چکن گنیا:صحت عامہ کیلئے ایک نیا چیلنج

0

ڈاکٹر خالد اختر علیگ

یہ مرض نہ تو نیا ہے، نہ ہی اجنبی، مگر2025میں جس شدت اور زور شور سے یہ عالمی منظرنامے پر نمودار ہوا ہے، اس نے طبی ماہرین، حکومتوں اور عالمی اداروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ چکن گنیا (Chikungunya) ایک ایسا نام جو سننے میں تو سادہ لگتا ہے، مگر اس کے دامن میں وہ اذیتیں پوشیدہ ہیں جو مریض کو مہینوں ہی نہیں، بعض اوقات برسوں تک جکڑے رکھتی ہیں۔ اب یہ مرض ان خطوں تک پہنچ چکا ہے جہاں کبھی اس کا نام بھی اجنبی تھا۔ عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) نے اس کے پھیلاؤ کے حوالے سے جو تازہ انتباہ جاری کیا ہے، وہ صرف ایک اطلاع نہیں بلکہ صحت عامہ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔اگرہم گزشتہ دو دہائیوں کا جائزہ لیں تو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ چکن گنیا کے پھیلاؤ کا جو منظرنامہ2004-2005میں بحرہند کے جزائر سے ابھرا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے پچاس ہزار سے زائد افراد کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا، وبا کا وہی پیٹرن ایک بار پھر2025میں سر اٹھا رہا ہے۔ رواں برس کے آغاز سے ہی ری یونین، مایوٹ اور ماریشس جیسے جزائر میں یہ وبا تیزی سے پھیلی ہے اور اندازہ ہے کہ صرف ری یونین میں ہی ایک تہائی آبادی اس سے متاثر ہوچکی ہے۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک تشویشناک وارننگ ہے، جو اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ اگر بروقت مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو چکن گنیا عالمی سطح پر کروڑوں جانوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

اگرچہ چکن گنیا کی ابتدائی علامات بظاہر ڈینگی یا زیکا وائرس سے مشابہت رکھتی ہیں، اس کی بنیادی علامات میں تیز بخار اور جوڑوں میں شدید درد شامل ہیں۔ جوڑوں کا یہ شدید درد مریض پر قہر کی صورت نازل ہوتا ہے جو طویل عرصے تک مریض کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ افریقی زبان مکونڈے میں چکن گنیا کا مطلب ’’درد سے دوہرا ہو جانا‘‘ ہے، اس کی نمایاں اور تکلیف دہ علامت کی وجہ سے ہی یہ نام اس بیماری کو دیا گیا۔کیونکہ ایک بار جو شخص اس وائرس کی زد میں آجاتا ہے، وہ مہینوں تک مکمل صحت یاب نہیں ہوپاتا۔ عالمی ادارہ صحت کی نمائندہ ڈیانا روجاس الواریز کے مطابق، چکن گنیا اب تک دنیا کے119ممالک میں پھیل چکا ہے اور اندازہ ہے کہ5.6بلین سے زائد افراد اس وائرس کے ممکنہ خطرے کی زد میں ہیں۔ اس طرح دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی کسی نہ کسی سطح پر اس وبا کی پہنچ میں آچکی ہے۔جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، صورت حال کاغذی رپورٹس کی طرح اطمینان بخش نہیں ہے۔ نیشنل سینٹر فار ویکٹر بورن ڈسیز ز کے مطابق 2025 کے دوران ملک بھر میں چکن گنیا کے 30,876مشتبہ کیسز درج کیے گئے، جن میں سے محض741کی طبی طور پر تصدیق ہو سکی۔ اگرچہ یہ مجموعی تعداد بظاہر زیادہ تشویشناک محسوس نہیں ہوتی، لیکن بعض ریاستوں میں اس کا پھیلاؤ خاصی فکرمندی کا باعث ہے۔ مہاراشٹر میں سب سے زیادہ 9,109 مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے592کی تصدیق ہوئی۔ کرناٹک میں8,892کیسز میں سے 238 اور تمل ناڈو میں 242 کیسز کی باقاعدہ تصدیق کی گئی۔ اس کے برعکس شمال مشرقی ریاستوں مثلاً اروناچل پردیش، آسام، ناگالینڈ، منی پور، میزورم اور دادراو نگر حویلی میں ایک بھی مصدقہ کیس سامنے نہیں آیا، جو ایک خوش آئند پہلو ضرور ہے، مگر یہ صورتحال اب بھی مکمل اطمینان کا باعث نہیں بن سکتی۔

حقیقت یہ ہے کہ چکن گنیا صرف ایک وائرل بیماری نہیں بلکہ ایک پیچیدہ ماحولیاتی و انتظامی چیلنج بھی ہے، جس کی تہہ میں شہری بے احتیاطی، ناقص بلدیاتی نظام اور صفائی کے فقدان جیسے عوامل کارفرما ہیں۔ برسات کے موسم میں گلیوں، محلوں اور مکانات کے اطراف پانی کا جمع ہونا، کباڑ میں پانی کا ٹھہراؤ، کولروں میں پانی کا بروقت نہ بدلا جانا، یہ سب وہ حالات ہیں جو ایڈیس ایجپٹی اور ایڈیس ایل بوپکٹس جیسی نسل کے مچھروں کے لیے جنت بن جاتے ہیں اور یہی مچھر چکن گنیا کے بڑے پھیلاؤ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے شہری ادارے، پنچایتیں، میونسپلٹی اور خود عوام اس سنگین مسئلے کو اس سنجیدگی سے لیتے ہیں جس کی ضرورت ہے؟ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ شعور کی یہ کمی ہی وباؤں کے دروازے کھولتی ہے۔ ہندوستان میں مچھرکش مہمات اور صفائی ستھرائی کے نام پر جو کچھ اب تک ہوتا آیا ہے، وہ زیادہ تر عارضی، بے ربط اور محض رسمی کارروائیوں تک محدود رہا ہے۔ ہر سال برسات کے بعد جب کسی علاقے میںوبا کی معمولی سی آہٹ ہوتی ہے تو اسپتالوں میں مریضوں کا تانتا بندھ جاتا ہے، عارضی کاؤنٹر قائم کیے جاتے ہیں اور میڈیا پر بیماری کے خلاف ’’جنگ‘‘کا شور مچتا ہے۔ لیکن جیسے ہی موسم کروٹ بدلتا ہے، نہ صرف شور تھم جاتا ہے بلکہ خطرے کی وہ ہلکی سی گونج بھی سنائی دینا بند ہو جاتی ہے۔ یہ رویہ ہی دراصل اس مسئلے کی سب سے بڑی جڑ ہے۔

عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیا ہے کہ چکن گنیا دوبارہ وبا کی شکل اختیار کر رہا ہے، مگر بیشتر ترقی پذیر ممالک اس خطرے کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور صحت کے درمیان گہرا تعلق ہے،اس کا اثر چکن گنیا جیسے امراض پر واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ماہرین کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور فضائی نمی ’’ٹائیگر مچھر‘‘ (ایڈیس ایل بوپکٹس) کی افزائش کے لیے موزوں ماحول فراہم کر رہے ہیں، جس کے باعث اب یہ مچھر شمالی علاقوں تک پہنچ چکا ہے۔ یہ مچھر دن میں بالخصوص صبح و شام کے وقت زیادہ سرگرم ہوتا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ ہر فرد اپنی ذمہ داری سمجھے۔واضح رہے مچھر سے بچاؤ کے لوشن، اسپرے، مچھردانی، پانی جمع نہ ہونے دینا اور کوڑے دان و برتنوں کو ڈھانپ کر رکھنے جیسی عام اور مؤثر احتیاطوں کے ذریعے اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔

چکن گنیا کی شرح اموات اگرچہ ایک فیصد سے کم ہے، لیکن جب مریضوں کی تعداد لاکھوں ہو تو یہی معمولی فیصد ہزاروں اموات کا سبب بن سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت مسلسل خبردار کر رہا ہے، مگر متعدد ریاستیں اب بھی ’’یہ ہمارے یہاں تو نہیں ہے‘‘ جیسے رویے کی اسیر ہیں۔ یہ غفلت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتیں کاغذی رپورٹس اور دعوؤں کے بجائے عملی اقدامات کریں اور عوام بیماری کا انتظار کیے بغیر احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ صفائی کو صرف مہم نہیں بلکہ عادت بنایا جائے۔ یہ وائرس ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ سب سے مہلک دشمن وہ ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا، مگر ہمیں خاموشی سے ڈس لیتا ہے۔

اگر ہم نے اب بھی ہوشیاری نہ برتی تو چکن گنیا کی یہ خاموش دستک ایک سنگین بحران میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر دشمن گولی یا بارود کی شکل میں ظاہر ہو، بعض اوقات وہ ایک مچھر کے کاٹنے میں بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم صرف خبروں پر ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے بروقت احتیاطی اقدامات کریں، ورنہ آئندہ وبا ہمیں سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دے گی۔

(مضمون نگارمعالج اور آزاد کالم نویس ہے،وہ حیات یونانی میڈیکل کالج-اسپتال سے وابستہ ہیں)
mkahashmi.alig@gmil.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS