بھارت، چین، روس، پاکستان اور امریکہ میں تبدیل ہوتی سفارتی اکائیاں : پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

0

پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

دنیا بھر کے ممالک کے درمیان عالمی، سفارتی اور پالیسی پر مبنی تعلقات میں باقاعدگی سے اتار چڑھاؤ آرہا ہے۔ ہمیں آج بھی نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی احمدآباد میں نرمدا کے کنارے جھولتی ہوئی تصاویر یاد ہیں۔ ایک وقت میں پی ایم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان بہت اچھے تعلقات تھے۔ ایک بار پھر، ہندوستان اور چین کے تعلقات جغرافیائی سیاسی تعلقات کے ایک پیچیدہ جال میں الجھ گئے ہیں۔ بھارت چین کو اپنے بنیادی مخالف کے طور پر دیکھتا ہے، جب کہ پاکستان کو ثانوی درجہ میں سیکورٹی تشویش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم، دونوں کے درمیان حدبندی ایک جیسی ہے۔ ہندوستان اور امریکہ نے اپنی اسٹرٹیجک شراکت داری کو گہرا کیا ہے، خاص طور پر ’انڈو پیسفک‘میں چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ چین اور پاکستان کے درمیان قریبی فوجی اور اقتصادی تعلقات ہیں، جنہیں اکثر جنوبی ایشیا میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے انسداد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی سرحدی تنازعات پر مرکوز ہے، خاص طور پر ہمالیہ میں، اور خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی تنازع کی ایک بڑی وجہ ہے۔ سیاسی اختلافات کے باوجود بھارت اور چین کے درمیان نمایاں تجارت ہوتی ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہندوستان کا اتحاد بڑی حد تک ’چین کے عروج کے بارے میں مشترکہ تشویش‘کی وجہ سے ہے۔ اس تعلق کی جڑیں تقسیم ہند اور اس کے بعد کے تنازعات سے جڑی ہوئی ہیں۔ کشمیر پر جاری علاقائی تنازع ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازع کی ایک بڑی وجہ بنا ہوا ہے۔ سرحد پار سے دہشت گردی ایک نہ ختم ہونے والا مسئلہ ہے۔ بھارت مسلسل پاکستان پر کشمیر میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کی حمایت کا الزام لگاتا رہتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس کافی فوجی اور جوہری ہتھیار موجود ہیں، جو ’تخفیف اسلحہ کے دور میں ہتھیاروں کی دوڑ‘ کو ہوا دے رہے ہیں۔ انڈیا امریکہ اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کو انڈیا پیسیفک میں چین کی طاقت کو متوازن کرنے میں ایک اہم پارٹنر کے طور پر دیکھا جا تاہے۔ دونوں ممالک نے فوجی مشقوں اور ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ کیا ہے۔ چین اور پاکستان کا دیرینہ فوجی اور اسٹرٹیجک اتحاد ہے۔ چین کا سب سے بڑا سفارت خانہ اسلام آباد میں ہے۔ چین جنوبی ایشیا پر گہری نظر رکھنے کے لیے پاکستان کو بفر اسٹیٹ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری(CPEC) بنیادی ڈھانچے کا ایک بڑا منصوبہ ہے جو ان کے تعلقات کو مضبوط کرتا ہے۔ دونوں ممالک بھارت کو ممکنہ حریف کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان کا معاشی انحصار چین پر ہے۔ ان چاروں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی پیچیدہ ہیں جس میں متضاد مفادات اور مسابقتی ترجیحات شامل ہیں۔ امریکہ اور چین وسیع تر دشمنی میں مصروف ہیں، بھارت بیچ میں پھنس گیا ہے۔ خاص طور پر بھارت اور چین یا بھارت اور پاکستان کے درمیان تصادم کا امکان تشویشناک ہے۔ 4جولائی 2025 کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ چین نے پاکستان کے ساتھ مہلک جھڑپ کے دوران اسلام آباد کو ’اہم ہندوستانی پوائنٹس پر براہ راست معلومات‘ فراہم کیں۔ چار روزہ جنگ کے دوران جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں نے میزائل، ڈرون اور توپ خانے کا استعمال کیا۔ ’آپریشن سندور‘ 12اپریل2025کو کشمیر کے پہلگام میں ہندو سیاحوں پر حملے سے شروع ہوا تھا۔ نئی دہلی نے جنگ بندی پر رضامندی سے قبل اسلام آباد پر کئی الزامات لگائے۔ پاکستان نے پہلگام حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ نئی دہلی میں دفاعی صنعت کی ایک تقریب میں لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے کہا،’’تنازع کے دوران، ہندوستان نے دو دشمنوں سے مقابلہ کیا، جس میں پاکستان سامنے تھا جبکہ چین نے ہرممکن مدد فراہم کی۔ جب ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز(DGMO) کی سطح پر بات چیت چل رہی تھی، پاکستان کو چین کی حمایت حاصل تھی۔‘‘2020کے سرحدی تصادم کے بعد ہندوستان اور چین کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے چار سال تک فوجی تعطل پیدا ہوا۔ لیکن اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ’سرحدوں سے انخلا کا معاہدہ‘ہونے کے بعد کشیدگی کم ہونا شروع ہو گئی۔ امریکی دفاعی انٹلیجنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ ’’وزیراعظم نریندر مودی کی دفاعی ترجیحات ممکنہ طور پر عالمی قیادت کا مظاہرہ کرنے، چین کا مقابلہ کرنے اور نئی دہلی کی فوجی طاقت بڑھانے پر مرکوز ہوں گی۔‘‘

’دی ہندو‘کے اداریے میں سفارتی ماہر صحافی دیناکر پیری(Dinakar Peri)نے لکھا ہے کہ امریکی انٹلیجنس ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے اور اپنے عالمی قائدانہ کردار کو فروغ دینے کے لیے مشقوں اور تربیت کا سہارا لینے،ہتھیاروں کی فروخت اورمعلومات کے اشتراک کے ذریعے ہندوستان بحر ہند کے خطے میں اپنی دو طرفہ دفاعی شراکت داری کو آگے بڑھانے کو ترجیح دے رہا ہے۔ چین پاکستان کو ایک ذیلی سلامتی کے مسئلے کے طور پر دیکھتا ہے جس کا انتظام ہونا ضروری ہے، بھلے ہی مئی کے وسط میں ہندوستان اور پاکستان دونوں کی فوجوں کی طرف سے سرحد پار سے حملے ہوئے ہیں، جب کہ پاکستان ہندوستان کو حد سے زیادہ جارحانہ سمجھتا ہے۔ ورلڈ وائیڈ تھریٹ اسسمنٹ 2025کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان پاکستان کے وجودکے لیے خطرہ ہے۔

چین ہندوستان کے روایتی فوجی فوائد کا ازالہ کرنے کی خاطر اپنی فوجی جدید کاری کی کوششیں جاری رکھے گا، جس میں میدان جنگ کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری بھی شامل ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنا رہا ہے اور ’’تقریباً یقینی طور پر غیر ملکی سپلائرز اور بچولیوں کے توسط سے ڈبلیو ایم ڈی (WMD) کے قابل اطلاق سامان خرید رہا ہے۔‘‘ روس کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات پر یو ایس ڈی آئی اے نے تبصرہ کیا ہے کہ ہندوستان اپنے تعلقات کو2025تک برقرار رکھے گا کیونکہ ’’وہ روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو اپنے اقتصادی اور دفاعی مقاصد کے حصول کے لیے اہم سمجھتا ہے اور روس چین تعلقات کو گہرا کرنے کے ذریعہ کے طور پر تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔‘‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کے دور میں ہندوستان نے روس میں تیار فوجی سازوسامان کی خریداری میں کمی کی ہے لیکن پھر بھی روسی ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں کی اپنی بڑی انوینٹری کو برقرار رکھنے کے لیے روسی اسپیئر پارٹس پر انحصار کرتا ہے، جو چین اور پاکستان سے ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی فوجی صلاحیت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ہندوستان یقینی طور پر اس سال اپنی گھریلو دفاعی صنعت کی تعمیر، سپلائی چین کے خدشات کو کم کرنے اور اپنی فوج کو جدید بنانے کے لیے اپنے ’میڈ اِن انڈیا‘ اقدام کو فروغ دینا جاری رکھے گا۔ ڈیپسانگ اور ڈیمچوک(Depsang and Demchok) سے ہندوستان اور چین کے درمیان2024 کے انخلا کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ حد بندی کے بارے میں دیرینہ تنازع حل نہیں ہوا، لیکن2020کے واقعہ سے کچھ کشیدگی کم ہوئی جب لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ ایک جھڑپ میں دونوں طرف کے فوجی مارے گئے۔ خلاصہ یہ کہ ہندوستان ’وسودھیو کٹمبکم‘کی بات کر رہا ہے، اس کے باوجود چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ لہٰذا ہندوستان کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر اور خارجہ سیکریٹری وکرم مصری کو وزارت خارجہ کو چین، پاکستان، بنگلہ دیش کے ساتھ اختلافات کو دور کرنے کے لیے سفارت کاری کا استعمال کرنے کی ترغیب دینی ہوگی۔ جغرافیائی طور پر پڑوسیوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ان ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کو خراب کرنے والے خلفشار کو دور کرنا بھارت کے مفاد میں ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 12اپریل 2025 کو 27بے گناہ لوگوں کے قتل عام کے بعد وزیراعظم مودی نے25ممالک میں سات پارلیمانی وفود بھیجے، لیکن اس کے باوجود زیادہ تر اسلامی ممالک نے بھارت کا ساتھ نہیں دیا۔ حالانکہ دنیا بھر کے تمام ممالک دہشت گردی کو روکنے کی بات کرتے ہیں۔ درحقیقت پاکستان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ممبر بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو اس وقت غیرمستحکم اور مبہم ہے۔ خود وزیراعظم نریندر مودی، وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر اور وکرم مصری کی قیادت والی وزارت خارجہ کو ہندوستانی موقف کی تصدیق کے لیے ایک طریقہ کار پر کام کرنا چاہیے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے متعلقہ ممالک کے درمیان مسلسل بات چیت کی ضرورت ہوگی۔ آخر میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ روس کا جنوبی ایشیا میں اہم کردار ہے۔ روس بھارت کا تجربہ کار دوست ہے۔ صدر ولادیمیر پوتن اور وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان اچھے تعلقات ہیں، جو ہندوستان اور روس کے لیے مثبت ہیں۔ روس اور چین سپر پاور ہیں۔ آنے والے وقتوں میں دیکھا جائے گا کہ ہندوستانی حکومت اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اپناتی ہے۔

(مضمون نگارہ سینئر صحافی، سیاسی تجزیہ کار، بین الاقوامی حالات حاضرہ کی ماہر اور دور درشن کی شخصیت ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS