، جن میں 18یورپی ممالک بھی ہیں۔
ژی نے دراصل ستمبر 2013 میں قازقستان کے سرکاری دورے کے دوران ’’سلک روڈ اکنامک پلیٹ فارم‘‘ کے طور پر اس نئی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا، جس میں مغربی خطوں کے مشہور تاریخی تجارتی راستوں کے ساتھ خشکی میں گھرے وسطی ایشیا کے مختلف ممالک کو سڑک اور ریل کی نقل و حمل کے لیے نئے مجوزہ زمینی راستوں کے ذریعے جوڑا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی اکیسویں صدی کے ’’میری ٹائم سلک روڈ‘‘ کا بھی اعلان کیا گیا، جو کہ دراصل جنوب مشرقی ایشیا سے ہوتے ہوئے جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک ہند-بحرالکاہل کے سمندری راستوں کے ذریعے قائم کیا جاسکے۔ درحقیقت اس وقت بی آر آئی کو عالمی تجارت اور سفارتکاری پر امریکی بالادستی کو چیلنج کرنے کا ایک شاندار منصوبہ بھی سمجھا جاتا تھا۔
تاہم، سری لنکا میں ہونے والے حالیہ واقعات، جس کی بازگشت بنگلہ دیش، نیپال اور پاکستان سے بھی سنائی دے رہی ہے،اس نے چین پر نظر رکھنے والے کچھ مبصرین کو یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا ہے کہ شاید یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ چینی معیشت کو کووڈ وبا کے دوران جو نقصان پہنچا ہے اس کا اثر BRI پر ہورہا ہے۔ اس پس منظر میں آج ہم عالمی قرضوں کے جال اور چین کی اس معاشی پالیسی سے وصول کنندہ ممالک کے ساتھ تعلقات کا دوبارہ جائزہ لے سکنے کے لیے ایک بہتر پوزیشن میں ہیں۔
آئیے بی آر آئی کے اصل مقصد، اس کی توسیع اور امداد حاصل کرنے والے ممالک پر اس کے طویل اور قلیل مدتی اثرات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا یہ منصوبہ کامیاب رہا ہے یا ناکام اور امریکہ اس کا مقابلہ کس طرح بہترانداز سے کر سکتا تھا یا ابھی بھی کرسکتا ہے۔
2020 میں اپنی رپورٹ میں، رفیق دوسانی، ڈائریکٹر، RAND سینٹر فار ایشیا پیسیفک پالیسی نے رائے دی تھی کہ BRI کے پیچھے چین کا سب سے اہم مقصد اس کی طویل مدتی اقتصادی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔
ساتھ ہی، BRI کے ابھرتے ہوئے زمینی راستوں کو بحیرہ جنوبی چین کے متبادل کے طور پر نشان زد کیا گیاتھا، جہاں سے اُس وقت چین کی تجارت کا زیادہ تر حصہ گزرتا تھا اور جو کہ امریکہ اور چین کے درمیان مسابقت کا میدان بنتا چلا جا رہاتھا۔ اور حالیہ عرصے میں اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہی رونما ہوا ہے۔ ڈوسانی نے بی آر آئی کے ابتدائی استقبال کی وجوہات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ روایتی طور پر، بہت سے ممالک عالمی بینک اور دیگر کثیر جہتی قرض دہندگان کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جو قرض لینے والوں کو اچھے طریقے فراہم کرتے ہیں، جس کے ذریعے مالی قرضہ سیاسی بنیادوں کے بجائے منصوبوں کی کامیابی کے اصولوں پر یعنی کہ ان کی میرٹ پر دستیاب کرائے جاتے ہیں۔ساتھ ہی ، وہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کے نقطۂ نظر سے، دنیا کے ترقیاتی سرمائے تک رسائی مشکل ہے کیونکہ اس طرح کی بہت سی سرمایہ کاری میں اکثر منصوبوں کے ناکام رہنے کا خدشہ رہتاہے، جس کی وجہ سیاسی اور معاشی دونوں بنیادوں پر منحصر رہتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کا اندازہ ہے کہ ایشیائی ممالک کو سالانہ 459 بلین ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کے لیے یہ رقم درکار ہے جو کہ انہیں آسانی سے نہیں مل پاتی۔ یہ منطق ان جذبات کی بھی وضاحت کرتی ہے، جو BRI کے آغاز کے ابتدائی مراحل میں BRI منصوبوں اور چینی فنڈنگ کو پرکشش بنانے کی بنیادی وجہ ثابت ہوئی تھی۔ لیکن بی آر آئی کے آغاز کے نو سال بعد ایسا لگتا ہے کہ کئی ممالک میں معاشی بحرانوں کی وجہ سے، جس نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی،ملکوں کی ترقی اور خوشحالی کی آڑ میں چین سے بہت زیادہ قرضہ حاصل کرلیا تھا۔
بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ اے ایچ ایم مصطفیٰ کمال نے عوامی طور پر سری لنکا میں معاشی بحران کو بڑھانے کے لیے اقتصادی طور پر ناقابل عمل چینی BRI منصوبوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو بی آر آئی کے ذریعے مزید قرض لینے کے بارے میں دو بار سوچنا چاہیے کیونکہ عالمی افراط زر اور سست شرح نمو مقروض ابھرتی ہوئی منڈیوں پر دباؤ ڈالتی ہیں اور اس بنا پر زیادہ تر ممالک قرضے واپس کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ساتھ ہی چینی بی آر آئی کے خلاف موقف صرف برصغیر ہندوپاک تک ہی محدود نہیں ہیں، اس کی ایک دوسری مثال کینیا میں بھی موجود ہے۔جہاں پر کہ 4.7 امریکی ڈالر کے رکے ہوئے ریلوے منصوبے میں بھی اس کی بازگشت سنائی دے سکتی ہے۔ اپنے آغاز کے پانچ سال بعد، یہ منصوبہ یوگنڈا میں اپنی منزل سے 200 میل دور ایک خالی میدان میں اچانک ختم ہو گیاہے اور اس کے مکمل ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ہیں۔
دراصل چین اور امریکہ کے درمیان بی آر آئی کے علاوہ اصل تنازعہ عالمی تجارت اور منڈیوں پر اپنا قبضہ جمانا ہے۔ بعض ماہرین نے چین کے بی آر آئی کے ارادوں پر سوالیہ نشان لگا نے شروع کردیے ہیں۔ اسے غریب ریاستوں کے لیے قرضوں کے جال اور چین کے لیے اپنے علاقائی کنٹرول کو بڑھانے کا ایک ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے، لیکن کیا یہ حقیقت ہے؟ کیا ریاست ہائے متحدہ اس میں حصہ لینے یا متوازی سرگرمیاں شروع کرنے کا موقع کھو رہا ہے؟بی آر آئی پر بار بار قرضوں کے جال اور اقتدار پر قبضے کرنے کا لیبل بھی لگایا گیا ہے، اور شاید یہ ایک ممکنہ منظر نامہ بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم، اس تصور کو ایک حالیہ تحقیق نے ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں چائنا افریقہ ریسرچ انیشیٹو کی ڈائریکٹر ڈیبورا براوٹیگم کو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ چینی بینک ان ممالک میں قدم جمانے کے لیے خسارے میں جانے والے منصوبوں میں زیادہ قرضے دیتے ہیں یا سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ یہ بات انھوں نے افریقہ کو چینی قرضے دینے پر اپنی ایک تحقیق میں نوٹ کی ہے، لیکن اس کی صداقت اور غیر جانبدارانہ موقف پر بھی سوالیہ نشان لگنے شروع ہوگئے ہیں۔درحقیقت، چین کو برا بھلا کہنے کے بجائے، امریکہ کو غریب ممالک کو بنیادی ڈھانچے کے قرضے دینے میں نئی پالیسیاں اپنانی چاہئیں۔ اورایسے منصوبوں کے لیے کثیر جہتی عالمی بینکوں کے لیے آسان شرطوں پر قرض مہیا کرانے کو یقینی بنایا جاسکے ، جس سے کہ ان ملکوں میں نوکر شاہی کی بدعنوانیوں کو کم کیا جاسکے اور ساتھ ہی امریکہ کو کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک میں بھی اسی طرح کے ترقیاتی منصوبوں کی فنڈنگ شروع کرنی چاہئیں۔
دوسری جانب اپنی شبیہ کو بہتر کرنے کے لیے، چین کو BRI سودوں کے ارد گرد شفافیت کو بہتر بنانا چاہیے۔ عالمی بینک اور دیگر اداروں نے بھی اس سلسلے میں شفافیت بڑھانے پر زور دیا ہے۔ یہ بی آر آئی کے بارے میں چین کے ارادوں کے بارے میں امریکہ اور دیگر ممالک کے خدشات کو ختم کرنے میں مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔
مجموعی طور پر بی آر آئی کو مکمل طور پر فی الوقت کامیاب یا ناکام نہیں قرار دیا جاسکتا ، کیونکہ جس طریقے سے عالمی معیشت کورونا بحران کے بعد سنبھلنے کی کوشش کررہی ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کے ذریعے بی آر آئی کی حقیقت آنے والے دنوں، سالوں میں اور واضح ہوجائے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS