نئی دہلی، (یو این آئی) حکومت نے آج راجیہ سبھا کو بتایا کہ عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد تشویشناک ہے، لیکن اس مسئلے کو اس وقت تک حل نہیں کیا جا سکتا جب تک ججوں کی تقرری کے لیے کالجیم نظام کی جگہ نیا نظام نافذ نہیں کیا جاتا ۔ مرکزی وزیر قانون و انصاف کرن رجیجو نے بدھ کو ایوان میں وقفہ سوالات کے دوران ضمنی سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد پانچ کروڑ کے قریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ ججوں کی تقرری کا کالجیم نظام ہے۔ ججوں کی تقرری حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے کالجیم سسٹم کی جگہ نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن کی تشکیل کا بل متفقہ طور پر منظور کیا تھا تاہم سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے اسے مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ وقتاً فوقتاً ملک کی مختلف شخصیات نے اس قدم کو غلط قرار دیا ہے۔ ان لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ نظام ملک اورایوان کی سوچ کے مطابق نہیں ہے۔
مسٹر رجیجو نے کہا کہ حکومت کے پاس محدود اختیارات کے باوجود مقدمات کے التوا کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منظور شدہ آسامیاں پر نہ ہونے سے عدالتوں کا بوجھ بھی بڑھ رہا ہے۔ حکومت بار بار سپریم کورٹ سے تقرری کے لیے ججوں کے نام بھیجنے کی درخواست کرتی ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک کے تنوع اور جامعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام ذاتوں، مذاہب اور خواتین کے نام ججوں کی تقرری کے لیے اچھے امیدواروں کے طور پر بھیجے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سکیورٹی کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ ججوں کو مختلف سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں قانون اور انصاف کے مرکزی وزیر مملکت ایس پی سنگھ بگھیل نے کہا کہ سردیوں اور گرمیوں میں سپریم کورٹ میں تعطیلات کا معاملہ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور حکومت اسے ختم کرنے کے لیے خود کوئی فیصلہ نہیں لے سکتی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں چیف جسٹس سے بات کرنے میں حکومت کا کوئی نقصان نہیں ہے۔