سیاست میں کب کیا ہوجائے،کس کی کرسی چھن جائے، کس کی تاجپوشی ہوجائے،کس کی حکومت گرجائے اورکس کی بن جائے، کون کب سیاسی وفاداری تبدیل کردے، دوست مخالف اور مخالف دوست بن جائے، حلیف پارٹی حریف بن جائے اور حریف پارٹی حلیف واتحادی بن جائے،کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سب کچھ کسی انہونی کی طرح ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو آہٹ بھی سنائی نہیں دیتی اورحالات اس تیزی سے بدل جاتے ہیںکہ لیڈروں اورپارٹیوں کوسوچنے سمجھنے اورسیاسی مبصرین کو تجزیہ تک کرنے کا موقع نہیں ملتا ۔کچھ ایساہی گجرات میں ہوا۔اچانک وزیر اعلیٰ وجے روپانی نے استعفیٰ دیا اورتمام قیاس آرائیوں کے برعکس بھوپندر پٹیل کوپارٹی وزیر اعلیٰ کے لئے منتخب کرلیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ پارٹی اورمیڈیا میںوزیراعلیٰ کے لئے مرکزی وزیر منسکھ منڈاویہ ، نائب وزیراعلیٰ نتن پٹیل ،ریاستی بی جے پی اکائی کے صدرسی آرپاٹل اورپرشوتم روپالا کے ناموں پر قیاس آرائیاں ہورہی تھیں۔قانون ساز پارٹی کی جو میٹنگ ہوئی، اس میں بھی بھوپندر پٹیل پچھلی صف میں اس طرح بیٹھے تھے کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی ان کا نام نہیں آسکتا تھا۔ ایسالگتا ہے کہ اعلی کمان کی ہدایت پرنائب وزیراعلیٰ نتن پٹیل نے لیڈرشپ کے لئے ان کا نام پیش کیا اور پارٹی ممبران نے تائیدکردی۔اس طرح بی جے پی نے ایک اورریاست میں وزیر اعلیٰ تبدیل کردیا ۔تین مہینے میں 3،چھ مہینے میں 4اورایک سال میں 5وزرائے اعلیٰ تبدیل ہوچکے ہیں،جو بہت بڑی بات ہے ۔بلکہ سیاسی مبصرین تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کچھ اورریاستوں میں وزرائے اعلیٰ تبدیل کئے جاسکتے ہیں۔یعنی وزیراعلیٰ یا ریاستی صدورکی تبدیلی کا یہ عمل منظم حکمت عملی کے تحت بتدریج چلتا رہے گا تاکہ لوگوں میں منفی پیغام نہ جائے ۔
دراصل بی جے پی ہو یا کانگریس یا دوسری اپوزیشن پارٹیاں، 2024 کے پارلیمانی انتخابات کی منصوبہ بندی اورتیاریوں میں مصروف ہیں ۔کوئی بھی پارٹی خطرہ مول لینانہیں چاہتی ۔جہاں ریاستی قیادت کی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ وہاں اس میں تبدیلی کررہی ہے اورجہاں وزیراعلیٰ کوبدلنے کی ضرورت ہے ، وہاں وزیر اعلیٰ کو بدلا جارہا ہے ۔جیسے جیسے پارٹی کو فیڈبیک مل رہا ہے ، اعلیٰ کمان قدم اٹھارہی ہے ۔تبھی تو بی جے پی نے اگلے سال کی شروعات میں اتراکھنڈ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو دیکھتے ہوئے ایک سال کے اندر 3 وزرائے اعلیٰ کوتبدیل کردیا، کرناٹک میں سب سے پرانے لیڈر بی ایس یدیورپا کو وزارت علیا کی کرسی سے ہٹادیااوراب سوابرس بعد گجرات میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظرسب سے قابل اعتماد اور وزارت علیا کے لائق سمجھے جانے والے وجے روپانی کو دوسری اننگز پوری ہونے سے پہلے ہی استعفیٰ دلوادیا۔وجے روپانی کا عہدے سے ہٹانا جتنا حیرت انگیز ہے، اتناہی بھوپندرپٹیل کا انتخاب ہے ۔12ویں پاس اورسول سے ڈپلومہ کرنے والے بھوپندرپہلی بارہی ممبر اسمبلی بنے ہیں، اس سے پہلے ان کے پاس نہ سرکار میں اورنہ پارٹی میں کوئی خاص ذمہ داری تھی ۔وہ صرف احمدآبادمیونسپل کاروپوریشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی اوراحمدآباد اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں ۔البتہ سابق وزیر اعلیٰ اوراترپردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل کے قریبی ہیں اور ان ہی کی سیٹ سے جیتے ہوئے ہیں ، اسی لئے کہا جارہاہے کہ ان کا انتخاب کسی کرشمہ سے کم نہیں ہے ۔ہوسکتا ہے کہ دعویدار زیادہ ہوں اس لئے اختلافات پر قابو پانے کے لئے ان کا انتخاب کیا گیا۔
جس طرح کانگریس اندرونی اختلافات اورکرسی کی لڑائی کی وجہ سے کافی پریشان ہے ۔ راجستھان ، پنجاب اورچھتیس گڑھ میں حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے جدوجہدکررہی ہے ۔پنجاب میں امریندرسنگھ اورنوجوت سنگھ سدھو، راجستھان میں اشوک گہلوت اورسچن پائلٹ اورچھتیس گڑھ میں بھوپیش بگھیل اورٹی ایس سنگھ دیو کا تنازعہ چل رہا ہے۔یہی رسہ کشی کبھی مدھیہ پردیش میں کملناتھ اورجیوتیرادتیہ سندھیا کے درمیان چل رہی تھی جس میں حکومت چلی گئی ۔ اسی طرح بی جے پی کوبھی کئی ریاستوں میں ایسے حالات کا سامنا ہے ۔ بعض ریاستوں میںکوروناکی دوسری لہر کے دوران ریاستی حکومتوں سے عوام ناراض ہیں۔ 2024 کے پارلیمانی انتخابات کی تیاری میں اعلیٰ کمان کو پریشانی ہوسکتی ہے ۔ ایسے میں پارٹی کے سامنے ایک ہی متبادل ہے۔، وہ یہ کہ اکائی کے صدر یا وزیراعلیٰ تبدیل کرکے نئی زمین اورنئی انتخابی حکمت عملی تیار کرے۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے ریاستوں میں وزرائے اعلیٰ، پارٹی صدراورپارٹی امور کے انچارج کی تبدیلی منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت ہورہی ہے اور یہ عمل آگے بھی جاری رہ سکتا ہے ۔
[email protected]
گجرات میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS