محمد حنیف خان
جس طرح کی حب الوطنی اور قومیت کا اس وقت ملک میں ابھارہو رہا ہے،وہ مذہبیت کے لبادے والی حب الوطنی اور قومیت ہے۔جو ملک کے لیے حد درجہ نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔در اصل حب الوطنی اور قومیت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے جس میں نہ تو مذہبیت ہوتی ہے اور نہ ہی محدود ذہن ہوتا ہے،یہ ہرطرح کی عصبیت سے پاک ہوتی ہے اگرچہ وہ کبھی کبھی خود عصبیت بن جاتی ہے کیونکہ جب اس کووسیع کینوس(گلوبل ولیج) میں دیکھا جاتا ہے تو وہ محدود محسوس ہوتی ہے،اس کے باوجود ملک کے تناظر میں یہ عصبیت محدود پیمانے میں ہی سہی لیکن مفید ہوتی ہے۔اس کے برعکس اس وقت ملک سے جس طرح کی حب الوطنی اور قومیت کے جذبے کا اظہار کیا جارہا ہے، وہ یک رنگی ہے،اس میں کسی طرح کا تنوع اور رنگا رنگی نہیں ہے۔ متشدد اور متعصب افراد یہ بھول جاتے ہیںکہ کوئی بھی جمہوری ملک اور قوم صرف یک رنگی اور ایک مذہب سے تشکیل نہیں پاتا بلکہ اس کا تنوع ہی جمہوریت کی روح ہے۔
اس وقت ملک میں مسجد اور مندر کا معاملہ ایک بار پھر سے اٹھ گیا ہے،بنارس کی گیان واپی مسجد،متھرا کی عید گاہ،ممتاز محل کی قبر اور محبت کی لازوال نشانی تاج محل اور قطب مینار وغیرہ مسلم سلاطین ہند کی ایسی نشانیاں ہیں جو ہندوستان کی عظمت کو بیان کرتی ہیں۔ان عالمی وراثت کی نشانیوں کے نام تبدیل کرنے اور ان کو اکثریت کی تحویل میں دیے جانے کا مسئلہ نہ صرف عدالتوں میں ہے بلکہ عوام میں بھی اس پر کھل کر گفتگو شروع ہو گئی ہے۔ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ یہ سب غیر ملکی حملہ آوروں کی ایسی نشانیاں ہیں جو پہلے ہندوؤں کی عبادت گاہیں تھیں جن کو طاقت کے زور پر انہوں نے مسجد یا پھر دیگر عمارتوں میں تبدیل کردیا ہے،اس لیے ان پر ہندوؤں کا حق ہے۔ان میں حب الوطنی اور قومیت کا جذبہ بیدار کیا جا رہا ہے،یہ ایسی حب الوطنی اور قومیت ہے جو ہندو مذہب کے لبادے میں ہے،جس میں ملک اور قوم کہیں موجود نہیں ہے۔ متعصب ذہن کے حاملین کا کہنا ہے کہ پہلے یہاں صرف ہندو تھے اور یہ دیش ہندوؤں کا تھا، ایسے میں اب جب کہ ہندوؤں کی حکومت ہے ان سبھی مقامات کو مسلمانوں سے چھین لینا چاہیے،اس پر ان کا حق نہیں ہے بلکہ اکثریت کا ہے۔اس کے لیے وہ مسلم سلاطین کو پانی پی پی کر گالیاں دیتے ہیں لیکن وہ کبھی انگریزوں یا پرتگالیوں کے خلاف ایک لفظ بھی منھ سے نہیں نکالتے ہیں جبکہ انگریز اورپرتگالی دونوں اس ملک کو لوٹ کر لے گئے، اس کے برعکس مسلم سلاطین کی اولادیں اسی مٹی سے پیدا ہونے والی ماؤں کی کوکھ سے پیدا ہوئیں اور اسی میں مل گئیں۔
در اصل متعصب افراد کے سامنے دو مسئلے ہیں جو ایسی حب الوطنی اور قومیت کو فروغ دے رہے ہیں جو ملک کے لیے سم قاتل ہے۔اولاً وہ اس جذبے سے اقتدار پر قبضہ جمائے رکھنا چاہتے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ مذہب ایک ایسی خواب آور گولی ہے جس سے ایک طویل عرصے تک لوگ خواب سے بیدار نہیں ہوں گے۔اس کی بھی قدیم ہندوستان سے لے کر جدید ہندوستان تک ایک طویل تاریخ ہے کہ کس طرح یہاں مختلف ورنوں اور ذاتوں کو مذہب کے جال میں پھنسا کر ان کا استحصال کیا گیا اور اسی کے نام پر ان کو حیوان سے بھی بدتر زندگی گزارنے پرمجبور کیا گیا جس کا فائدہ صرف ان افراد کو ہوا جو اقتدار میں تھے۔آج بھی جو لوگ اقتدار میں ہیں، وہ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی راستے سے مذہب کے لبادے والی حب الوطنی اور قومیت کو فروغ دے رہے ہیںتاکہ ان کے مقاصد حل ہوجائیں۔ثانیا وہ افراد بی جے پی کی حکومت کا فائدہ اٹھا کر ہندوستان کو ہندوراشٹر میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، وہ مسلمانوں کی عبادت گاہوںکو مندروں میں تبدیل کر کے مغل دور میں تعمیر مساجد کو مندروں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کی قوت و سطوت کا دنیا کو اندازہ ہو،کیونکہ وہ پولینڈ سے لے کر اندلس اور اسپین تک کی مثالیں دیتے ہیں کہ کس طرح سے وہاںحملہ آوروں کی عبادت گاہوںکو چرچوں میں تبدیل کیا گیا لیکن ان کو یہ نہیں معلوم کہ ان ممالک اور ہندوستان میں زمین و آسمان کا فر ق ہے۔ان ممالک میں سبھی مذاہب کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا کوئی قانون پارلیمنٹ نے منظور نہیں کیا تھا جبکہ ہندوستان میں 1991میں پارلیمنٹ نے ایک ایسا ایکٹ منظور کیا جس کی رو سے آزادی کے وقت 1947میں بابری مسجد کو چھوڑ کر کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو اسی شکل میں محفوظ رکھنا ہے۔اس ایکٹ کی شق تین کہتی ہے: ’’کوئی بھی فرد کسی مذہب،فرقے یا شاخ کی عبادت گاہ کو اسی مذہب،فرقے،شاخ یا کسی دوسرے مذہب یا اس کے فرقے اور شاخ کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کرے گا۔شق 4کی ذیلی شق نمبر ایک کے مطابق 15اگست 1947کو موجودکسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کے اسٹرکچر اور کیریکٹر کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس طرح کے قانون کی موجودگی کے باوجود نہ صرف عدالتوں میں مساجد اور دیگر عمارتوں پر دعوے کیے جا رہے ہیں بلکہ کھلے عام کہا جا رہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کردیا جائے،جس کے لیے حب الوطنی اور قومیت کا استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ ایک ایسا ماحول بن جائے جس میں کسی کو بولنے کی جرأت نہ ہو۔وہ کھلے عام یہ بات کہہ رہے ہیں کہ تحفظ عبادت گاہ قانون 1991کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے،ان کی نظر میں ایک ایسے نظریہ کی پارٹی کی حکومت ہے جو خالص ہندوتوادی ہے جس کی نظر میں ہندوازم کا سیاسی و سماجی احیاء ہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔اسی لیے متعصب ذہن کے افراد کھلے عام ہندوستان کے قوانین کے خلاف بول رہے ہیں مگر ان کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کی جانب اب تک قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ظاہر ہے ایسے ماحول میں نہ صرف زندگی بسر کرنا مشکل ہوگا بلکہ اس سے ملک کے حالات بہت تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔
متعصب افراد نے انسانیت اور قانون کو درکنار کرتے ہوئے جس قومیت اور حب الوطنی کو فروغ دیا ہے، اس خدشے کے پیش نظر ہی رابندر ناتھ ٹیگور نے اس کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ انسانیت کے اوپر حب الوطنی کی جیت نہیں ہونے دوں گا۔انہوں نے اس طرح کی حب الوطنی اورراشٹر واد کو مہلک بیماری قرار دیا تھا۔ٹیگور بیسویں صدی کے ایک ایسے دانشور تھے جو اس طرح کی حب الوطنی کے سب سے بڑے مخالف تھے۔انہوں نے 1916-17میں جاپان اور امریکہ میں اپنی تقریروں میں راشٹرواد سے ابھرتے خطروں کو صاف طور پر بیان کیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ مضبوط لیڈر جس ریاست کے موقف کے ساتھ ابھرتے ہیں اور ایک محدود خطہ ارض پر حکومت کرتے ہیں، اس کے پس پشت جو سب سے اہم عنصر کارفرما ہوتا ہے وہ حب الوطنی /راشٹر واد ہے۔ہندوستان میں اس نوع کی حب الوطنی کے ابھرنے سے قبل ہی ٹیگور نے مغربی ممالک اور جاپان کے تجربوں سے نتائج اخذ کرتے ہوئے دنیا کو آگاہ کیا تھا۔ٹیگور نے اپنی کتاب ’’راشٹر واد ‘ میں اس کا فائدہ لکھتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی اور سماجی وفاق میں راشٹر ایک ایسا نقطہ ہے جو سب کو متحد کردیتا ہے۔لیکن 1908میں سائنسداں جگیش چندر بوس کی اہلیہ ابالا بوس کو لکھے ایک خط میں وہ لکھتے ہیں ’’دیش پریم /حب الوطنی ہمارا آخری روحانی سہارا نہیں بن سکتا۔میرا مقصد انسانیت ہے،میں ہیرے کے دام میں گلاس نہیں خریدوں گا اور جب تک میں زندہ ہوں انسانیت کے اوپر دیش بھکتی/حب الوطنی کی جیت نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ٹیگور کے ناول ’’گھرے بائرے‘‘ میں بھی اسی موقف کا اظہار کیا گیا ہے۔ٹیگور حب الوطنی کی معراج ہیں کیوںکہ قومی ترانہ ’’جن گن من ‘‘کے وہ خالق ہیں،ان کی یہ تخلیق حب الوطنی کی علامت ہے،اس کے باوجود وہ حب الوطنی کو ایک مہلک بیماری قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نوع کی حب الوطنی نہ صرف حال کی انسانی دنیا کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس کی اخلاقی طاقت اور اس کی قدروں کو بھی وہ نگل رہی ہے۔
ٹیگور کے نظریہ حب الوطنی کے تناظر میں اگر موجودہ حب الوطنی اور دیش پریم کو دیکھا جائے تو واقعی وہ ایک مہلک بیماری کی طرح نظر آ رہی ہے جو قانون اور انسانیت دونوں کو نگل رہی ہے۔مذہب کے لبادے میں ملفوف یہ حب الوطنی یہ کہ نہ صرف ملک کے سبھی عوام کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے بلکہ قوم و ملک کو تقسیم کرنے کا سبب بھی بن رہی ہے جبکہ اصل حب الوطنی سبھی کو ایک لڑی میں پروتی ہے اور ایک جھنڈے تلے جمع کرتی ہے۔اہل اقتدار کو موجودہ حب الوطنی اور اس کے نقصانات کے بارے میں غور و خوض کرنا چاہیے، انہیں وقتی فائدے کے بجائے ملک و قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے، انسانیت اور قانون پر مذہبی حب الوطنی اور دیش پریم کی جیت ملک اور جمہوریت کے لیے نیک فال نہیں ہے مگر افسوس کہ دھیرے دھیرے اس کے قدم اس جانب بڑھ رہے ہیں،جسے اگر روکا نہیں گیا تو ایک دن قانون،انسانیت اور اخلاقی قدروں سب کو نگل جائے گی۔
[email protected]