چیٹ جی پی ٹی کا تخلیقی صلاحیتوں پر کھلا وار۔

0

ازقلم: امام علی فلاحی۔

ایم۔اے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔

دنیا جس برق رفتاری سے ٹکنالوجی کے سہارے روز مرہ کی زندگی کو آسان بنا رہی ہے اسی قدر لوگوں کے اندر کاہلی اور سستی کو بھی پروان چڑھا رہی ہے۔
ہر نئے دن زندگی کے کام کاج کو سہل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج سالہاں سال کے کاموں کو مہینوں میں اور مہینوں کے کاموں کو ہفتوں میں اور ہفتوں کے کاموں کو منٹوں میں کیا جا چکا ہے لیکن پھر بھی کسی چیز کی شاید کمی رہ گئی تھی اب وہ بھی مکمل ہو چکی ہے۔
آج ایک ایسے اپلیکیشن کا ایجاد ہو چکا ہے جو آپ کے ہر کام میں مدد گار ثابت ہو گا۔
اگر آپ اس اپلیکشن سے کسی چیز کا سوال کریں تو اسکا جواب بھی دے گا، اگر آپ اس اپلیکشن سے گھر بنانے کا مشورہ لیں تو وہ مشورہ بھی دے گا، اگر آپ اس سے گاڑی سائیکل بنانے کا طریقہ دریافت کریں تو وہ اسکا طریقہ بھی بتائے گا، اگر آپ اس سے آفس کا کام کرائیں تو وہ آفس کا کام‌ بھی کرے گا، اگر آپ اس سے کوئی ہوم ورک کرائیں تو وہ ہوم ورک بھی کرکے دے گا۔
غرض یہ کہ اب کوئی بھی کام آپ اس اپلیکشن سے کرا سکتے ہیں۔
اور اس اپلیکشن کا نام‌ ہے “چیٹ جی پی ٹی” یہ مخفف ہے Chat generative pre- trained transformer اس اپلیکشن کو 30 نومبر 2022 کو Open AI کمپنی نے ڈیولپ کیا تھا اور اس کمپنی کو سات سال پہلے 11 دسمبر 2015 میں Sam Altman اور Elon Musk کے ذریعے قائم کیا گیا تھا جسکا ہیڈ کوارٹر US میں ہے۔
بنیادی طور پر یہ کمپنی (Open AI) آرٹیفیشیل انٹیلیجینس کی ٹکنالوجی پر منحصر ہے اور مصنوعی ذہانت کے متعلق چیزوں پر کام کرتی ہے، اس کمپنی میں ایک مشہور ٹکنالوجی کمپنی مائیکرو سافٹ نے 2019 میں ایک میلین ڈالر کا انویسٹمنٹ کیا تھا جو کہ ہندوستانی روپیوں کے مطابق 8278 کروڑ روپے تھے۔
اسی کمپنی (Open AI) نے Chat Gpt کا ایجاد کیا ہے، جسکی خاصیت یہ ہے کہ اگر آپ اس اپلیکشن سے کوئی بھی سوال کریں تو وہ آپ کے سوال کا جواب دے گا اور وہ جواب بھی ایسا ہوگا جیسے کوئی انسان آپ سے گفتگو کر رہا ہو، چونکہ اس اپلیکشن کو چیٹ بوٹ بھی کہا جاتا ہے اور چیٹ بوٹ دو لفظوں سے مل کر بنا ہے۔
پہلا لفظ چیٹ ہے جسکے معنی سے تو ہر کوئی واقف ہے جسے ہم اور آپ چیٹنگ (گفتگو) کہتے ہیں اور بوٹ کے معنی ہیں روبوٹ کے، اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ جب کوئی شخص اس چیٹ بوٹ پر کام کرتا ہے تو گویا وہ روبوٹ سے کام کرواتا ہے۔
بایں وجہ اس چیٹ بوٹ سے اگر آپ یہ سوال کریں کہ ایک جمہوری ملک میں پارلیمنٹری سسٹم کیسے کام کرتا ہے تو اسکا بھی جواب بھی دے گا اور اگر آپ اس سے پارلیمنٹری سسٹم پر ایک مضمون مانگے تو وہ مضمون بھی لکھ کر دے گا۔
اس چیٹ بوٹ کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اگر آپ کوئی بھی سوال لکھ رہے ہیں تو اس بوٹ کو آپ کے چند جملوں سے پتہ چل جائے گا کہ آپ آگے کیا لکھنا چاہتے ہیں، یہ چیٹ بوٹ کل سو زبانو پر مشتمل ہے لیکن انگریزی زبان سب سے زیادہ مفید ہے۔
اس اپلیکشن کے لانچ ہونے کے بعد پانچ ہی دن میں اسکے دس لاکھ یوزر ہو گئے تھے۔
اس کمپنی کے CEO کا کہنا ہے فی الحال اس اپلیکشن میں بہت سے لوگ شامل ہو گئے ہیں اسی لئے آگے چل کر ہم اس کو مونی ٹائز بھی کر سکتے ہیں، جس سے بعض کا خیال ہے کہ آگے چل کر اس چیٹ بوٹ پر بیلینس بھی لگ سکتے ہیں پھر جسکو کام کرانا ہوگا وہ پیسے دے کر کام کراے گا۔
یاد رہے اس اپلیکشن کو پسند کرنے والے اسکی تعریف کی پھول برسا رہے ہیں لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس سے خطرہ بھی محسوس کر رہے ہیں۔
امریکی اخبار “نیویارک ٹائمز” میں حال ہی میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ ” تعلیم و تعلم، کام کاج اور ایک جمہوری نظام پر تک اس پروگرام کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں”۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ چیٹ بوٹ لوگوں کو کاہلی و سستی کا شکار بنا سکتی ہے، طلباء اور محققین کے تخلیقی صلاحیتوں میں بگاڑ پیدا کر سکتی ہے، اسی طرح وہ نوکریاں جو الفاظ و جملوں، ترکیبات و تخلیقات پر منحصر ہیں ان میں بھی خطروں کی گھنٹیاں بجنی شروع ہو گئی ہے جیسے کہ صحافت و کتابت، اشعار و مضامین، درس و تدریس وغیرہ۔
اگر یہ سسٹم مزید بہتر و معروف ہو گیا تو صحافیوں کی نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صحافیوں کی ضرورت بھی نہ پڑے کیونکہ جب سارا آرٹیکل اور خبر چیٹ بوٹ ہی دے دیگا تو صحافیوں کی ضرورت کیا پڑے گی؟
اسی طرح جب بچہ اپنا ہوم ورک چیٹ بوٹ ہی سے کرا لے گا تو بچے کو اسکول جانے کی ضرورت کیا پڑے گی؟
اسی طرح جب ساری شاعری چیٹ بوٹ ہی سے کرا لیا جائے گا تو شاعروں کی ضرورت کیا پڑے گی؟
اسی طرح جب سارے سوالوں کا جواب چیٹ بوٹ ہی سے حاصل کر لیا جائے گا تو اساتذہ کی ضرورت کیا پڑے گی؟
یہی وجہ رہی کہ نیو یارک میں جب طلباء نے چیٹ بوٹ کے ذریعے کافی تعداد میں اپنا اسائنمنٹ لکھنا شروع کیا تو آنا فانا شہر کے سارے اسکولوں میں اس چیٹ جی پی ٹی کو بینڈ کرانا پڑا۔
اسی طرح UK میں اگزام ریگولیٹر اور شعبہ تعلیم کا اس چیٹ بوٹ پر گہری نظر بنی ہوئی ہے تاکہ طلبا امتحان میں نقل نہ کر سکیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہاں ایک جانب اس اپلیکشن کی تعریف کی جارہی ہے وہیں دوسری جانب اس اپلیکشن کی تنقید بھی کی جا رہی ہے کیونکہ یہ اپلیکشن لوگوں کی تخلیقی صلاحیت پر کھلے عام حملہ بول رہی ہے۔

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS