جینتی لال بھنڈاری
کورونا ٹیکہ کاری پالیسی پر سنوائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں سمیت بڑی تعداد میں لوگ ڈیجیٹل طور پر خواندہ اور سہولتوں سے مزین نہیں ہیں۔ ایسے میں ٹیکہ کاری کے لیے کوون ایپ پر رجسٹریشن کرا پانا سب کی پہنچ میں تو ممکن نہیں ہے۔ ٹھیک یہی بات ڈیجیٹل بازار سے عام آدمی کی دوری کے تعلق سے بھی نظر آرہی ہے۔ کووڈ-19کے چیلنجز کے دوران ہندوستانی بازاروں کی بدلتی نوعیت سے متعلق جو رپورٹیں آرہی ہیں، ان میں ہندوستان میں ڈیجیٹل بازار کے وسیع ہونے کی بات تو کہی جارہی ہے لیکن دوسری جانب اس سچائی سے بھی منھ نہیں موڑا جاسکتا کہ ملک کا عام آدمی ڈیجیٹل بازار سے ابھی بھی دور ہے۔ ابھی بھی کروڑوں لوگ موبائل، انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولتوں کی پہنچ کے دائرہ میں نہیں آپائے ہیں۔
غور طلب ہے کہ مینجمنٹ کنسلٹنگ کمپنی ریڈسیر کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ہندوستان میں آن لائن خریداروں کی تعداد محض ساڑھے18کروڑ رہی۔ حالت یہ ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والے بھی بہت سے لوگ ڈیجیٹل بازار سے دور ہیں۔ مارگن اسٹینلی نے اپنی رپورٹ ’انڈیاز ڈیجیٹل اکنامی ان اے پوسٹ کووڈ-19ورلڈ‘میں کہا ہے کہ ہندوستان میں انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والے تقریباً 30فیصد لوگ ہی ڈیجیٹل بازار کا استعمال کرتے ہیں، جب کہ چین میں یہ فیصد78ہے۔ ہندوستان میں عام آدمی ڈیجیٹل بازار سے کتنا دور ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عام آدمی کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے زیادہ تر چھوٹے صنعت کار اور کاروباری بھی ڈیجیٹل بازار سے دور ہیں۔ فیڈریشن آف انڈین اسمال میڈیم انٹرپرائزیز(فیسمے) کے مطابق ملک میں 6کروڑ سے زیادہ مائیکرو، اسمال اور میڈیم صنعتیں(ایم ایس ایم ای) ہیں جن میں سے صرف15لاکھ ہی ڈیجیٹل بازار کے ذریعہ سے صارفین سے وابستہ ہیں۔
عام آدمی کی ڈیجیٹل بازار تک پہنچ بنانے کے لیے کئی مؤثر اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے لوگوں تک کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی پہنچ آسان بنانی ہوگی۔ ڈیجیٹلائزیشن کے لیے ضروری بنیادی ضرورتوں سے متعلق کمیوں کو دور کرنا ہوگا۔ عام آدمی کو ڈیجیٹل زبان میں ایجوکیٹڈ-ٹرینڈ کرنا ہوگا۔ دیہی علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ کی مناسب فراہمی کے علاوہ ڈیجیٹل بازار میں لین دین میں دھوکہ دہی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے کارگر سسٹم بنایا جانا بہت ضروری ہے۔
حقیقت میں ملک کا عام آدمی ڈیجیٹل بازار کی راہ میں مختلف رکاوٹوں اور چیلنجز کے سبب ہی اس سے دور ہے۔ اس حقیقت سے منھ نہیں موڑا جاسکتا کہ ملک میں ڈیجیٹل بازار کا بنیادی ڈھانچہ ابھی بھی ضرورت لائق نہیں بن پایا ہے۔ ڈیجیٹل بازار کی بنیادی ضرورت کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ابھی ہر شخص کی پہنچ سے دور ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ ڈیجیٹل تکنیک اور ڈیجیٹل زبان سے واقف نہیں ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو فیصد بہت کم ہی ہے۔ مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ آج بھی بہت سے چھوٹے گاؤوں میں بجلی کی کافی فراہمی نہیں ہے۔ موبائل براڈبینڈ کی رفتار کے معاملہ میں بھی ملک کافی پیچھے ہے۔ ڈیجیٹل بازار کے لین دین میں سب سے بڑا خطرہ پہچان سے متعلق چوری کا ہے۔ نقب زنی کرنے والے آسانی سے اعدادوشمار میں نقب لگالیتے ہیں۔ عام آدمی کے پاس ڈیجیٹل بازار میں ادائیگی کے لیے ضروری انٹرنیٹ سہولت والا موبائل فون یا کریڈٹ-ڈیبٹ کارڈ جیسی سہولت تک نہیں ہے۔ مالی لین دین کے لیے بڑی تعداد میں لوگ ڈیجیٹل ادائیگی کی تکنیکوں سے ناواقف ہیں۔ ڈیجیٹل ادائیگی کے وقت ہونے والی آن لائن دھوکہ دہی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سبب بھی بڑی تعداد میں لوگوں کا آن لائن نظام پر سے اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ اس کا بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ایسی دھوکہ دہی سے نمٹنے کا کوئی سخت قانون بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔
حالاں کہ ملک کا عام آدمی ڈیجیٹل بازار سے دور ہے، لیکن مڈل اور ہائی کلاس کے لوگوں میں اس کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ڈیجیٹل بازار کے تیزی سے بڑھنے اور اس میں غیرملکی سرمایہ کاری کی کشش ہونے کے پیچھے کئی اسباب ہیں۔ کورونا انفیکشن کے چیلنجز کا سامنا کررہے ملک کے کروڑوں لوگوں کے لیے گھر بیٹھے خریداری کرنے کا رجحان زندگی کا اہم حصہ بن گیا ہے۔ آن لائن پروڈکٹس کی واپسی کی سہولت کے ساتھ گھر کے دروازے پر سامان پہنچانا ڈیجیٹل بازار کی سب سے بڑی دین ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ چھوٹے شہروں کے صارفین میں بھی معیاری زندگی جینے کی خواہش میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اس کی تکمیل کے لیے ڈیجیٹل بازار کے مختلف متبادل والے پلیٹ فارمس کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ ملک میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل بازار کا استعمال کررہے لوگوں کو خریداری میں آسانی ہو، اس کے لیے کچھ ای-کامرس کمپنیوں نے تو گروسری سیکشن میں ہندی، تمل، تیلگو اور کنڑ سمیت مختلف علاقائی زبانوں میں خریداری کی سہولت دی ہے۔
ملک میں ڈیجیٹل بازار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ای-کاروبار 2024تک 100ارب ڈالر کے پاس نکل جانے کی امید ہے۔ اس لیے اس شعبہ میں غیرملکی سرمایہ کاری میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ساتھ ہی غیرملکی کمپنیوں کے ڈیجیٹل کاروبا ر پر لگایا گیا ڈیجیٹل ٹیکس یعنی گوگل ٹیکس ملک کی آمدنی کا بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ ہندوستان میں دو کروڑ روپے سے زیادہ کا سالانہ کاروبار کرنے والی غیرملکی ڈیجیٹل کمپنیوں کی ہندوستان میں کمائی ہوئی آمدنی پر 2فیصد گوگل ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ اس ٹیکس کے دائرہ میں ہندوستان میں کام کرنے والی امریکہ اور چین سمیت دنیا کے مختلف ممالک کی ای-کامرس کرنے والی کمپنیاں شامل ہیں۔ حال ہی میں وزارت مالیات کے ذریعہ جاری اعدادوشمار کے مطابق 2020-21میں گوگل پر کلیکشن 2057کروڑ روپے رہا، جب کہ 2019-20میں یہ 1136کروڑ روپے ہی تھا۔ یعنی ایک ہی سال (2020-21) میں گوگل ٹیکس میں تقریباً دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی کوئی چھوٹی بات نہیں ہے کہ ملک کی سلی کان ویلی کہے جانے والے بنگلورو کی گوگل ٹیکس کلیکشن میں 1029کروڑ روپے کے ساتھ تقریباً آدھی حصہ داری رہی ہے۔
عام آدمی کی ڈیجیٹل بازار تک پہنچ بنانے کے لیے کئی مؤثر اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے لوگوں تک کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی پہنچ آسان بنانی ہوگی۔ ڈیجیٹلائزیشن کے لیے ضروری بنیادی ضرورتوں سے متعلق کمیوں کو دور کرنا ہوگا۔ عام آدمی کو ڈیجیٹل زبان میں ایجوکیٹڈ-ٹرینڈ کرنا ہوگا۔ دیہی علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ کی مناسب فراہمی کے علاوہ ڈیجیٹل بازار میں لین دین میں دھوکہ دہی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے کارگر سسٹم بنایا جانا بہت ضروری ہے۔ ابھی بھی بڑی تعداد میں دیہی باشندوں کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت والا موبائل فون یا کریڈٹ-ڈیبٹ کارڈ کی سہولت نہیں ہے، اس لیے ایسی سہولتوں میں اضافہ کے لیے فوری قدم اٹھانے ضروری ہیں۔ لوگوں کو اسمارٹ فون خریدنے کے لیے بینک سے آسان قرض مہیا کروانا ہوگا۔ پی سی او کی طرز پر پبلک انٹرنیٹ ایکسیس پوائنٹ کا سسٹم مضبوط بنانا ہوگا۔ اور سب سے ضروری یہ کہ موبائل براڈبینڈ کی رفتار سے متعلق مسائل کو دور کرنا ہوگا۔
ڈیجیٹل بازار کو وسعت دینے کے لیے ضروری ہے کہ چھوٹے صنعت کاروں اور کاروباریوں کی خصوصی حوصلہ افزائی کی جائے۔ نئی ای-کامرس پالیسی کے تحت حکومت کو ڈیجیٹل بازار میں صارفین کے مفادات اور پروڈکٹس کی کوالٹی سے متعلق شکایتوں کو اطمینان بخش حل کے لیے ریگولیٹر کا بھی قیام کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ غیرملکی ڈیجیٹل کمپنیوں سے ٹیکس وصول کرنے کا نظام بنانے کے لیے کارگرضابطہ یقینی بنانے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی ڈیجیٹل بازار سے متعلق ہندوستان کے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے گوگل ٹیکس کے لیے اپنے حق کو امریکہ کے بزنس ریپرزنٹیٹوآفیس اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سمیت مختلف عالمی تنظیموں کے سامنے مضبوطی اور صداقت کے ساتھ رکھنا ہوگا۔ ہندوستان میں ڈیجیٹل بازار کے روشن مستقبل سے متعلق تو کوئی شبہ ہے ہی نہیں۔ بس مواقع کو کیش کرنے اور اس کے لیے ضروری وسائل سے بازار کو مضبوطی دینے کی ضرورت ہے۔ تبھی عام آدمی بھی ڈیجیٹل بازار سے منسلک ہوپائے گا اور اس کا فائدہ اٹھا پائے گا۔ اور اسی سے معیشت کو بھی طاقت ملے گی۔
(بشکریہ: جن ستّا)