امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اب چین کے خلاف واضح موقف اختیار کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اسی لیے چین سے ٹریڈوار چھیڑنے کے ساتھ امریکہ نے تائیوان کو اہمیت دینی شروع کی۔ امریکہ کی یہ نئی پالیسی بائیڈن بھی آگے بڑھا رہے ہیں اورایسا لگتا ہے کہ ان کے بعد آنے والے امریکی صدور بھی اس پالیسی کو بدلیں گے نہیں، کیونکہ امریکیوں کی طرف سے چین کے خلاف جنگ کرنے کی آواز اٹھنے لگی ہے اور کب کون سا واقعہ امریکہ اور چین کو میدان جنگ میں لے آئے، یہ کہنا مشکل ہے۔ امریکہ کی بری فوج کے ساتھ فضائیہ اور بحریہ بھی کافی مضبوط ہے مگر سمجھا جاتا ہے کہ ادھر کے برسوں میں چین نے بھی بحریہ کو کافی مضبوط کر لیا ہے اور سمندر میں امریکہ کا اس سے ٹکر لینا آسان نہیں ہوگا۔ بری فوج کے معاملے میں روس کافی مضبوط ہے، کیونکہ سب سے زیادہ ایٹم بم اسی کے پاس ہیں اور اس کے بعد ہی امریکہ کا نمبر آتا ہے، البتہ فضائیہ کے معاملے میں چین اور روس پر امریکہ کو برتری حاصل ہے، اس لیے کسی بھی جنگ میں امریکہ کی پوزیشن مستحکم رکھنے میں اس کی فضائیہ کے ہی زیادہ اہم رول نبھانے کی توقع ہے۔
بات اگر امریکہ اور چین کے دفاعی بجٹ کی کی جائے تو 2020 میں امریکہ کا 778 ارب ڈالر اور چین کا 252 ارب ڈالر دفاعی بجٹ تھا۔ اگر جی ڈی پی میں دیکھیں تو 2020 میں امریکہ نے جی ڈی پی کا 3.74 فیصد اور چین نے 1.75 فیصد دفاع پر خرچ کیا تھا۔ 2019تک امریکہ کے پاس تقریباً 1,388,000 اور چین کے پاس 2,535,000 مسلح فوجی تھے۔ زیادہ ایٹم بم رکھنے کے معاملے میں امریکہ دوسرے اور چین چوتھے نمبر پر ہے۔ امریکہ کے پاس 5,113 اور چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ ایٹم بموںکے علاوہ بھی دونوںملکوں کے پاس کئی جدید ہتھیار ہیں اور وہ مسلسل نئے ہتھیار بنانے اورخود کو مضبوط بنانے پر کام کر رہے ہیں۔
بحریہ کے جنگی جہازوں کے معاملے میں چین نے امریکہ کو پیچھے چھوڑدیا ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی بحریہ کو مسلسل زیادہ سے زیادہ مضبوط بنا رہا ہے۔ خود امریکی بحریہ یہ پیش گوئی کر چکی ہے کہ 2020سے 2040کے درمیان چین بحریہ کے جہازوں میں مزید 40فیصد کا اضافہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ چین ایسا کیوںکر رہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چین جانتا ہے،دنیا کی 75 فیصد سے زیادہ تجارت سمندر کے راستے ہوتی ہے۔ وہی ملک اقتصادی طور پر خوش حال رہتا ہے جو سمندر پرراج کرتا ہے۔ اسی لیے وہ بحریہ کو زیادہ مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ بحریہ کو زیادہ مضبوط کرنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ بحیرۂ شرقی چین میں علاقوں پر قبضے کے سلسلے میں اس کا تنازع جاپان اور جنوبی کوریا سے ہے تو بحیرۂ جنوبی چین میں اس کا تنازع کئی ملکوں سے ہے۔ ان میں تائیوان اور برونئی بھی ہیں، ملیشیا اورانڈونیشیا بھی۔ مختلف ملکوں کے دفاعی بجٹ کو دیکھ کر بھی یہ لگتا ہے کہ چین دفاع کے معاملے میں امریکہ کوپیچھے چھوڑدینے کے لیے بے چین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے دفاعی بجٹ کے اتنا تو اس کا دفاعی بجٹ نہیں ہے مگرامریکہ کے بعد چین کا دفاعی بجٹ ہی سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد ہندوستان، پھر روس اور پھر برطانیہ اور اس کے بعد جاپان کا نمبر آتا ہے۔ تب فرانس اور سعودی عرب کا۔ اس کے بعد جرمنی اور جنوبی کوریا کالیکن تنہا چین کا بجٹ جاپان، فرانس، سعودی عرب،جرمنی اور جنوبی کوریا کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اگر امریکہ اور چین کے درمیان جنگ ہوئی تووہ کیسی جنگ ہوگی۔ n