مرکزی حکومت کا بجٹ سازی کا عمل اور عوامی توقعات: ڈاکٹر جاوید عالم خان

0

ڈاکٹر جاوید عالم خان

پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس میں صدر جمہوریہ نے مرکزی حکومت کی گزشتہ دس سالوں کی کارکردگی کو پیش کیاہے مگر انہوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، آمدنی کی غیر برابری اور غربت کا ذکر نہیں کیا۔مرکز میں نئی حکومت کے قیام کے بعد آئندہ بجٹ کے لیے مرکزی وزارت برائے خزانہ کا تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اس وقت مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ ان اسٹیک ہولڈرز میں تمام صوبوں کے وزیر خزانہ، ماہر معاشیات، رفاہی تنظیمیں، ٹریڈ یونین، تاجروں، سرمایہ کاروں اور کسانوں کی تنظیمیں شامل ہیں۔ سالانہ بجٹ اخراجات کو تین اہم سیکٹر یا شعبوں کے ذریعہ عوامی خدمات کیلئے خرچ کیاجاتاہے۔ ان تین سیکٹر یا شعبوں کو عمومی سیکٹر، اقتصادی سیکٹر اور سماجی سیکٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عمومی سیکٹر کے تحت جو حکومتی خدمات اور کام انجام دیے جاتے ہیں، ان میں سبسڈی سے متعلق اخراجات، پنشن، سود کی ادائیگی، قرض کی ادائیگی، دفاع سے متعلق اخراجات، قانون، پولیس اور عدلیہ پر خرچ اور مختلف وزارتوں اور شعبوں کو چلانے کیلئے مستقل اخراجات۔ وہیں معاشی سیکٹر سے متعلق دی جانے والی خدمات میں زراعت، آبپاشی، صنعت اور معدنیات، روزگار پروگرامس، نقل وحمل، مواصلات اور توانائی شامل ہیں۔ تیسرا اہم شعبہ سماجی خدمات سے متعلق ہے جس کا اہم مقصد ملک کے اندر انسانی وسائل کو فروغ دینا ہے۔ اس شعبے کے ذریعہ جو اہم خدمات دی جارہی ہیں، ان میں تعلیم، صحت، غذائیت، پانی کی فراہمی اور صفائی ستھرائی کے علاوہ پسماندہ طبقات کی ترقی سے متعلق اہم ترجیحات شامل ہیں۔ پسماندہ طبقات کے تحت اقلیتوں، عورتیں، معذوروں، بچوں، دلت اور قبائلیوں کیلئے بھی ترقیاتی بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ ان میں جینڈر بجٹنگ، چائلڈ بجٹنگ دلتوں اور آدی واسیوں کیلئے ڈیولپمنٹ ایکشن پلان، اقلیتوں کیلئے وزیراعظم کا 15 نکاتی پروگرام اور معذوروں کیلئے مخصوص بجٹ قابل ذکر ہے۔ مرکزی بجٹ2024-25یکم فروری کو عارضی بجٹ (Vote on Account)کے طورپر پیش کیا گیا تھا۔ عارضی بجٹ میں مرکزی وزیر برائے خزانہ نے کوئی بڑے پالیسی اعلانات نہیں کیے تھے اور عارضی بجٹ جولائی 2024تک کیلئے سرکار چلانے کیلئے جن اخراجات کی ضرورت ہے، ان کو منظوری دی گئی تھی۔ عام انتخابات کے بعد اب نئی منتخب حکومت مانسون اجلاس میں اپنا مکمل بجٹ پیش کرے گی۔ مرکزی وزیر کے اس بیان کے تناظر میں یہ کہا جاسکتاہے کہ فروری میں پیش کیے گئے بجٹ میں عوام کی ترقی سے متعلق ترجیحات اور توقعات پر زیادہ دھیان نہیں دیا گیا تھا۔ اس لیے آنے والے مکمل بجٹ میں عوام سے وابستہ توقعات جیسے کہ تعلیم، صحت، روزگار، غذائیت، سماجی تحفظ اور بنیادی سہولتوں سے متعلق اسکیموں پر اضافی بجٹ کی ضرورت ہوگی۔ تجزیہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سماجی تحفظ کیلئے بزرگوں، بیواؤں اور معذوروں کیلئے جو ماہانہ پنشن کی رقم (300-400 روپے) دی جاتی ہے جو بالکل ہی نا کافی ہے۔اقلیتوں، دلتوں، قبائلیوں اور معذوروں کیلئے چلائی جارہی اسکالرشپ اسکیموں کے تحت جو ماہانہ رقم ادا کی جاتی ہے وہ طالب علموں کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر پا رہی ہے۔ اس لیے ان اسکیموں کے مختص بجٹ میں اضافہ کی ضرورت ہے۔صحت، غذائیت اور روزگار کی اسکیموں(نیشنل ہیلتھ مشن، سمگر شکشا، مڈڈے میل، پوشن، منریگا نیشنل لائولی ہوڈ مشن اور وزیراعظم کا روزگار پروگرام) کے لیے مختص بجٹ اور اخراجات سے متعلق اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ ان کے نفاذ میں کافی کمیاں ہیں جس کی وجہ سے عوام ان اسکیموں سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں، اس لیے اگلے بجٹ سے یہ امید کی جاتی ہے کہ مرکزی حکومت ان کمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گی۔اسی طرح سے آشا ورکر، آنگن واڑی ورکر اور آنگن واڑی ہیلپر کو جو تنخواہیں دی جاتی ہیں، وہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکافی ہیں، اس لیے ان ورکرز کی تنخواہوں میں اضافہ اور ان کو سماجی تحفظ بھی فراہم کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ جی ایس ٹی کے نفاذ کے ذریعہ تاجروں اور عوام پر جو بوجھ پڑرہا ہے، اس کو حل کرنے کیلئے مرکزی بجٹ کو خاص توجہ دینی چاہیے۔ مہنگائی اور آمدنی کی عدم مساوات کو مدنظر رکھتے ہوئے انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی کے ڈھانچے میں مزید تبدیلی کی ضرورت ہے جس سے نوکری پیشہ اور عام لوگوں کو راحت دی جاسکے۔
اس مالی سال کیلئے نئی مرکزی حکومت مانسون اجلاس میں اپنا مکمل بجٹ پیش کرنے والی ہے۔ دراصل بجٹ آئندہ مالی سال کے دوران ہونے والے تخمینہ شدہ اخراجات اور محصولات کے بیان اور تفصیلات کو پیش کرتاہے۔ مرکزی حکومت ترقیاتی پالیسی اور بجٹ کے ذریعہ اہم سماجی اور اقتصادی مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ملک کے سامنے ایک سالانہ فریم ورک کو پیش کرتی ہے۔ سالانہ بجٹ کے ذریعہ مرکزی حکومت سماجی اور اقتصادی انفرااسٹرکچر کی بہتر فراہمی کیلئے بجٹ مختص کرتی ہے جس کا مقصد انسانی وسائل کی ترقی میں اضافہ اور روزگار کے مواقع کو فراہم کرنا ہے۔ بجٹ کے ذریعہ معاشی صورتحال اور قیمتوں میں استحکام کے ذریعہ ملک کے مالی توازن کو برقرار رکھنا ہے، مزید اس عمل کے ذریعہ ملک کے اندر عوام میں آمدنی میں عدم مساوات کو بھی کم کرنا ہے۔
آئین کے مطابق تمام طرح کے محصولات اور اخراجات کو ایک مجموعی فنڈ(Consolidated Fund of India)کے تحت رکھا جاتا ہے اور تمام اخراجات سے متعلق رقم کو کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس کیے گئے قوانین کے تحت ہی نکالا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کے تحت کئی طرح کے مالیاتی کام بجٹ پر مشتمل ہوتے ہیں جس میں عام بجٹ، ڈیمانڈ فار گرانٹس، ووٹ آن اکاؤنٹ، سپلیمنٹری گرانٹس شامل ہیں، اس کے علاوہ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد آمدنی سے متعلق فنانس بل اور اخراجات سے متعلق ایپروپرئیشن بل کو ایکٹ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ مزید یہ سارے عمل آرٹیکل112، آرٹیکل117، آرٹیکل 262 اور آرٹیکل 267 کے تحت پاس کیے جاتے ہیں۔
حکومت کی ٹیکس پالیسی سے متعلق اقدامات عوام پر منفی اور مثبت طورپر اثرانداز ہوتے ہیں۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ مرکزی حکومت کمپنیوں کے منافع پر کارپوریشن ٹیکس نافذ کرتی ہے نجی یا ذاتی آمدنی پر انکم ٹیکس بھی لگایا جاتاہے، ملک سے درآمد یا برآمد اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی نافذ کی جاتی ہے، اسی طرح سے اشیاء کی پیداوار پر ایکسائز ڈیوٹی لگائی جاتی ہے۔ حکومت غیر ٹیکس سے متعلق آئٹم کے ذریعہ آمدنی اکٹھا کرتی ہے، اس میں منافع، فیس، تمام خدمات کے ذریعہ آمدنی اور جرمانہ بھی شامل ہے۔ آمدنی اکٹھا کرنے کے عمل میں حکومت سرکاری اثاثہ اور پراپرٹی کو بھی فروخت کرتی ہے، اگر ان تمام ذرائع سے حکومت کے تخمینہ شدہ اخراجات کی تکمیل نہیں ہوپاتی ہے تو قرض لیاجاتا ہے۔ قرض میں اضافہ کی وجہ سے سود کی ادائیگی کی شرح میں بھی اضافہ ہوتاہے۔ تجزیہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں قرض کی مقدار میں کافی اضافہ ہوا ہے لہٰذا یہ امید کی جاتی ہے کہ اگلے بجٹ میں حکومت بجٹ گھاٹے کو کم کرنے میں زیادہ توجہ دے گی۔
چونکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوری نظام حکومت میں آئین قانون ساز اداروں کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ ملک کے اندر اکٹھے کیے گئے مالی وسائل اور عوامی اخراجات کی تفصیلات کی جانچ پڑتال کریں۔ حالانکہ تجزیہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ قانون ساز اداروں کے ذریعہ بجٹ سے متعلق مالی وسائل اور اخراجات کی جانچ پڑتال بہتر ڈھنگ سے نہیں کی جارہی ہے۔ بجٹ سے متعلق عوامی بیداری کا فقدان ہے۔جہاں تک حکومت کے ذریعہ اکٹھا کیے گئے مالی وسائل یا اخراجات کا معاملہ ہے تو اس میں سماجی تنظیموں کی شراکت زیادہ نہیں ہے حالانکہ ان کے ذریعہ پالیسی مداخلت کیلئے یہ ایک بہت اہم موقع ہوتا ہے۔ البتہ کچھ رفاہی تنظیمیں گزشتہ سالوں سے بجٹ سے وابستہ معاملات میں دلچسپی لے رہی ہیں اور بجٹ کا تجزیہ بھی کرتی ہیں، ان کے تجزیہ میں زیادہ توجہ مختص بجٹ میں پسماندہ طبقات اور سوشل سیکٹر کیلئے بنائی گئی ترقیاتی اسکیموں اور اس سے متعلق ترجیحات پر ہوتی ہے۔ ان کے اس عمل کا مقصد یہ بھی ہے کہ پسماندہ طبقات کیلئے حکومت کے ذریعہ چلائے جارہے ترقیاتی پروگراموں کو مؤثر ڈھنگ سے نافذ کروایا جاسکے۔ ان تنظیموں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بجٹ کے تجزیہ اور بجٹ ایڈوکیسی کے ذریعہ مختلف سطحوں پر نظام حکومت میں احتساب اور شفافیت کو بہتر کیا جاسکے گا جوکہ مضبوط جمہوری نظام حکومت کا ایک اہم مقصد بھی ہے۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈوکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS