انجینئر محمد خالد رشید
22اپریل کے خوفناک دہشت گردانہ حملہ کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے مسلح افواج کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہوئی تھی، اس نے امن پسنددنیامیں تشویش پیدا کردی تھی۔دونوں جانب سے جنگ کی تیاری کی خبریں کسی خطرناک طوفان کی آمد کا اشارہ کر رہی تھیں۔ ہندوستان کے پی ایم نے مسلح افواج کو کسی بھی کاررو ائی کا اختیار دے دیا تھا، جس کا نتیجہ 7مئی کو اس وقت سامنے آیا جب ہندوستان کی مسلح افواج نے پاکستان کے 9مقامات پرکامیاب حملے کرکے پاکستان کو زبردست نقصان پہنچایا۔ ہندوستان کی طرف سے پی او کے میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کرنے کے علاوہ اندرونِ پاکستان بھی حملے کرکے اس بات کا واضح پیغام دے دیا گیا کہ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ پاکستان نے بھی جواباً 26 مقامات پر ڈرون حملے کیے جن کو پوری طرح ناکام بنا دیا گیا۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا پاکستان ان حملوں پر کوئی اور جوابی کارروائی کرے گا اور یہ تنازع ایک بھرپور جنگ کی شکل اختیار کر لے گا ؟ ابھی دنیا اس تشویش میں تھی کہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنے روایتی ڈرامائی انداز میں سوشل میڈیا پر نمودار ہوئے اور دنیا کو یہ خوش گوار خبر سنا دی کہ امریکہ کی ثالثی میں رات بھر طویل مذاکرات کے بعد ہندوستان اور پاکستان جنگ بندی کے لیے راضی ہوگئے ہیں، یہ خبر ان لاکھوں ذہنوں کے لیے اطمینان کا باعث بنی جن کو اس تنازع کے کسی بڑی جنگ میں تبدیل ہوجانے کا خدشہ تھا، جو کسی بھی چاہی ان چاہی وجہ سے ایک ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوکر پورے خطے کو ویران، شمشانوں اور قبرستانوں میں تبدیل کرسکتی تھی۔ بہرحال10مئی کو ٹرمپ کے ا علان کے بعدپاکستان کے ڈی جی ایم او نے اپنے ہم منصب بھارت کے ڈی جی ایم اوکو فون کیا اور شام 5بجے دونوں ممالک کی جانب سے متفقہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا۔
اس جنگ بندی نے اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑے ہیں جیسے اس جنگ میں کون ہارا اور کسے فتح حاصل ہوئی؟ امریکہ اور ٹرمپ نے جنگ بندی کے لیے کیا رول ادا کیا اور اس کی کیا قیمت ہمیں چکانی ہوگی؟ ہندوستان جو بظاہر اپنے دیرینہ مقصد کو حاصل کرنے کے کافی قریب تھا وہ جنگ بندی پر کیوں راضی ہو گیا؟ جنگ اگر جاری رہتی تو کیا ایک ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی تھی؟ ٹرمپ کی مداخلت نے کہیں کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی مسئلہ تو نہیں بنا دیا؟ اور سب سے اہم سوال کہ کیا پاکستان کی جانب سے اب کبھی ہندوستان پرکوئی دہشت گردانہ کارروائی نہیں ہوگی؟ نیز یہ کہ پہلگام کے حملے کے دوران کیا ہماری حفاظتی ایجنسیوں سے کوئی چوک ہوئی تھی؟ اگر ہاں تو اس کے قصورواروں کو سزا کب دی جائے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ملک جاننا چاہتا ہے، لیکن فی الحال ہمارا مقصد نہ کوئی سوال کرنا ہے اور نہ ہی یہ سوال کرنے کا مناسب وقت ہے کیونکہ آپریشن سندور ابھی جاری ہے،فی الحال تواطمینان اسی بات کا ہے کہ د و نوں ایٹمی طا قتوں کے درمیان وہ تنازع جو ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتا تھا،کچھ دن کے لیے ٹل گیا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کو اس حقیقت کا اعتراف ہو گیا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ ہر جنگ خود ایک مسئلہ ہوتی ہے اور ہر جنگ اپنے ساتھ ان گنت مسائل لاتی ہے،وہ اپنے بعدخون میں لت پت انسانیت، اقتصادی بد حالی سے نبردآزماممالک، ہزاروں اپاہج جسم، بنجر زمینیں،منقسم جغرافیائی علاقے اور لاکھوں بیمار یاں و بلکتے انسان چھوڑ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ کے جسم پر ایسے زحم لگاجاتی ہے جن کو بھرنے میں صدیاں بھی ناکافی ہوتی ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کو ختم ہوئے تقریباً ایک صدی مکمل ہونے جا رہی ہے، لیکن ابھی بھی اس تباہی کے نشانات باقی ہیں جو اس جنگ نے دنیا کے جسم پر لگائے تھے۔ ان 90 سالوں میں انسان نے ترقی کے لا محدود مراحل طے کیے ہیں لیکن اس کے ساتھ مہلک ہتھیاروں نے بھی ارتقا کے لاتعداد سنگ میل عبور کیے ہیں،انسان نے ترقی کے نام پر ایسے ایسے مہلک ہتھیار ایجاد کرلیے ہیں جو پلک جھپکتے ترقی کے سارے میناروں کو زمیں دوز کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم جو 1933میں شروع ہوکر 1945 میں ختم ہوئی جب امریکہ کی اتحادی افواج نے ہیرو شیما اور ناگاساکی پر نیوکلیئر بم گرا کردر ندگی کی ساری حدیں پار کردی تھیں،جس کے نتیجہ میں ہیروشیما میں0 12000اور ناگاساکی میں تقریبا 80000 معصوم افراد کو اپنی جان گنوانی پڑی تھی، تقریباً ایک صدی کی طویل مدت گزر جانے کے بعد بھی ان شہروں پر ایٹم بم کے اثرات موجود ہیں۔واضح ہو کہ جو بم جاپان پر گراے گئے تھے، ان کی طاقت ان بموں کی نسبت تہائی بھی نہیں تھی جو آج ہندوستان اور پاکستان کے پاس سیکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، جو بم ہیروشیا پر ماراگیا تھا وہ 20 kn(کلونیوٹرن) کا تھا اور جو بم ناگاساکی پر گرایا تھا، اس کی طاقت15 knتھی جبکہ آج کل جو بم ہمارے پاس ہیں، ان کا وزن 40کلو نیوٹرن بلکہ اس سے بھی زیادہ وزنی ہیں۔سونے پہ سہاگا یہ کہ ان بموں کو لے جانے کے لیے دونوں ممالک کے پاس تیز رفتارمیزائل بھی موجود ہیں جن کی مدد سے ان مہلک بموں کو پلک جھپکتے ہزاروں کلومیٹر دور فائر کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے پاس جو میزائلس ہیں، ان کی رینج 5000کلومیٹر اور پاکستان کے میزائلس کی رینج 3000کلومیٹر ہے،اس کے علاوہ دونوں ممالک کے پاس ہزاروں ٹینک اور جنگی ہوائی جہاز موجود ہیں جو اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں کہ اگر ان دو پڑوسیوں کے درمیان ایٹمی جنگ ہوگئی تو اس کے اثرات ہیروشیما اور ناگاساکی کے مقابلے کہیں زیادہ خطرناک ہوں گے جس کا خمیازہ پوری دنیا کو اٹھانا پڑے گا، اس کا مطلب یہ قطعی نہیں نکالا جانا چاہیے کہ ہم پاکستان کی دہشت گردی کوہمیشہ برداشت کرتے رہیںگے اور اپنے معصوم شہریوں کا قتل عام خاموشی سے دیکھتے رہیں گے، جب ملک کی سالمیت اور وقار کو خطرہ لاحق ہو تو جنگ ناگزیر ہو جایا کرتی ہے اور نتائج کی پروا کیے بغیر جنگ لڑنی ہی پڑتی ہے۔ظاہر ہے آپریشن سندور کا فیصلہ ان ہی حالات میں کیا ہوگا جو نہایت کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا چاہتا ہے، جن طاقتوں کے اشارے پر ہم نے جنگ بندی قبول کی ہے ان کو ہمیں واضح طور پر یہ بتانا چاہیے کہ ہم دوبارہ پہلگام جیسی صورت حال کا سامنا کسی قیمت پر کرنا نہیں چاہتے کیونکہ جنگ بچوں کا کھیل نہیں۔
یہ بات ان سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں کو بھی سمجھنی چاہیے جو جنگ کی تباہی اور نقصانات سے بے نیاز جنگ کے خوفناک مصنوعی مناظر کسی آئی پی ایل میچ کی طرح ٹی وی کے پردوں اور موبائلس پر دکھاتے رہے جو کبھی کراچی کی بندرگاہ تباہ کرا دیتے تھے تو کبھی اسلام آباد پر ہندوستان کا قبضہ کرا دیتے، ان کو انسانیت کی تباہی سے زیادہ اپنی ٹی آر پی کی فکر تھی۔ پاکستان کے چینلوں کا حال تو اور بھی مضحکہ خیز تھا، وہ بھی جنگ کو چوہے بلی کا کھیل سمجھ رہے تھے،بالکل میرے 7سالہ پوتے کی طرح جو ہر صبح اسکول جانے سے پہلے پوچھتا ہے دادا کیا جنگ شروع ہوگئی؟ جب میں نفی میں جواب دیتا ہوں تو مایوس ہوکر کہتا کب شروع ہوگی ؟ اس کو کسی نے بتا دیا ہے کہ جنگ جب ہوتی ہے تو اسکول بند ہوجاتے ہیں۔کل وہ گرمی کی شکایت کر رہا تھا،میں نے پوچھا کہ درجۂ حرارت کتنا ہوگا؟ اس نے گاڑی کے میٹر پر دیکھ کے بتایا 29ڈگری ہے۔ میں نے کہا کہ معلوم ہے جب جاپان پہ ایٹم بم گرا تھا تو درجۂ حرارت 300ڈگری ہو گیا تھا۔ بولاکیا فرق پڑتا ہے، اسکول بند ہوگا، ہم تو گھر میں اے سی چلا کر سو جائیںگے۔ ہوسکتا ہے ان میڈیا والوں نے بھی کوئی اسی قسم کا حل ڈھونڈ رکھا ہو جو ہر پل جنگ شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
بہرحال وہ جنگ کے بادل جو ہمارے سروں پر منڈلا رہے تھے، وہ چھٹ رہے ہیں۔گوتم بدھ، سوامی وویکا نند اور مہاتما گاندھی کا ملک جنگ کی تباہ کاریوں سے فی الحال بچ گیا ہے،امید یہی کی جانی چاہیے کہ خدا ہمارے پڑوسی ملک کو عقل سلیم عطا کرے گا اور وہ مستقبل میں ان ناپاک حرکتوں سے پرہیز کرے گا جن کے نتیجہ میں یہ صورت حال پیدا ہوئی تھی۔
صرف جنگ بندی کافی نہیں، ہندوستان، پاکستان اور ان ملکوں کو جو اپنے آپ کو امن عالم کا محافظ سمجھتے ہیں، ایک ایسا ماحول بنانا ہوگا جس میں نہ غزہ جنگ ہو، نہ یوکرین جنگ ہو، نہ پہلگام پر دہشت گردانہ حملہ ہو بلکہ دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھوک پیاس، جہالت، بے روزگاری، ماحولیاتی تبدیلی اور مہلک بیماریوں سے جنگ کر یں تاکہ دنیا ایک ایسی جگہ بن سکے جس میں ہماری آنے والی نسلیں ایک پر امن ماحول میں سانس لے سکیں۔