پروفیسرعتیق احمدفاروقی
اس سال نئے سال کی آمد پر جب پورا ملک نئے جوش اورنئی امیدوں سے لبریزتھا تب دارالحکومت دہلی میں ایک ’ہٹ اینڈرن‘ معاملے نے لوگوں کو ہلاکر رکھدیا۔ اس سے چنددنوں قبل ہندوستانی کرکٹررشبھ پنتھ ایک سڑک حادثہ میں بال بال بچے ۔ گزشتہ سال ماہ ستمبر میں معروف صنعتکار سائرس مستری تو ایسے خوفناک سڑک حادثہ کا شکار بنے کہ موقع پر ہی ان کی موت ہوگئی۔ یہ کوئی نادر معاملے نہیں ہیں۔ ہندوستان میں ہرسال قریب ڈیڑھ لاکھ لوگ سڑک حادثات میں اپنی جان گنواتے ہیں۔ یہ حالت تب ہے جب ہندوستان میں دنیا کی تقریباً دس فیصد گاڑیاں ہی ہیں لیکن سڑک حادثات میں ایک چوتھائی افرادہندوستان میں جان گنواتے ہیں ۔ایسی لاتعداد مثالوں اورواقعات کی کڑی کہیں نہ کہیں سڑک سلامتی کے نکتہ پر آکر جڑتی ہے ۔ یہ ہمیں یہی دلاتے ہیں کہ سڑک تحفظ کو یقینی بنانا ہمارے لئے فوری طور پر کتنا اہم ہوگیاہے۔ ایسے میں ایک بڑا سوال پیدا ہوتاہے کہ ہم سڑکوںکو سبھی کیلئے محفوظ کیسے بنائیں ؟دہلی ’ہٹ اینڈرن ‘معاملہ کے فوراً بعد کئی طرح کے مطالبات سامنے آئے۔ ان میں دہلی پولیس میں نئی تقرریوں سے لیکر ملزم ڈرائیور کو موت کی سزا دینے جیسے مطالبات شامل ہیں، لیکن کیا ایسے اقدام کارگرہوں گے ؟۔
سڑک حادثوں کے چھ اسباب ہوتے ہیں :اول ،منظور شدہ حدسے زیادہ رفتار،دوم، ٹریفک قوانین کو توڑنے کے سبب۔ سوئم،نشے میں گاڑی چلانے یا گاڑی چلانے کے دوران نیند آنے کے سبب ، چہارم،خستہ حال سڑکوں یا ان پر دخل اندازی کے سبب ، پنجم ، گاڑیوں کی خراب حالت اور آخری سبب ہے فوری طور پر علاج کی مدد کی غیردستیابی ۔ سڑک حادثے سے بچنے کا سب سے کارگرطریقہ ہے تکنیک میں سرمایہ کاری کرنا۔ اس میں آرٹی فیشیل انٹلیجنس یعنی اے آئی تکنیک بہت کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ گاڑیوںکو اے آئی سے لیس کرکے ان کی ٹریننگ ممکن ہے۔ اس سے گاڑیوںکی ڈرائیونگ اوررفتار کی صحیح پوزیشن پر نظررکھی جاسکے گی اورڈرائیور کا رابطہ اسٹیرنگ وہیل سے ٹوٹتے ہی پتہ لگاکر ڈرائیور کو ہوشیار کیاجاسکے گا۔اگرہم اسے جی پی ایس سے جوڑدیں اورجی او فیسنگ جیسی تکنیک کا استعمال کریں تو شہری اور حادثات سے مانوس علاقوں میں گاڑیوں کی زیادہ سے زیادہ رفتار اپنے آپ ہی کنٹرول ہوجائے گی جس سے حادثوں کا خطرہ کم ہوجائے گا۔اسی تکنیک کااستعمال رات کے وقت یا گھنے کہرے کے دوران بھی کیاجاسکتاہے۔ چونکہ تمام سڑک حادثات ڈرائیور کی تھکان یا جھپکی لگنے کے سبب ہوتے ہیں ،اس لئے اس معاملے میں ہوشیار کرنے والی تکنیکیں بنانا فائدے مند ثابت ہوگا۔ ایسی تکنیکوں میں اسٹرینگ وہیل کی صورت حال سے لیکر ڈرائیور کی آنکھوں اورچہرے کی لگاتار نگرانی کی جاتی ہے تاکہ اس کی تھکان کا پتہ چل سکے۔ اس طرح کے نظام کو سبھی سڑکوں اوربسوں کیلئے لازم قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ ان کے ڈرائیوراکثررات کے وقت اورکئی گھنٹے لگاتارگاڑیاںچلاتے ہیں ۔
دیگر ممالک کی مثالوں پر غور کریں تو آسٹریلیا نے عملی طور پر ’اگنیشن لاکنگ سسٹم ‘کو نافذ کیاہے جس میں جب ڈرائیور اپنی سانس کا نمونہ دیتاہے تبھی اس کی گاڑی اسٹارٹ ہوتی ہے۔ اگراس نے شراب پی رکھی ہے تو اس کی گاڑی اسٹارٹ ہی نہیںہوگی ۔ یہ’ لاک سسٹم‘ڈرائیور کی فوٹوکھینچ کر افسران کو الرٹ کردے گی۔ پتہ چلاہے کہ سنگاپور میں ایک اسٹارٹ اپ دستیاب ہے جو ہیلمٹ کیلئے وائرلیس سنسر بناتاہے۔یہ ڈرائیور کو پہنچنے والی کسی بھی چوٹ کی خبر اس کی لوکیشن کے ساتھ اس کے خاندان اوردوستوں کو دیتاہے جس سے اس کا بچاؤ فوری طور پر ممکن ہوسکتاہے۔ حادثوں کو کم کردے گاجن میں کسی انسان کی جان وقت پر مدد اور علاج نہ ملنے کے سبب چلی جاتی ہے ۔ ایسی ہی تکنیک کے ذریعے ہماری سڑکوں کو بھی اسمارٹ بنائے جانے کی ضرورت ہے اورانسانی محتاجی کو کم کرتے ہوئے ٹریفک قوانین کو اے آئی کے استعمال سے نافذ کیا جاناچاہیے۔ اے آئی پر منحصر آسان طریقوں سے کسی بھی اوورلوڈیڈٹرک اورٹرالی کا پتہ لگایا جاسکے گا اوران کی شکل کو دیکھ کر انہیں روکا جاسکے گا۔ سڑکوں پر روشنی کئی گنابڑھائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح سڑک پر چل رہی پرانی اور خراب گاڑیوں کا پتہ بھی اے آئی کے استعمال سے آسانی سے لگایاجاسکتاہے۔
بلاشبہ تمام ہوشیاری برتنے کے باوجود سڑک حادثہ کو مکمل طور پرروک پانا ممکن نہیں ہے لیکن اس کے بعد لوگوں کی جان بچانے کے اقدام تو کیے ہی جاسکتے ہیں۔ حادثہ کے بعد پہلے گھنٹے کو ’گولڈن آور‘کہتے ہیں۔ اگراس شروعاتی ایک گھنٹے میں ابتدائی علاج مل جائے تو حادثہ سے متاثر فرد کی جان بچانے میں مددمل سکتی ہے۔ اس کیلئے ڈرائیورنگ لائسنس لیتے وقت لوگوں کا ’فرسٹ ایڈ ٹیسٹ‘ پاس کرنالازمی بنانا ہوگا۔ اسکولوں اورکالجوں میں بھی نوجوانوں کواس لائق بنانا ہوگا جو ابتدائی مرحلہ میں ہی علاج فراہم کرسکتے ہوں۔
تاکہ وہ کسی حادثہ سے متاثر فرد کے اسپتال پہنچنے سے پہلے اس کی زندگی بچانے اور اس کو طبی امداد پہنچانے کی تربیت حاصل کرسکتے ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے دوبئی میں یہ دیکھاگیاکہ وہاں سڑک حادثہ میں ابتدائی علاج کرنے کیلئے ڈرون کا استعمال کیاگیا۔ ہندوستان میں بھی اس میٹنگ کو آزمایا جاسکتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتاہے کہ ہندوستان میں سڑک سلامتی کیلئے ضروری اقدام کرنے کیلئے کون آگے آئے گا؟ اس کا جواب ہے ہمارے نوجوان پیشہ ورافراد ہمیں ایک ایسا اسٹارٹ اپ بنانے کی ضرورت ہے جو صرف سڑک سلامتی سے جڑے حل دستیاب کرائے۔ وزارت سڑک نقل وحمل اس کیلئے سرمایہ دستیاب کراسکتاہے اورگاڑی مینوفیکچرر بھی کچھ وسائل مہیاکراسکتے ہیں۔ اس مہم میں نوجوان انجینئروں اورپیشہ وروں کو بھی جوڑنا ہوگاکہ وہ جلد ازجلد اپنی تجاویزپیش کریں۔ ان میں سے کچھ بامقصد اورعملی تجاویز کو پبلک پرائیویٹ اشتراک کے ذریعے عملی جامہ پہناکر سڑک سلامتی کی مہم کو کامیاب بنایاجاسکتاہے۔
[email protected]