پنکج چترویدی
جنوبی دہلی کے آر کے پورم، بھیکاجی کاما پلیس سمیت بیشتر ٹریفک سگنلس پر جیسے ہی لال بتی ہوتی ہے، سات-آٹھ سال کی کچھ بچیاں ایک لوہے کا چھلّا لے کر آ جاتی ہیں، ایک بچہ ڈھولکی بجاتا ہے اور بچی کرتب دکھاتی ہے-آدھے ایک منٹ بعد ہی ان کے ہاتھ بھیک کے لیے پھیل جاتے ہیں۔ یہ روز کا تماشہ ہے اور بچوں کو تپتی سڑک پر کرتب کی آڑ میں بھیک مانگتا دیکھ کراب شاید ہی کسی کے دل میں کسک اٹھتی ہو۔ چیتھڑوں میں لپٹے اور ننگے پیر چار سے آٹھ دس سال کی عمر کے یہ بچے علی الصباح ہی سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ تھوڑے سے جسم کو توڑنے مروڑنے کے بعد دھتکارے جانے کے ساتھ کچھ ایک سے پیسہ مل جانے کی خوشی بھلے ہی انہیں ہوتی ہو، لیکن یہ خوشی اس ملک کے لیے کتنی مہنگی پڑے گی، اس پر غور کرنے کی زحمت کوئی بھی حکومتی یا رضاکار تنظیم نہیں کررہی ہے۔
یونیسیف کے مطابق گزشتہ 6 سالوں میں ملک میں 7 کروڑ بچہ مزدوروں میں اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن آئی ایل او اور یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق سال 2016 میں ملک بھر میں تقریباً 9.40 کروڑ بچہ مزدور تھے جو اب بڑھ کر 16 کروڑ ہو گئے ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ایچ آر، شہر، قصبہ، مین روڈ، ٹرانسپورٹ میں ہاتھ پھیلانے والے بچوں کو ہی چائلڈ ایس ایچ آر ایم میں شامل کیا گیا ہے۔ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے، ذرا سوچئے، ملک کی کل آبادی کا 21.87 فیصد یہ طبقہ آنے والے دنوں میں کس ہندوستان کی تعمیر کرے گا، اس پر ہر طرف خاموشی ہے۔ ٹریفک سگنل پر بھیک مانگنا، ٹرین-بس میں بھونڈی آواز میں گانا گانے کے علاوہ، ان معصوموں کا استعمال اور بھی طریقوں سے ہوتا ہے۔ کچھ بچے (بالخصوص لڑکیاں) بھیڑ میں پرچہ تقسیم کرتی ہوئی نظر آئیں گی کہ وہ گونگی ہیں، ان کی مدد کرنی چاہیے۔ چھوٹے بچوں کو سڑک کے بیچوں و بیچ لٹا کر بیمار ہونے یا مرجانے کا ڈرامہ کرکے پیسہ اینٹھنے کا کھیل اب چھوٹے چھوٹے قصبات تک پھیل گیا ہے۔ متھرا، کاشی جیسے مذہبی مقامات پر ’بال برہمچاریوں‘ کی شکل میں بھیک مانگنا عروج پر ہے۔ اس کے علاوہ جادو یا سانپ نیولے کا کھیل دکھانے والے مداری کے جمورے، سیکنڈ کلاس ڈبوں میں جھاڑو لگا کر اور کراسنگ پر کار-اسکوٹر کی دھول جھاڑنے جیسے کام کرنے والے یا راست بھیک مانگتے بچے سرعام مل جائیں گے۔
ایک اندازے کے مطابق ملک میں تقریباً پچاس لاکھ بچے ہاتھ پھیلائے ایک کمزوراور لاحاصل ہندوستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ستر کی دہائی میں ملک کے مختلف حصوں میں کچھ ایسے گروہوں کا پردہ فاش ہوا تھا، جو اچھے بھلے بچوں کو اغوا کر کے انہیں بڑی بے رحمی سے معذور بناکر بھیک منگواتے تھے۔ یہ شیاطین بچوں کی خرید و فروخت بھی کرتے تھے لیکن نوے کی دہائی آتے آتے اس مسئلے کا رنگ ڈھنگ بدل گیا ہے۔ ایسے گروہوں کے علاوہ بڑے شہروں میں ’سلم کلچر‘ سے بدکاری اور بدعملی کے جو تخم لہو پیدا ہوئے، ان میں اب اپنے سگے بچوں کو ہی بھیک مانگنے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ہارمونیم لے کر بسوں میں بھیک مانگنے والے ایک بچے سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے والدین اسے صبح چھ بجے جگا دیتے ہیں۔ بغیر منہ دھوئے یا نہائے انہیں ایسے بس روٹس کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے، جہاں دفتر جانے والوں کی کثرت ہوتی ہے۔ بھوکے پیٹ بچے دن میں 12 بجے تک ایک بس سے دوسری بس میں چڑھ کر وہی الاپتے رہتے ہیں۔پھر یہ شام4.30 بجے سے رات 8.00 بجے تک بسوں کے چکر لگاتے ہیں۔ روزانہ اوسطاً 50 سے 75 روپے ایک میوزک پارٹی کمالیتی ہے۔ یہ بھکاری زیادہ تر فٹ پاتھوں پر ہی رہتے ہیں۔ ماں جہاں بھیک مانگتی پھرتی ہے، وہیں باپ نشہ کرکے دن گزارتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نشہ خریدنے کے لیے پیسے بچوں کی مشقت سے ہی آتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بھیک مانگنے والی لڑکیاں 14 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ماں بن جاتی ہیں اور دبلے پتلے جسم پر مرگلہ سا بچہ آمدنی کا ایک اچھا ’ایکسپوزر‘بن جاتا ہے۔
آنکھ کھلتے ہی حقارت، دھتکار اور محنت کی قدر میں کمی کے احساس کے شکار یہ بچے کس حد تک مایوس ہوتے ہیں، اس کی ایک عبرتناک مثال دہلی کی ایک متوسط طبقے کی کالونی کے باغ میں بچوں کے درمیان ہو رہے جھگڑے کا یہ واقعہ ہے۔ کچھ بھکاری بچے (عمر سات سے نو سال) کالونی کے جھولے پر جھولنے لگے۔ کالونی کے اتنی ہی عمر کے بچے جھولے کو خالی کرانا چاہتے تھے۔بھکاری بچی غصے میں کہتی ہے، ’بھگوان کرے تمہارا بھی باپ مر جائے۔ جب کسی کا باپ مرتا ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے۔‘ کالونی کے بچے نے کہا، ’تجھ سے کیا منہ لگیں، تو تو فٹ پاتھ پر سوتی ہے۔‘ ’ایک دن فٹ پاتھ پر سوکر دیکھ لے، پتا چل جائے گا۔‘ مشکل سے 9 سال کی اس بھکاری بچی کے دل میں سماج اور عدم مساوات کو لے کر بھرا زہر کس حد تک پہنچ گیا ہے، یہ اس بات چیت سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ زہر ہندوستان کے مستقبل پر کیا اثر ڈالے گا، یہ سوال ابھی کہیں کھڑا ہی نہیں ہو پا رہا ہے، حل کی بات کون کرے!
بچہ مزدوری کی روک تھام کا قانون ہو یا پھر گداگری کی روک تھام کے قانون کے تحت بھیک مانگنے پر ایک سے تین سال تک قید کی سزا کا التزام ہو، لیکن کئی ریاستوں میں سپیرے،مداری، نٹ، سادھو وغیرہ کو قدیم ہندوستانی لوک فن اور ثقافت کا محافظ سمجھا جاتا ہے اور وہ اس ایکٹ کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں، البتہ بھکاری بچوں کو پکڑنے کی زحمت کوئی سرکاری محکمہ نہیں کرتا ہے۔ پھر اگر اس سماجی مسئلے کو قانونی ڈنڈے سے ٹھیک کرنے کی سوچیں تو ناکامی ہی ہاتھ لگے گی۔ ملک کے چائلڈ ریفارم ہومز کی حالت جرائم کی فیکٹری سے زیادہ نہیں ہے۔ یہاں بچوں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جاتا ہے۔ بھوک سے بے حال بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ بچوں کے بھیک مانگنے کے مسئلے کی بحث چائلڈ لیبر کے بغیر ادھوری لگے گی۔ ملک میں بچپن بچانے کے نام پر چلنے والی دکانوں کی طرف سے چائلڈ لیبر کی روک تھام کے نعرے صرف ان صنعتوں کے اردگرد گھومتے نظر آتے ہیں جن کی مصنوعات سے ملک کو زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ بھوک سے بے حال بچے کے پیٹ کی اور ذہنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نہ تو قانون یا حکومت اہل ہے، نہ ہی معاشرہ بیدار۔ ایسے میں بچہ اگر بچپن سے کوئی ایسا تکنیکی کام سیکھنے لگتا ہے، جوآگے چل کر نہ صرف اس کی روزی کمانے کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ ملک کے معاشی نظام کو مضبوط کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے، تو یہ خوش آئند ہے۔ ایکسپورٹ کارخانوں سے بچوں کی آزادی کی مہم چلانے والوں کی طرف سے سڑکوں پر ہاتھ پھیلانے والے کم عمر بچوں کو نظر انداز کرنا، ان کی بچوں سے محبت اور وفاداری کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرتا ہے۔ بچوں کی جسمانی، ذہنی اور سماجی نشوونما کے لیے22 اگست 1974 کو بنائی گئی ’نیشنل چائلڈ پالیسی‘ ہو یا2020 کی قومی تعلیمی پالیسی، فی الحال سبھی کاغذی شیر کی طرح دہاڑتے نظر آرہے ہیں۔ سبھی بچوں کو تعلیم کے حق کے ڈھنڈورے سے زیادہ اس انسانی طرز فکر کی ضرورت ہے جو معصوموں کے ارمانوں کو پورا کر سکے۔
[email protected]