صبیح احمد
وزیراعظم نریندر مودی نے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کے سربراہ اجلاس میں اپنے خطاب کا استعمال دہشت گردی پر ایک واضح پیغام دینے کے لیے یہ سوال کرتے ہوئے کیا کہ کیا دہشت گرد تنظیموں کو ’کچھ ممالک‘ کی طرف سے کھلی حمایت کو مزید برداشت کیا جا سکتا ہے۔ چین کے شہر تیانجن میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی میں ایس سی او کے 25ویں سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے اس بات پر زور دیا کہ ’دہشت گردی صرف کسی ایک ملک کی سلامتی کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے خطرہ ہے۔‘ جموں و کشمیر کے پہلگام میں حالیہ دہشت گردانہ حملے کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہا کہ ہندوستان 4 دہائیوں سے ’دہشت گردی کی لعنت ‘ جھیل رہا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ ’ دہشت گردی پر کوئی دوہرا معیار قابل قبول نہیں ہے۔ یہ حملہ (پہلگام) ہر اس ملک اور انسان کے لیے کھلا چیلنج تھا جو انسانیت پر یقین رکھتا ہے، ایسی صورت حال میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ کیا کچھ ممالک کی طرف سے دہشت گردی کی کھلی حمایت ہمارے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے؟ ہمیں متفقہ طور پر ہرشکل اور ہر رنگ کی دہشت گردی کی مخالفت کرنا ہوگی۔ یہ ہمارا انسانی فرض ہے۔‘ کسی بھی ملک کا نام لیے بغیر انہوں نے دہشت گردی پر کھل کر بات کی۔پہلگام حملے کوصرف ہندوستان کی روح پر حملہ نہیں بلکہ یہ انسانیت کے لیے چیلنج قرار دیا۔
وزیراعظم نے بجا طور پر اس ایشو کو دنیا کے سامنے پر زور انداز میں اٹھایا ہے۔ حالانکہ یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے، دہائیوں سے دنیا اس عفریت کا شکار ہے لیکن پہلگام میں ہونے والی حالیہ بربریت نے دنیا کے ضمیر کو ایک بار پھر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ آخر یہ جن بار بار بوتل سے باہر کیوں آجاتا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے کیا لائحہ عمل ہو سکتا ہے؟ ان سوالوں کا جواب جتنی جلدڈھونڈ لیا جائے، انسانیت کی بقا کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ دراصل شدت پسند اور عسکریت پسند تنظیمیں خلا میں کام نہیں کرتیں بلکہ یہ عالمی جغرافیائی سیاست کی پیداوار ہیں۔ اسی لیے عالمی جغرافیائی سیاست اور عسکریت پسندی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ عالمی عسکریت پسند تنظیمیں عالمی جغرافیائی سیاست کے مطابق اپنے نظریاتی اہداف، آپریشنل اور بھرتی کی حکمت عملیوں کو بھی بدلتے حالات کے مطابق ڈھال لیتی ہیں۔ کئی حوالوں سے عالمی سیاسی واقعات عسکریت پسندی کے تغیر اور تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسا کہ سرد جنگ کے دور میں مغرب کی طرف سے عسکریت پسند گروہوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، جبکہ 9/11کے بعد سابقہ عسکریت پسند پراکسیز امریکہ پر حملہ کرنے کے سبب ’دہشت گرد‘ تنظیمیں بن گئیں۔
ایک دہائی قبل تک دنیا ہر وقت ایسے حملوں سے نمٹنے کے لیے تیار رہتی تھی جو ہوائی جہازوں، سفارت خانوں اور تجارتی مراکز کو نشانہ بناتے اور عالمی میڈیا کی شہ سرخیاں بنتے۔ آج جدید ٹیکنالوجی کے سہارے شدت پسندی ہر جگہ موجود ہے۔آج ایک واٹس ایپ گروپ، ایک مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ویڈیو یا ایک تنہا حملہ آور اتنی ہی تباہی پھیلا سکتا ہے جتنی پہلے بغداد میں ایک بم دھماکہ کیا کرتا تھا۔ خطرہ ختم نہیں ہوا، بلکہ اس کی شکل بدل گئی ہے۔ اب شدت پسندی مقامی سطح پر پنپ رہی ہے۔ کئی ممالک میں باغی سرحدی علاقوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ غزہ میں ایک طویل اور تباہ کن جنگ نے چھوٹے علیحدگی پسند گروہوں کے لیے سازگار حالات پیدا کر دیے ہیں۔ یعنی کہ حل طلب تنازعات ہی اگلی لہر کو جنم دیتے ہیں۔ خفیہ ایپس بھرتی کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں جبکہ ایڈٹ کردہ ویڈیوز اور وائرل کلپس پروپیگنڈہ کو اس رفتار سے پھیلاتے ہیں جسے کوئی چیک پوسٹ روک نہیں سکتی۔ عام طورپر دستیاب ڈرونس اور سستے ایڈیٹنگ ٹولس نے شدت پسندوں کو خوف کا عالمی نشریاتی ادارہ بنا دیا ہے۔ حالانکہ شہروں میں بڑے پیمانے پر بم دھماکوں میں کمی آئی ہے، لیکن سرحدی علاقوں میں بغاوت اور نوجوانوں میں آن لائن شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔ شدت پسندوں نے اپنی حکمت عملی بدل لی ہے۔
افغانستان اور عراق سے امریکی انخلا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے عالمی عسکریت پسندی نے فی الحال اپنی اہمیت کھو دی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی فتح کے باوجود القاعدہ اور داعش اس وقت اپنی کمزور ترین سطح پر ہیں اور قیادت کے مارے جانے، علاقائی نقصانات، بڑے پیمانے پر حملے کرنے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات کی گرتی ہوئی اپیل کا شکار ہیں۔ لیکن ایک سال سے زائد عرصہ سے اسرائیل-فلسطین کشیدگی کے دوبارہ ابھرنے اور کشیدگی کا یہ سلسلہ طویل مدت تک برقرار رہنے کی وجہ سے عالمی عسکریت پسند تحریکوں کو دوبارہ ابھرنے کا موقع ملا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ حماس کے ’آپریشن الاقصیٰ فلڈ‘ سے شروع ہونے والی لڑائی نے اب مشرق وسطیٰ میں ایک علاقائی تنازع کی شکل اختیار کر لی ہے، جس نے لبنان اور ایران کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آنے والے مہینوں میں اسرائیل – فلسطین تنازع کا دورانیہ، تل ابیب کے لیے واشنگٹن کی حمایت اور اسرائیل کی عسکری جارحیت عالمی عسکریت پسندی کی نئی لہر میں 3 اہم عوامل ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف مسلم دنیا میں بڑھتا ہوا غصہ، مغرب کا دوہرا معیار اور اخلاقی منافقت عسکریت پسند گروہوں کو بھرتی کے لیے ایک موافق ماحول فراہم کرے گی۔ اگر اسرائیل – فلسطین تنازع طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے تو اس سے مسلم اور مغربی دنیا کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کے کافی زیادہ امکانات ہیں۔ اور یہ چیز القاعدہ اور داعش جیسے گروہوں کو مسلمانوں کے اسرائیل اور مغرب مخالف جذبات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک راستہ فراہم کرسکتی ہے۔
حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ کے ممالک تیل پر مبنی معیشتوں سے نکلنے، روایتی مذہبی ماڈلس سے ہٹ کر اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سماجی واقتصادی اصلاحات اور انتہا پسندانہ نظریات کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہے تھے۔ مگر حالیہ کشیدگی ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ کو پرانے طرز کی طرف لے جائے گی اور ایک نئی عسکریت پسند نسل کو جنم دے گی۔ لہٰذا مشرق وسطیٰ میں عسکریت پسندوں کی نئی نسل کے متحرک ہونے سے عسکریت پسند رہنماؤں کی ایک نئی نسل بھی پیدا ہوگی۔ دوسری طرف اسرائیل کی حمایت کرنے پر مغرب کے خلاف مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے غم و غصے کی وجہ سے مغرب میں اسلاموفوبیا میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ سفید فام گروہ تارکین وطن بالخصوص مسلمانوں کو مغرب میں ہونے والی تمام برائیوں کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔اس طرح کا پروپیگنڈہ باہمی بنیاد پرستی کو جنم دے سکتا ہے۔ شدت پسندی کے حوالے سے خطرناک غلط فہمیاں اب بھی برقرار ہیں۔ ایک یہ کہ جب ایک علاقہ ’مستحکم‘ ہو جائے تو وہ دوبارہ غیر مستحکم نہیں ہو سکتا۔ درحقیقت اگر شکایات باقی رہیں تو تشدد واپس آ جاتا ہے۔ صرف طاقت استعمال کرنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوتی۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک غلط فہمی یہ ہے کہ دہشت گردی کو درآمد شدہ سمجھا جائے۔ حقیقت میں یہ اکثر اندر سے ہی جنم لیتی ہے، جسے ناانصافی اور نظر انداز کیے جانے جیسے عوامل سے تقویت ملتی ہے۔
ابھی تک تو یہی لگتا ہے کہ جس طرح سے امریکہ 11/9 کے بعد القاعدہ کو ختم کرنے میں ناکام ہوا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کرکے افغانستان سے نکلا، اسی طرح اسرائیل حماس اور حزب اللہ کو ختم نہیں کر سکے گا۔ فلسطینیوں کی مزاحمت اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک دو ریاستی حل تلاش نہیں کیا جاتا اور اسرائیلی مظالم بند نہیں ہوجاتے۔
sasalika786@gmail.com