آج ہندوستان جنت نشان جمہوریت کی74ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ 1950 میں آج ہی کے دن ہندوستان کو ایک آئین ملاتھا جس میں بلا کسی امتیازسبھی ہندوستانی شہریوں کو آزادی اور مساوات کی ضمانت دی گئی ہے۔جینے کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، اپنی مرضی کا عقیدہ اور مذہب اختیار کرنے کی آزادی، اپنی مرضی کا کاروبار کرنے کی آزادی کاحق دیاگیا ہے۔سیاسی اور سماجی سطح پر مساوات، کمتر اور برتر کے کسی تعصب و امتیازکے بغیرقانون کے سامنے مساوات کا حق بھی ہمارے آئین کا مقصود ہے۔اس آئین کو اپنانے کی خوشی میں ہم ہر سال آج ہی کے دن جشن مناتے ہیں، اپنی کامیابی اور کامرانیوں کی کہانیاں سناتے ہیں۔دنیا کے منتخب حکمرانوں کو مہمان مدعو کرکے ان کے سامنے اپنی طاقت کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس بار بھی ہم نے فرانس کے صدر کو جشن جمہوریت کا مہمان خصوصی بنایا ہے۔ راج پتھ پرہمارے حکمراں فرانس کے صدر ایمینوئل میکرون کو ہماری کامیابی اور کامرانی کی جھلکیاں دکھلائیں گے۔ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے نمونے بھی ان کے سامنے لائے جائیں گے۔ تنوع میں وحدت کا نظارہ بھی ان کے سامنے پیش کیاجائے گااور وہ سب کچھ ہوگا جو گزشتہ 74 برسوں سے ہوتاآیا ہے۔
لیکن اب ہمیں اپنی جمہوریت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی ہم یہ جشن منانے کے حقدار ہیں ؟ کیا ہمارے یہاں حقیقی جمہوری نظام ہے؟ کیا جمہوریت کے ثمرات ہم تک پہنچ رہے ہیں؟ کیا آئین کی دی گئی ضمانت باقی ہے؟ کیا ملک میں ترقی، خوشحالی، سماجی و اقتصادی حالت، عوام کی خوشی کا وہ معیار ہے جو جمہوریت کاخاصہ ہوتی ہے؟
جب ہم ان سوالوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے جمہوریت کے اپنے74برسوں کے سفر میں جو نشان راہ چھوڑے تھے، وہ مٹتے جارہے ہیں۔ہم نے بھلے ہی زراعت، صنعت،تعلیم، طب، خلائی سائنس جیسے شعبوں میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن اتحاد، اتفاق، ہم آہنگی کے محاذ پر ناکام ہوتے جارہے ہیں۔ ہم اس طویل مدت میں اپنے ملک سے نہ تو غربت ختم کرپائے ہیں، نہ سماجی اور معاشی عدم مساوات کو ہی کم کرنے کا کوئی کام کیا ہے۔ترقی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود ملک میں غربت، بھوک، بے روزگاری اور مہنگائی وغیرہ جیسے سنگین مسائل ہمارا مقد ر بنے ہوئے ہیں، کروڑوں لوگ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ملک کی تقریباً 36 کروڑ آبادی اب بھی صحت، غذائیت، تعلیم اور صفائی ستھرائی سے محروم ہے۔ دوسری طرف ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں۔ہماری قومی آمدنی کا 22 فیصد حصہ صرف ایک فیصد آبادی کے پاس پہنچ گیا اور یہ ایک فیصد ملک کی 73 فیصد دولت پر قابض ہے۔ ناخواندگی، فرقہ پرستی، صنفی امتیاز اور ذات پات کے محاذ پر بھی ہم نے کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہے۔
ہماری امنگوں اور آرزوئوں کونئے نئے معنی اور مفاہیم دیے جارہے ہیں۔ عوامی شرکت نہ ہونے کی وجہ سے ہماری جمہوریت محض ’انتخابی جمہوریت‘ بن کر رہ گئی ہے۔ انتخابات میں ووٹ کو حق کے طور پر نہیں بلکہ فرض کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔ تکثیریت پر مبنی ہماراجمہوری نظام، اکثریت پر مبنی آمریت میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں عدم برداشت کا رجحان بڑھا ہے، ذات پات کی جڑیں گہری ہوئی ہیں تو فرقہ پرستی، علاقائیت اور بنیاد پرستی کو بھی سرکاری سرپرستی مل گئی ہے۔ فرقہ وارایت کی عصبیت ہماری جمہوریت کو کیڑے کی طرح چاٹتی جارہی ہے۔کبھی سیکولرازم ہماری جمہوریت کی بنیاد اور خمیر ہوا کرتاتھا، اب اکثریت کا مذہب ہماری جمہوریت کا مذہب قرار دیاجارہاہے۔آئین میں دی گئی آزادی و مساوات کی ضمانت کو چیلنج کاسامنا ہے۔
جمہوری نظام حکومت کے تینوں جز مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ انتشار کا شکار انتہائی دباؤ میں کام کر رہے ہیں۔ہماری مقننہ کے اجلاس نیم دلی کے ساتھ بغیر اپوزیشن کے منعقد ہورہے ہیں اور من مانی، من چاہی قانون سازی ہورہی ہے۔ جمہوریت کا چوتھا ستون سمجھے جانے والے میڈیا کی آزادی ختم ہوگئی ہے۔غیر سرکاری تنظیم ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘کی جانب سے جاری ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان کا مقام مسلسل پیچھے کی جانب سرک رہاہے۔
ان بنیادی سوالات کو پس پشت ڈال کرہم اپنی جمہوریت کی کامیابی کا کتنا ہی ڈنکا کیوں نہ بجالیں،جشن جمہوریت میں عالمی رہنمائوں کا میلہ ہی کیوں نہ لگالیں، جشن کے صحیح حقدار نہیں ہوسکتے ہیں۔جمہوری نظام کی کامیابی کا سہرا سجانے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم تکثیریت اور تنوع میں اتحاد کے بنیادی فلسفہ پر چلتے ہوئے سیکولرازم کو مضبوط کریں۔جمہوریت میں عوامی شرکت اور جمہوری کلچر کو پروان چڑھائے بغیر یہ جشن، یہ ہنگامہ، یہ طاقت اور دولت کی نمائش سب بے معنی ٹھہرے گی۔
[email protected]
جشن جمہوریت !
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS