گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں ختم ہوا دوقطبی نظام لگتا ہے پھر واپسی کررہا ہے۔ حالاں کہ چین کے توسیع پسندانہ جنون اور اس کے بڑھتے قد کے سبب اس بات کے اشارے کافی پہلے سے ہی ملنے شروع ہوچکے تھے، لیکن حال ہی میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے 100ویں یوم تاسیس پر صدر شی جن پنگ کی زہریلی باتوں نے اس خدشہ کو مزید پختہ کردیا ہے۔ بیجنگ کے تاریخی تھیانمین اسکوائر سے اپنے خطاب میں جن پنگ نے تقریباً دھمکاتے ہوئے کہا کہ جو بھی چین کے اتحاد، سالمیت اور خودمختاری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا، اس کا سر کچل دیں گے، خون بہا دیں گے۔ عوامی طور پر قومی صدر اس طرح کی زبان کا استعمال نہیں کرتے، طالبان بھی نہیں۔ قرون وسطیٰ اور تقریباً نفرت کی حد تک جانے والی اس غیرمہذبانہ مظاہرہ کے دوران جن پنگ نے کسی ملک کا نام تو نہیں لیا، لیکن اس کا راست اشارہ امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سمجھا جارہا ہے۔ ویسے تو چین کی اس بوکھلاہٹ کے کئی اسباب شمار کیے جاسکتے ہیں، لیکن فوری وجہ ہانگ کانگ اور تائیوان کے معاملہ میں امریکہ کا مسلسل دخل ہے۔ تائیوان کو اپنے ساتھ جوڑنا چین کا تاریخی ہدف ہے اور اس آرزو کو اس نے کبھی چھپایا نہیں ہے۔ عالمی تجارت کے نظریہ سے اسٹرٹیجک اہمیت رکھنے والے بحیرئہ جنوبی چین(ساؤتھ چائنا سی) میں تسلط کی جنگ میں بھی امریکہ اس کی راہ میں روڑا بنا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سپرپاور اور ٹریڈ وار کے مسئلہ پر پہلے سے ہی تلواریں کھنچی ہوئی ہیں۔ چین کی فطرت ایسی ہے کہ وہ ہدف تو طے کرتا ہے لیکن اس کے حصول کے لیے کوئی اصول طے نہیں کرتا۔ اس تاناشاہی لالچ کے سبب اس کا جمہوری نظام سے ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اس لیے چین صرف امریکہ کے لیے چیلنج نہیں ہے، بلکہ امریکہ سے بنے دوستانہ گٹھ بندھنوں والے عالمی نظام کے لیے بھی خطرہ ہے۔ چین سے متعلق بائیڈن انتظامیہ کا ماننا ہے کہ وہ روس، ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک کے ساتھ گٹھ بندھن بنارہا ہے جو دنیا کے امن کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بیشک اس خدشہ میں خود امریکہ کے لیے بڑا چیلنج پوشیدہ ہے اور جس کی کاٹ کے لیے ایک مضبوط گٹھ بندھن بنانے کی سطح پر وہ بھی چین سے الگ نہیں ہے۔
ویسے چین کے ’دوست‘ گنانے میں امریکہ ایک نام بھول گیا ہے اور وہ ہے پاکستان۔ کل تک امریکہ کے آگے پیچھے گھومنے والے اور اب کنگال ہوچکے پاکستان کو چین نے معاشی مدد کی ایسی گھٹی پلائی کہ وہ امریکہ کو ہی آنکھیں دکھانے لگا ہے۔ اویغور مسلمانوں پر چین کے رُخ کی طرف داری کرتے کرتے پاکستان نے امریکہ کو ٹکا سا جواب دے دیا ہے کہ وہ کتنا بھی دباؤ بنالے، چین سے اس کا رشتہ نہیں بدلے گا۔ بات کتنی آگے بڑھ گئی ہے، یہ اس بات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان چین کو مغربی جمہوریت کا متبادل بنانے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔
ویسے تو چین کی اس بوکھلاہٹ کے کئی اسباب شمار کیے جاسکتے ہیں، لیکن فوری وجہ ہانگ کانگ اور تائیوان کے معاملہ میں امریکہ کا مسلسل دخل ہے۔ تائیوان کو اپنے ساتھ جوڑنا چین کا تاریخی ہدف ہے اور اس آرزو کو اس نے کبھی چھپایا نہیں ہے۔ عالمی تجارت کے نظریہ سے اسٹرٹیجک اہمیت رکھنے والے بحیرئہ جنوبی چین(ساؤتھ چائنا سی) میں تسلط کی جنگ میں بھی امریکہ اس کی راہ میں روڑا بنا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سپرپاور اور ٹریڈ وار کے مسئلہ پر پہلے سے ہی تلواریں کھنچی ہوئی ہیں۔
ان واقعات میں ہمارے لیے بھی پیغام ہے۔ ایک وقت افغانستان میں طالبان کے خلاف جس طرح پاکستان امریکہ کی مجبوری بن گیا تھا، اسی طرح ہندوستان کے خلاف آج پاکستان چین کے لیے ضروری ہوگیا ہے۔ چین اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جس طرح عالمی سطح پر امریکہ اس کے لیے چیلنج ہے، اسی طرح ایشیا میں اکیلا ہندوستان ہی اسے روکنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ڈوکلام سے لے کر گلوان تک اس کے کئی ثبوت دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ توازن کتنا قائم رہتا ہے، یہ کافی حد تک روس کے رُخ پر منحصر کرے گا۔ اس پیمانہ پر امریکہ کا ساتھ ہندوستان کے لیے تنی رسی پر چلنے جیسا ہے۔ ہندوستان ہی کی طرح روس بھی ہمیشہ یہی کہتا آیا ہے کہ دونوں ممالک کے دوستانہ تعلقات کی بنیاد آپسی اعتماد ہے، لیکن جب بات امریکہ کی آتی ہے تو روس کا ہاتھ چین کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے کواڈ ایک بہترین مثال ہے۔ کواڈ میں ہندوستان کی شراکت داری سے متعلق روسی صدر پتن نے صاف کہا ہے کہ کسی قوم کو کسی پہل میں کس طرح شامل ہونا چاہیے اور دیگر ممالک کے ساتھ کس حد تک تعلقات بنانے چاہیے، اسے طے کرنے کا ماسکو کو کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن جب سوال پورے کواڈ پر ردعمل کا ہو تو پتن اپنی رائے صاف کرچکے ہیں کہ ممالک کے درمیان شراکت داری آپسی مفادات پر مبنی ہونی چاہیے، نہ کہ کسی دوسرے ملک کے خلاف صف آرائی پر۔یہ بات بیجنگ کی اس سوچ سے میل کھاتی ہے کہ کواڈ ہندبحرالکاہل کے علاقہ میں چین پر لگام لگانے کی امریکی سازش ہے۔
لیکن یہ سب باتیں اب تاریخ بن سکتی ہیں۔ گزشتہ پندرہ دنوں کے عرصہ میں جنیوا میں پتن اور بائیڈن کے درمیان ہوئے سربراہی مذاکرات کو کئی ماہرین دبی زبان میں گیم چینجر تک کہہ رہے ہیں۔ تمام ماہرین کے مطابق بائیڈن چین کے خلاف ایک بڑا محاذ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یوروپین یونین اور ناٹو کے بعد حال میں ہوئی جی-7کی چوٹی کانفرنس میں بھی بائیڈن کو اس سوچ کو مضبوط بنانے میں کامیابی ملی ہے۔ ایشیا اور ہند بحرالکاہل کے علاقہ میں چین سے پریشان جاپان، انڈونیشیا، ویت نام، آسٹریلیا جیسے ممالک کے لیے تو یقینا یہ ایک خوش خبری ہے۔ اب ایسی بھی خبریں ہیں کہ سربراہی مذاکرات میں بائیڈن نے چین کے سلسلہ میں پتن کا دل ٹٹولا ہے۔ روس کی چین سے نزدیکی کو دیکھتے ہوئے بائیڈن کی یہ کوشش گستاخی جیسی نظر آتی ہے، لیکن بائیڈن روس کی مجبوری کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ چین کی توسیع پسندانہ پالیسی نے روس کو بھی نہیں بخشا ہے۔ پھر مغربی ممالک سے دوری بنانے کی روس کی پالیسی کا فائدہ اٹھاکر چین نے گزشتہ تقریباً ایک دہائی میں اس جگہ پر قبضہ کرلیا ہے جو کبھی روس کی ہوا کرتی تھی۔ پتن کی حکومت رہتے ہوئے روس بیشک چین کا پچھ لگّونہ بنے، لیکن وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہے کہ چین اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو برابری سے کمتر ہی سمجھتا ہے۔ ایسے میں ممکن ہے کہ روس پوری طرح نہیں، بلکہ کچھ ایشوز پر ہی سہی امریکہ کے ساتھ آجائے۔ ایسا فوراً تو ہوتا نہیں نظر آتا، لیکن جب بھی ہوگا تو اس کے دوررس نتائج ہوں گے۔ صرف امریکہ کے لیے ہی نہیں، ہندوستان کے لیے بھی۔ ایسے میں کیا کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی صدی تقریب میں نظر آئی جن پنگ کی بے چینی کا اس کے خلاف بنائے جارہے ’چکرویوہ‘ کے واقعات سے کوئی کنکشن جوڑا جاسکتا ہے؟
اُپیندررائے
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)