عبیداللّٰہ ناصر
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان گزشتہ22اپریل کو پہلگام میں پاکستانی دہشت گردوں کے ہاتھوں26بے گناہ انسانوں کو ان کا مذہب پوچھ کر قتل کیے جانے کی بہیمانہ کارروائی کے جواب میں ہندوستان نے سرحد پار دہشت گردوں کے اڈوں کو نیست و نابود کرنے کے اپنے عالمی قانون سے منظور شدہ حق کا استعمال کرکے نہ صرف دہشت گردوںبلکہ ان کے آقاؤں اور سرپرستوں کو ایک سخت پیغام دے دیا تھا۔ ہندوستان کی اس کارروائی کے خلاف پاکستان کے فوجی ٹولے کو بھی اپنی ناک، ساکھ اقتدار اور گرفت بچائے رکھنے کے لیے جوابی کارروائی کرنی ہی تھی، اس نے پونچھ کی شہری آبادی کو نشانہ بنا کر وہاں بھی کئی معصوم لوگوں کو جن میں دو بچے اور 5فوجی بھی شامل ہیں، موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، اس کے جواب میں ہندوستان نے بھی پاکستان کے کئی ٹھکانوں کونشانہ بنایا اور دشمن پر کاری ضرب لگائی، یہ سلسلہ چار دنوں تک جاری رہا، اس کے بعد امریکہ نے مداخلت کرکے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کرا دی۔ ظاہر ہے کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے، یہ صرف موت،تباہی اور بربادی لاتی ہے، اس کا فائدہ صرف حکمراں ٹولہ، اسلحہ ساز کمپنیاں، اسلحہ فروش اور ان کے دلال اٹھاتے ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے کسی سبکدوش سینئر فوجی افسر نے بڑے پتے کی بات کہی تھی کہ امن کی اہمیت اور جنگ کی تباہی کا سب سے زیادہ احساس فوجیوں کو ہی ہوتا ہے، اس لیے ہر ہوشمند امن پسند شخص جنگ کے خلاف ہے اور جنگ بندی کی حمایت کرتا ہے۔ لاہور میں وہاں کے ترقی پسند مصنّفین، شاعروں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے دیگر لوگوں نے امن مارچ نکال کر جنگ کی مخالفت کی تھی، اسی طرح امرتسر میں بھی لوک سنسکرت منچ نے جنگ کی مخالفت میں مظاہرہ کیا۔اس کے برخلاف دونوں ملکوں کے میڈیا نے ایسی ایسی جھوٹی من گڑ ھت خبریں چلائیں اور ان خبروں میں ایسے ایسے الفاظ کا استعمال کیا کہ الامان الحفیظ، ایسا لگتا تھا کہ بس دونوں ملکوں کی فوجیں فتح کا جھنڈا گاڑتے ہوئے ایک دوسرے پر قبضہ کر چکی ہیں۔یہ سچ ہے کہ جنگ میں جھوٹ بھی ایک حربہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن جو طوفان بدتمیزی میڈیا نے مچایا ہے، اس پر لعنت بھیجنے کا علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ اچھا یہ ہوا کہ ہندوستانی وزارت دفاع اور وارت خارجہ نے مشترکہ پریس بریفنگ کر کے عوام کوکافی حد تک صحیح صورت حال سے آگاہ رکھا۔
جنگ بندی کا اعلان صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کیا، انہوں نے کہا کہ امریکہ کی ثا لثی میں رات بھر کی گفتگو کے بعد دونوں ملک جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں۔امریکی خارجہ سیکریٹری مارکو روبیو نے بھی کہا کہ انہوں نے امریکی نائب صدر جے ڈی وانس کے ساتھ مل کر یہ جنگ بندی سمجھوتہ کی راہ ہموار کی، ا س سلسلہ میں وزیراعظم نریندر مودی، وزیرخارجہ ایس جے شنکر، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کے علاوہ پا کستان کے وزیراعظم شہباز شریف ، فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر وغیرہ سے گفتگو ہوئی۔ ہم دونوں وزرائے اعظم نریندر مودی اور شہباز شریف کی فہم و فراست، امن کا راستہ منتخب کرنے اور دور اندیشی کی تعریف کرتے ہیں، اس سے قبل سعودی وزیر خارجہ بھی ہندوستان آئے تھے اور اپنے دونوں دوست ملکوں کے درمیان امن کے قیام کی ضرورت پر زور دیا تھا، بعد میں انہوں نے بھی اپنے ایک بیان میں اس جنگ بندی کا خیر مقدم کیا۔چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے نہ صرف جنگ بندی بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان دائمی امن اور دوستی کی بھی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ خطہ میں امن اور استحکام برقرار رہے۔
امریکی مداخلت سے ہونے والی اس جنگ بندی سے ہندوستان میں ایک بڑا طبقہ ناخوش بھی ہے، ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ قومی وقار سے سمجھوتہ اور باہمی معاملوں میں امریکہ کی با لا دستی قبول کر لینا ہے،ایسے میں لوگ سابق وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی کو فطری طور سے یاد کر رہے ہیں جنہوں نے1971کی جنگ میں پاکستان کو فیصلہ کن شکست دے کر اس کے دو حصہ کر دیے تھے اور امریکہ کی دھمکیوں یہاں تک کہ ساتواں بحری جنگی بیڑا بھیجنے کی دھمکی کے آگے بھی نہیں جھکی تھیں۔ حالانکہ کارگل کی جنگ بھی امریکی مداخلت کے بعد ہی بند ہوئی تھی، اس کے علاوہ پلوامہ حملے اور ہندوستان کی تب کی سرجیکل اسٹرائیک کے بعد بھی دونوں ملکوں کے درمیان امن امریکہ کی مداخلت سے ہی قائم ہوا تھا۔ امریکہ کی مداخلت سے ہوئی اس اچانک جنگ بندی سے ہندوستانی فوج کے سابق سربراہان جنرل وی پی ملک، جنرل نروان وغیرہ بھی حیرت زدہ ہیں، وہیں مودی بھکت بیچارے ایک بار پھر کنفیوژن کا شکار ہوگئے ہیں، کشمیر سے 370ہٹانے کے بعد کشمیری لڑکیوں سے شادی کرنے اور کشمیر میں پلاٹ خریدنے کی خواہش پر پانی پھرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر واپس لینے اور پاکستان کے حصے بخرے کرنے کا خواب پھر شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا، الٹے سوشل میڈیا پر مودی مخالفین ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور اندرا گاندھی کو یاد کرکے ان کے زخموں پر نمک پاشی بھی کر رہے ہیں۔
حکمراں این ڈی اے کے علاوہ ہندوستان کی سبھی سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں نے بھی جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے لیکن امریکی مداخلت کو شملہ سمجھوتہ کے خلاف بتایا ہے جس میں دونوں ملک اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ وہ باہمی معاملات آپسی گفت و شنید سے ہی طے کریں گے اور کسی تیسرے ملک کو مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر منیش تیواری نے امریکی خارجہ سیکریٹری مارکو روبیو کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ دونوں ملک وسیع تر امور پر کسی ’’غیر جانبدار‘‘جگہ پر گفتگو کرنے پر رضامند ہیں، کہا کہ یہ تیسرے ملک کی مداخلت کا براہ راست اشارہ ہے۔
ایک دوسرے سینئر لیڈر ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ اس اچانک جنگ بندی سے پاکستان اپنی بہیمانہ حرکتوں سے بعض نہیں آئے گا یا تو اسے مکمل سزا دی جاتی یا یونہی چھوڑ دیا جاتا، تین دنوں کی اس جنگ سے کیا حاصل ہے جبکہ دوسرے سینئر لیڈر ششی تھرور نے جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے کہا کہ ہندوستان کبھی بھی لمبی جنگ نہیں چاہتا، یہ کارروائی دہشت گردوں کو سبق سکھانے کے لیے تھی جس میں ہندوستان کامیاب رہا۔ راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر اور بہار کے سابق نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادونے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر ملک کو مرحلہ وار اور ایک ایک نکتہ کے بارے میں بتانے کا مطالبہ کیا جبکہ اسی پارٹی کے راجیہ سبھا کے رکن منوج جھا نے کہا کہ یہ سن کر دھچکا لگا کہ جنگ بندی کا فیصلہ امریکہ کے صدر نے لیا ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ جب تک پاکستان دہشت گردی کو اپنی سر ز مین سے جاری رکھنے دے گا، ہندوستان کو پہلگام کے حملہ آوروں کے خلاف اپنی کارروائی جاری رکھنی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ جنگ بندی کا اعلان مودی کو کرنا چاہیے نہ کہ ٹرمپ کو۔
لیکن شملہ سمجھوتے کے بعد ہندوستان اور پاکستان دونوں کے دریاؤں میں بہت پانی بہہ چکا ہے، شملہ سمجھوتے کے وقت ہندوستان کو ہزاروں زخم دینے کی پاکستان کی پالیسی اور اس کے لیے دہشت گردانہ سرگرمیاں نہیں تھیں، اس کے باوجود بھی منموہن سنگھ کے دور حکومت تک اس سمجھوتہ کا کافی حد تک خیال رکھا گیا۔ اٹل جی نے تو لاہور تک کا بس سے سفر شروع کرا کے پاکستان کو دوستی کا مضبوط پیغام دیا تھا مگر مودی نے اقتدا رسنبھالتے ہی پہلے تو دوستی کا ہاتھ بڑھایا مگر پھر ہندوستان کی دیرینہ پالیسی کو یکسر بدل دیا اور پاکستان کو ایک واضح پیغام دے دیا کہ لائن آف کنٹرول جس کی خلاف ورزی نہ کرنے کا شملہ سمجھوتہ میں وعدہ ہے، وہ اب پہلے کی طرح متبرک نہیں رہ گئی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے جواب میں ان کے اڈوں کو تباہ کرنے کے لیے ہندوستان اس لائن کو کبھی بھی کراس کر سکتا ہے۔
پلوامہ حملے کے بعد اس نے بالاکوٹ تک گھس کر دہشت گردوں کے اڈے تباہ کیے تھے، پہلگام واقعہ کے بعد اگرچہ اس نے صرف مقبوضہ کشمیر میں ہی کارروائی کی تھی لیکن جب پاکستان نے پونچھ پر حملہ کیا تو ہندوستان نے بھی لاہور سمیت پاکستان کے کئی اندرونی ٹھکانوں تک حملہ کر دیا۔ فوجی کارروائی کے علاوہ بھی اور بہت سے اقدام ہیں جن میں سب سے اہم آبی سمجھوتے ہیں جس پر ہندوستان دھیرے دھیرے پاکستان کو جانے والا پانی روک رہا ہے۔ سندھ آبی سمجھوتہ معرض التوا میں ہے، بلگہار ڈیم سے کم پانی چھوڑا جا رہا ہے، مستقبل میں اگر ہندوستان مزید باندھوں اور نہروں وغیرہ کی تعمیر کر لے گا تو سندھ ندی کا پانی بھی روکا جا سکتا ہے۔کشمیر سے دفعہ370 اور اس کی ریاستی حیثیت ختم کر کے بھی ہندوستان نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ جموں وکشمیر ہندوستان کا جزو لاینفک ہے اور پاکستان اسے اپنی شہ رگ سمجھنے کی بھول چھوڑ دے۔
ہندوستان پاکستان ہو یا اور کوئی ملک امن اور استحکام کے بغیر ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں ہے، جنگ نہ کبھی کوئی مسئلہ حل کر سکی ہے اور نہ کر سکے گی، یہ صرف تباہی اور بربادی لاتی ہے۔ بد قسمتی سے ہندوستان میں سنگھ پریوار اور پاکستان میں فوج کبھی دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کو نہیں پنپنے دینا چاہیں گے کیونکہ یہ ان کے مفاد کے خلاف ہے۔سنگھ پریوار اور اس کی سیاسی شاخ بی جے پی کو مسلمان اور پاکستان کے نام پر ہی ووٹ ملتے ہیں، یہی حال پاکستانی فوج کا ہے۔ پاکستان میں جمہوری حکومت فوج کی کٹھ پتلی ہوتی ہے، دفاع اور خارجہ امور کے زیادہ فیصلہ فوج ہی کرتی ہے، پاکستانی فوج کا سربراہ ہی وہاں کا اصل حکمراں ہوتا ہے، ہندوستان کا ہوّا دکھا کر ہی وہ وہاں کے سیاہ و سفید کی مالک بنی ہوئی ہے اور اگر کوئی بے نظیر بھٹو، کوئی عمران خان فوج کی گرفت ذرا بھی کمزور کرنا چاہتا ہے تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے، یہ سبھی کو معلوم ہے پھر بھی امن اور استحکام کی کوششیں جاری رہیں، یہی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
obaidnasir@yahoo.com