ایران میں تبدیلی

0

عالمی سیاسی منظرنامے میں 2دنوں میں5اور6جولائی کو 2بڑی تبدیلیاں ہوئیں ، جن پر پوری دنیا حیرت زدہ ہے ۔پہلے دن برطانیہ میں پارلیمانی انتخابات کے بعد مسلسل 14برسوں تک اقتدارمیں رہنے والی کنزرویٹو پارٹی بری طرح ہاری، لیبر پارٹی نے حکومت کیلئے جتناطویل انتظار کیا ، اسے اتنی ہی بڑی جیت ملی۔اس طرح رشی سنک اقتدارسے باہر ہوگئے اور ان کی جگہ لیبر پارٹی کے رہنما کیراسٹارمر وزیراعظم منتخب ہوئے ۔ دوسری بڑی تبدیلی ایران میں دیکھنے کو ملی ، جہاں صدارتی انتخابات میں رجعت پسند سعید جلیلی کو شکست ہوئی اوراصلاح پسند وروشن خیال مسعود پزشکیان جیت گئے۔دونوں ملکوںمیں یہ بہت بڑی تبدیلی ہے ، جس کے بارے میں وہاں کے لوگوں کی سوچ ضرور نتائج کے مطابق ہوگی ، لیکن دنیامیں ایسی سوچ نہیں تھی۔ایران میں اس تبدیلی کو ملکی اوربین الاقوامی سطح پر کافی اہمیت دی جارہی ہے ۔ایک حادثہ میں سابق صدر ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد قبل از وقت ہوئے صدارتی انتخابات میں ویسے تو مقابلہ کافی سخت تھا ۔پہلے مرحلہ میں کسی بھی امیدوار کو 50فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں مل سکے تھے ، جس کی وجہ سے ازروئے قانون دوسرے مرحلے کے انتخابات کرائے گئے ، جس میں مسعود پزشکیان کو کامیابی ملی ۔ان کی جیت کو اس لئے اہمیت دی جارہی ہے ،کیونکہ ایران جیسے مذہبی ملک میں اصلاح پسند اورروشن خیال لیڈرکامیاب ہواہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اس حجاب کے مخالف ہیں ، جس پر ایران میں پچھلی حکومت میں کافی ہنگامہ ہواتھا۔وہ حجاب کے سخت قانون میں ترمیم کے ساتھ ساتھ خواتین کی آزادی کے بھی حامی ہیں ۔ایسے میں ان کی جیت سے سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا وہ ایران میں حجاب قانون میں ترمیم کراسکیں گے ؟ اوراپنی سوچ اور نظریات کو ملک میں فروغ دے سکیں گے ؟یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں حکومت کی تبدیلی سے ملکی پالیسی میں تھوڑی بہت تبدیلی ہوتی ہے ۔ ہر حکومت ملکی سطح پر کچھ نہ کچھ اپنی پالیسی کے مطابق فیصلے کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے ، لیکن خارجہ پالیسی میں عموما کوئی بڑی تبدیلی نظر آتی ہے ۔کچھ ممالک نئے دوست ضرور بنا تے ہیں ، کسی سے قربت اور تجارت بڑھ جاتی ہے ،لیکن پرانے دوستوں کو نظراندازنہیں کیا جاتاہے۔
ایران کے نئے صدر خواہ کسی بھی نظریہ کے حامی ہوں ، موجودہ ماحول میں ان کیلئے کام کرنا آسان نہیں ہوگا۔ایک تو غزہ جنگ کی وجہ سے اسرائیل اورایران آمنے سامنے ہیں ، حالانکہ دونوں ممالک ابھی تک جنگ سے بچتے رہے ہیں ۔ دوسرے حالیہ عرصے میں مغربی ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات صحیح نہیں رہے ۔پزشکیان اگرچہ امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کی وکالت کرتے رہے ہیں ، لیکن یہ ان کیلئے بہت بڑاچیلنج ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ ایران میں صدر کا عہدہ اعلی ضرور ہوتاہے ، لیکن یہ سب سے طاقتور عہدہ نہیں ہے ۔یہی حال وہاں کی پارلیمنٹ کا ہے۔وہاں سب سے موثر اورطاقتور سپریم لیڈرہوتاہے ، جو اس وقت آیۃ اللہ خامنہ ای ہیں ۔ملک میں سارے بڑے اورپالیسی ساز فیصلے سپریم لیڈرہی کرتے ہیں ،ہاں دنیا کیلئے ضرور صدر کی حکومت ہوتی ہے اوردیگر ممالک کی پارلیمنٹوں کی طرح وہاں بھی پارلیمنٹ کی کارروائی اوربحث چلتی رہتی ہے ،لیکن جو سپریم لیڈر چاہے گا ، وہی ہوگا۔ایک بات ضرور ہے کہ سپریم لیڈر کے جانشین کے انتخاب میں صدر کا رول اہم ہوتاہے اوربھی کئی امور میں فیصلوں پر صدر کچھ نہ کچھ اثر انداز ہوسکتاہے ، کیونکہ ملک کے اس اعلی عہدہ کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔بہرحال مسعود پزشکیان ایران کے 9ویں صد ربن گئے ۔طبی ، فوجی اورسیاسی پس منظررکھنے والے نئے صدر سے نہ صرف ملک کے لوگوں کو بہت ساری توقعات وابستہ ہیں ، بلکہ دنیا بھی نئی صدارتی اننگز میں کچھ معنی خیز تبدیلیوں کی امیدکررہی ہے ۔
جیساکہ کہا جاتاہے کہ کسی بھی ملک میں حکومت کی تبدیلی سے خارجہ پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی ہے ، لیکن کچھ ملکوں کے ساتھ تعلقات مزید استوار اورمضبوط ہوسکتے ہیں ۔ وطن عزیز ہندوستان ، جس کے ایران کے ساتھ قدیم گہرے تعلقات ہیں اوردونوں ملکوں کے درمیان تجارت بھی خوب ہوتی ہے،تعلقات میں مزید بہتری کی امیدکررہاہے ۔پچھلی حکومت میں دونوں کے درمیان اچھے تعلقات تھے، چابہار بندرگاہ کا سمجھوتہ ہوا تھا۔ہندوستان میں ایرانی سفیر کے اس بیان سے کہ حکومت کی تبدیلی سے خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، یہی امید کی جاتی ہے کہ ایران کی نئی حکومت میںدونوں ملک مزید قریب آئیںگے اوراپنے سیاسی ، ثقافتی اور تجارتی تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS