صبیح احمد
ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ ایک تاریخی قدم ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ چین نے اس معاہدہ کو کروانے میں کامیابی کے ساتھ ثالث کا کردار ادا کیا جس کا دور رس پیغام جاتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جاری دشمنی کا اثر پورے مشرق وسطیٰ میں نظر آرہا ہے۔ جیسا کہ یمن میں حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل رہی ہے، وہاں کی حکومت کی حمایت کرنے والے فوجی اتحاد کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ یہی نہیں لبنان، شام اور عراق جیسے ممالک کے اندر جاری جنگ میں ایران ایک گروپ کے ساتھ اور سعودی عرب دوسرے گروپ کے ساتھ ہے۔
مغربی ایشیا پر طویل عرصہ سے یوروپ اور امریکہ کا غلبہ رہا ہے اور مغربی ایشیا کے تمام آزاد ممالک کمیونسٹ مخالف اور مغرب نواز رہے ہیں۔ یہ تمام ممالک سرد جنگ کے دوران امریکی کیمپ سے وابستہ رہے لیکن اب تاریخ بدل رہی ہے۔ اب مغربی ایشیا میں ایک نئی تحریک چل رہی ہے۔ روایتی طور پر کمیونسٹ مخالف مغربی ایشیا میں ایک کمیونسٹ طاقت یعنی چین اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ چین نے سعودی عرب اور ایران کی دشمنی میں دوستی کا رنگ بھرنے کی کامیاب کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب سفارتی تعلقات بحال کرنے جا رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ پورا مغربی ایشیا امریکی تسلط سے باہر آ رہا ہے۔ یہ بات صرف سعودی عرب اور ایران تک محدود نہیں ہے، بلکہ ان کے سفارتی تعلقات میں بحالی کے اعلان سے پہلے بھی بہت کچھ ہورہا تھا جو معمول سے ہٹ کر تھا۔ گزشتہ سال اپریل میں ترک صدر رجب طیب اردغان نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور پھر جون میں سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نے ترکی کا دورہ کیا۔ اس سے قبل نومبر2021 میں ابوظہبی کے ولی عہد اور متحدہ عرب امارات کے موجودہ صدر شیخ محمد بن زید النہیان نے ترکی کا دورہ کیا اور فروری 2022 میں ترک صدر رجب طیب اردغان بھی متحدہ عرب امارات کے دورے پر گئے۔ گزشتہ ماہ شام کے صدر بشار الاسد نے اپنی اہلیہ اسماء الاسد کے ہمراہ متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ اس سے قبل 2011 میں جب شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو سعودی عرب کی طرح متحدہ عرب امارات بھی باغیوں کے ساتھ تھا اور دونوں ممالک چاہتے تھے کہ صدر اسد اقتدار چھوڑ دیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ مغربی ایشیا میں آنے والی حالیہ تبدیلیوں میں مسلکی دیواریں بھی گر جائیں گی۔ سعودی عرب 19 مئی سے ریاض میں شروع ہونے والے عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں شام کے صدر بشار الاسد کو مدعو کرنے جا رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے موقف سے یہ واضح ہے کہ وہ شام 2011 سے اس کے علاقے میں موجود تنہائی کو ختم کرنے جا رہا ہے۔ ادھر2015 سے یمن میں سعودی عرب اور ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے درمیان جاری خونریز جنگ بھی ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ امکان ہے کہ یمن میں جنگ کے خاتمہ کا اعلان عید سے پہلے ہی ہو جائے۔
درحقیقت گزشتہ کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا اثر و رسوخ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ چین کی ثالثی میں ہونے والے ایران-سعودی عرب معاہدہ کو مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور بڑھتے ہوئے کردار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ سعودی عرب اور ایران جیسے 2 طاقتور پڑوسی علاقائی تسلط کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازع بڑھانے میں امریکہ اور اسرائیل جیسی بیرونی طاقتوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ سعودی عرب کے حالیہ فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے اب امریکہ کی پرواہ نہیں ہے۔ سعودی عرب اب کثیر قطبی(ملٹی پولر) دنیا کی بات کرنے لگا ہے اور وہ امریکہ کی پرواہ کیے بغیر جرأت مندانہ فیصلے لے رہا ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے اور ایران کے ساتھ دشمنی ختم کرنے میں مصروف ہے۔ اب پرانے حریفوں کے ساتھ میل جول رکھنا شروع کر دیا ہے، نئے دشمنوں کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے اور سپر پاورس کے درمیان توازن قائم کر رہا ہے۔ روس، چین اور امریکہ جیسی سپر پاورس کے درمیان توازن قائم کرنے کیلئے جو کچھ کیا جا سکتا ہے، وہ سب کچھ کر رہا ہے۔ سعودی عرب یہ تمام کوششیں اپنی معیشت کی بحالی کے لیے کر رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر سعودی عرب اپنی خارجہ پالیسی کو آزادانہ طور پر چلاتا ہے اور سفارتکاری کے ذریعہ علاقائی استحکام کی بحالی میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کے مغربی ایشیا اور دنیا کے دیگر ممالک کے علاوہ خصوصاً ہندوستان پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
ایران اور سعودی عرب دنیا کے 2 بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک ہیں اور ان کے درمیان کوئی بھی تنازع تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے، جس کا ہندوستان کی توانائی کی سلامتی پر خاصا اثر پڑ سکتا ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے سے تیل کی عالمی قیمتوں کو مستحکم کرنے اور ہندوستان کو تیل کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور سعودی عرب دونوں ہندوستان کے اہم تجارتی شراکت دار ہیں۔ مغربی ایشیا میں ہندوستان کے مفادات مختلف ممالک سے منسلک ہیں اور متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اس کے تیسرے اور چوتھے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ ہندوستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے مغربی ایشیا پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے تقریباً 90 لاکھ لوگ خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں اور اربوں ڈالر کما کر ملک بھیجتے ہیں۔ اس سے ملک کی معیشت کو تقویت ملتی ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے سے تجارت اور سرمایہ کاری کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں، جس سے ہندوستان کے لیے اقتصادی مواقع بڑھ سکتے ہیں۔ ہندوستان کے مشرق وسطیٰ میں ’بین الاقوامی شمالی-جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور‘ (INSTC) سمیت مضبوط اقتصادی اور اسٹرٹیجک مفادات ہیں۔ ایران ہندوستان کے توسیعی پڑوس کا حصہ ہے۔ اس خطہ میں کسی بھی قسم کا عدم استحکام ہندوستان کے لیے دور رس نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے سے خطہ کو مزید مستحکم بنایا جا سکتا ہے، جس سے تنازعات اور دہشت گردی کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے سے خطہ میں امن و سلامتی کو فروغ دینے کی ہندوستان کی کوششوں میں مدد مل سکتی ہے لیکن اسٹرٹیجک مفادات کے لحاظ سے ایران اور سعودی کے درمیان چین کی ثالثی ہندوستان کے لیے چیلنجز کا باعث ہے کیونکہ اس سے خطہ میں چینی اثر و رسوخ میں اضافہ میں مدد ملے گی۔ بہرحال مغربی ایشیا میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ چین اس خطہ میں ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر ابھر رہا ہے، لیکن ہندوستان کہاں کھڑا ہے؟
[email protected]