عرصہ دراز کے بعد سیاسی میدان سے ایک اچھی خبر آئی ہے۔ بکھری ہوئی،بے ترتیبی کی شکار، وژن اور حکمت عملی سے بے بہرہ تصور کرلی جانے والی اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کا عملی آغاز ہوچکا ہے۔ اعتراضات، تنازعات اور مناقشات کی پرخار وادیوں سے گزر تے ہوئے اپوزیشن کا قافلہ میدان گل و لالہ بنگلورومیںدودنوں تک خیمہ زن ہونے کے بعدسفر نو کیلئے ایک نئے عزم و ولولہ کے ساتھ تیار ہے۔بنگلورومیں 26سیاسی پارٹیوں کے دو روزہ اجلاس کے بعد اپوزیشن اتحاد کی نمائندگی کرتے ہوئے کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے اعلان کیا ہے کہ جمہوریت اور آئین کوبچانے کیلئے اپوزیشن کا یہ اتحاد عمل میں آیاہے۔ اس اتحاد کا نام ’ انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس(انڈیا)‘ (Indian National Developmental Inclusive Alliance (INDIA)) ہوگا۔ اپوزیشن اتحاد کا یہ نام ’انڈیا‘کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے تجویز کیا ہے۔ اجلاس کے دوران انہوں نے کہا کہ آنے والے قومی انتخابات میں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کیلئے این ڈی اے کے خلاف ’انڈیا‘ کا نام صحیح ہوگا۔’ انڈیا‘ کی اگلی میٹنگ ممبئی میں ہوگی، اس سے قبل 11 رکنی رابطہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور کمیٹی کے ارکان کے ناموں کا اعلان بھی ممبئی میں کیا جائے گا۔اس کے انتظامات کیلئے دہلی میں ایک مشترکہ سکریٹریٹ بھی قائم کیا جائے گا اور مختلف مسائل کیلئے مخصوص کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ اجلاس میں مشترکہ اعلامیہ کی منظوری بھی دی گئی ہے جس کے مطابق اتحاد میں شامل اپوزیشن کی تمام پارٹیاں2024کا لوک سبھا انتخاب متحد ہوکر لڑیں گی اور کامیاب بھی ہوں گی۔
ہندوستان کی حفاظت کیلئے ’ انڈیا‘ کے نام سے شروع ہونے والا یہ اتحاد دراصل ہندوستان کی ناگزیر ضرورت ہے۔راہل گاندھی نے بجا طور پر کہا ہے کہ یہ دو سیاسی محاذوں کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستان کے نظریہ کی حفاظت کی لڑائی ہے۔یہ ہندوستان کے اساسی نظریہ اور نریندر مودی کے خیالی نظریہ کے درمیان لڑائی ہے۔
ہندوستان کے موجودہ سیاسی منظر نامہ میں ایک ایسی مثبت پیش رفت ہے جس کا ملک کو عرصہ درا ز سے انتظار تھا۔ مختلف سیاسی پارٹیاں بشمول کانگریس بھی اپنی انفرادی حیثیت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی اور اس کی ہم نوا جماعتوں کے مقابل مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہونے میں ناکام ثابت ہوتی رہی ہیں۔ انتخابی اور پارلیمانی سیاست میں بھی اپوزیشن کی کارکردگی ایسی نہیں رہی کہ اسے ملک کے عوام حقیقی اپوزیشن یا حکمراںجماعت کا متبادل سمجھ پاتے۔ لیکن اب اس اتحاد کے بعد مایوسی کا کہرہ چھٹنے کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ اتحاد میں شامل پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کے جو بیانات سامنے آرہے ہیں، ان سے بھی یہ محسوس ہورہاہے کہ 2024کا لوک سبھا انتخاب دوسرے تمام مفادات پر حاوی رہے گا۔یہ پارٹیاں اپنے اپنے طورپر وزیراعظم کے عہدہ کی امیدواری اور علاقائی سیاست میں بالادستی کو بھی ترک کرنے کو تیار ہوگئی ہیں۔ اجلاس کے بعد ترنمول سپریمو ممتابنرجی نے وزیراعظم مودی اور حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کو کھلا چیلنج دیتے ہوئے کہا ہے کہ پکڑ سکو تو ہمیں پکڑ و۔انہوں نے استفہامیہ لہجہ میں کہاکہ کیا آپ ہمارے ’انڈیا‘ کو چیلنج کر سکتے ہیں؟ ہماری تمام مہم، تشہیر، جلسے جلوس اسی ’انڈیا‘ کے بینر تلے ہوں گے اور لوک سبھا انتخاب 2024 میں ’انڈیا ‘ہی کامیابی کے پھریرے لہرائے گا۔
ایک ایسے وقت میں جب جمہوریت کا اندازہ لگانے والے مختلف اشاریوں میں ہندوستان کی عالمی درجہ بندی مسلسل گر رہی ہو، جمہوریت کا تحفظ تمام چیزوں پر مقدم ہونا چاہیے اور اس کیلئے اپوزیشن اتحاد کا ہونا ضروری تھا۔اپوزیشن نے یہ اتحاد قائم کرکے در اصل ہندوستان کی جمہوریت کی جانب تحفظ کا پہلا قدم اٹھایا ہے۔ جو حکمراں بی جے پی کیلئے بہت بڑا چیلنج بننے والا ہے۔اس کا اندازہ حکمراں جماعت کی بوکھلاہٹ سے بھی ہورہاہے۔ ابھی اتحاد کاباقاعدہ اعلان بھی نہیں ہواتھا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے نیابیانیہ جاری کردیا، انہوں نے اپوزیشن اتحاد کو خاندان پرستوں کا جمگھٹ ٹھہرایا اور کہا کہ اپوزیشن پارٹیوں کا مرکز صرف خاندان ہے ملک نہیں۔ جمہوریت کیلئے کہاجاتا ہے کہ ’’عوام کی، عوام کے ذریعے، عوام کیلئے ‘‘ لیکن خاندان پرستوں کامنتر ہے ’’خاندان کا، خاندان سے، خاندان کیلئے‘‘۔ ہوسکتا ہے وزیراعظم اپنے اس مضحکہ خیز بیان کو اپوزیشن اتحاد کے خلاف افلاطونی دلیل سمجھ رہے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ’انڈیا‘ سے بی جے پی کے خوف کی واضح نشانی ہے۔ یہ خوف زدگی ہی ہے کہ ’ انڈیا‘ کا اعلان ہونے کے فوراً بعد این ڈی اے نے اپنے خیمہ میں شامل 38پارٹیوں کی میٹنگ طلب کرلی ہے۔ اب اس میٹنگ میں بی جے پی اگلے عام انتخاب میںجیت کیلئے کون سی حکمت عملی طے کرے گی یہ تو معلوم ہی ہوجائے گالیکن اتنا طے ہے کہ آنے والا انتخاب بی جے پی کیلئے مشکل ترین ثابت ہونے والا ہے۔
[email protected]
این ڈی اے کیلئے چیلنج ’ انڈیا‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS