کاربن ٹریڈنگ: انسانی تشویش کا پہلو

0

ویریندر کمار پینیولی

2015سال کا پیرس موسمیاتی معاہدہ زمین کے درجہ حرارت کو صنعتی مرحلہ کے آنے کے پہلے کی سطح سے 2030تک 2ڈگری سیلسیس کم کرنے کے لیے ہوا تھا۔ چوں کہ زمین کی گرمی میں اضافہ کرتے کل گیسوں کے اخراج میں کاربن ڈائی آکسائیڈ تقریباً 70فیصد ہے۔ اس لیے گلوبل وارمنگ کو 15ڈگری سیلسیس گریڈ تک محدود رکھنے کے لیے 2050تک صفر کاربن اخراج پر پہنچنے کا ہدف بھی عالمی سطح پر اپنا لیا گیا ہے، لیکن ستم ظریفی ہے اور تلخ حقیقت بھی کہ اسے پانے کے اوزار کے طور پر ایک ٹریڈنگ ایکٹوٹی کو اہم سمجھا جارہا ہے۔
اسی سلسلہ میں 10-24نومبر کے دوران باکو میں کاربن بازار پر بین الاقوامی معیار قائم کرنا بڑی حصولیابی سمجھا گیا ہے۔ کوپ-29کو تو مالیاتی کوپ بھی کہا گیا تھا اور کاربن ٹریڈنگ بھی مالی سرگرمی ہی ہے۔ فضا میں موجود کاربن اخراج کو ہٹانے اور نئے کاربن اخراج کو نہ پہنچنے دینا حوصلہ افزا ہو، اس کے لیے 2015میں پیرس معاہدہ میں واضح کردیا گیا تھا کہ کاربن کی ممالک یا اداروں کے درمیان خرید و فروخت کی جاسکتی ہے۔ اس لین دین کو کاربن کریڈٹ کے طور پر متعارف کرکے قابل منتقلی دستاویز بناکر پیش کیا گیا ہے۔ یونائیٹڈ نیشنس کے کیوٹو پروٹوکول(1997) اور پھر 2005میں کاربن کی خرید و فروخت یا تجارت کیے جاسکنے لائق سامان پہلے ہی قرار دیا چکا ہے لیکن پیرس معاہدہ کے تحت جو ایک نیا زیادہ مضبوط کاربن ٹریڈنگ فریم ورک بنائے جانے کی ضرورت تھی، وہ شروعاتی دستخط کے بعد کوپ-29 میں ہوسکا۔

بلاشبہ اس نامکمل کام کے رہتے بھی ممالک کے اندر اور ممالک کے باہر کاربن ٹریڈنگ ہورہی تھی لیکن یکساں معیار نہ ہونے اور شفافیت کی کمی سے متعدد جعلی کاربن کریڈٹوںکا عالمی سطح پر لین دین بھی ہورہا تھا۔ ایسے میں لاکھوں اور اربوں ڈالر کی بدعنوانی اور دھوکہ دہی بھی ہوئی۔ رضاکار کاربن مارکیٹ(Voluntary carbon markets) میں سب سے زیادہ کاربن کریڈٹ وہ ہیں جو تباہ شدہ جنگلات کے کاربن جاذب کے طور پر اصلاح، بحالی کے لیے دیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ سب سے زیادہ تنازعات میں بھی رہتے ہیں۔ جنگلات کی صورت حال کی بیس لائن میں چھیڑچھاڑ سے زیادہ کاربن آفسیٹ دکھایا جاسکتا ہے۔ جتنا کاربن ہٹانے کا کریڈٹ لیا تھا اتنا کاربن ڈائی آکسائیڈ تو اس سے ہٹا ہی نہیں تھا۔ کوپ-29 کے پہلے ’نیچر‘ میگزین میں ایسے پروجیکٹوں کا مطالعہ شائع ہوا تھا، جنہوں نے تقریباً ایک ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی کاربن کریڈٹ کمایا تھا۔ اس میں سے 15فیصد کاربن ہی کم کیا تھا۔ اب خراب اور اچھی کوالٹی میں کاربن کریڈٹوں کی درجہ بندی یا پہچان بھی کی جارہی ہے۔ کاربن ٹریڈنگ میں کاربن کریڈٹوں کے لین دین کی تجارت ہوتی ہے۔ کاربن کریڈٹ کی ایک اکائی ایک میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ یا اس کے مساوی دیگر گرین ہاؤس گیسوں کو فضا سے ہٹانے یا ان کو فضامیں پہنچنے سے روکنے پر دی جاتی ہے۔ کاربن آفسیٹ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ یا گرین ہاؤس گیسوں کو ہٹایا یا ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ جو انٹرپرائز یا اسٹیبلشمنٹ کا سامان، طریقوں یا ٹیکنالوجی کی تبدیلی سے اپنے کاربن اخراج کو پہلے کی مناسبت کم کردیتے ہیں تو وہ بھی کاربن کریڈٹس پانے کے حق دار ہوجاتے ہیں۔ ابھی عالمی سطح پر تقریباً 2ارب ڈالر کی رضاکار کاربن مارکیٹ ہے۔ یہ ایک خراب ڈالر تک بھی پہنچ سکتی ہے۔

کاربن کریڈٹوں کا استعمال ہی انہیں یوروپی یونین میں ایکسپورٹ جاری رکھنے کا اہل بنائے گا کیوں کہ یوروپی یونین ان پروڈکٹس کی امپورٹ پر بھی کاربن ٹیکس لگانے کے ارادے کا اظہار کرچکی ہے، جو اس کے اپنے معیار سے زیادہ کاربن اخراج سے پیدا ہوئے ہیں۔ ممالک میں پٹرول، کوئلے جیسے فوسل فیولس کی پیداوار بڑھ ہی رہی ہیں۔ ایسے میں بین الاقوامی سطح پر علانیہ کاربن اخراج کٹوتی کے عزم کے اہداف کو ان کے خریدے گئے کاربن کریڈٹس کے معاوضہ سے ہی پورا کرنے کی ضرورت ہوگی۔

تشویشناک بات ہے کہ زیادہ تر ملک یا انٹرپرائز دنیا کے اہداف کے مطابق اگلی دو-تین دہائی کے اندر ہی کاربن نیوٹرل تو ہونا چاہتے ہیں لیکن اسے کوئلہ، پٹرول جیسے فوسل فیولس کے استعمال اور پروڈکٹس کو چھوڑتے ہوئے نہیں کرنا چاہتے، بلکہ اسے کہیں اور کسی کو ملی کاربن کریڈٹ خرید کر اپنے زیادہ کاربن اخراج کی عوض میں دے کر پورا کرنا چاہتے ہیں۔ جو اسٹیبلشمنٹ اپنے کھاتے میں خود کمائے یا کسی سے خرید کر کاربن کریڈٹ جوڑ لیتے ہیں تو اس سے وہ اپنی کارروائیوں کے کاربن فٹ پرنٹ کم کرسکتے ہیں۔ فی اکائی کاربن کریڈٹوں کے مارکیٹ ریٹ میں ڈیمانڈ کے مطابق اُتارچڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ جب قیمتیں بہت نیچے گر جائیں گی تب تو آلودگی جاری رکھنا بھی فائدہ کا سودا ہی رہے گا۔ تو پھر مالدار لوگ کسی غریب ملک سے جنگل اُگوا کر اور اس سے کاربن آفسیٹ حاصل کرکے اپنی مہلک زمین کو گرم کرتی گیسوں سے ہونی والی آلودگیوں کو جاری رکھے گا۔ اس کے لیے کھیتی کی زمینوں کے استعمال کا بھی خدشہ ہے۔ ایسے میں غریب ممالک میں خوراک کا بحران بھی شدت اختیار کرسکتا ہے۔
کاربن کریڈٹ فروخت کرنے والے کے کندھے پر چڑھ کر کچھ کاربن اخراج کرتی معروف کمپنیاں اپنے آپ کو نیٹ زیرو کاربن اور نگیٹو کاربن پروڈیوسر اعلان کرکے اپنی شبیہ بھی بہتر کررہی ہیں۔ اسے گرین واشنگ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ سمجھ لیجیے، کرایہ کی کوکھ سے اولاد پیدا کروا رہی ہیں لیکن کسی بھی صنعت کے ذریعہ دوردراز کہیں کے کاربن کریڈٹ خرید کر مقامی سطح پر اخراج چھوڑتے پیٹرن پر کام بدستور جاری رکھا جائے تو یہ صحیح نہیں ہے۔ مقامی کاربن آلودگی پر کٹوتی کرنا عوامی صحت پر ہونے والے منفی اثر کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے ہی۔ کاربن کریڈٹ کے تناظر میں اہم بات یہ ہے کہ اب اس کے بڑے بڑے خریدار اس کی قیمت بھی لگا رہے ہیں۔ آخرکار کاربن کریڈٹ حاصل کرنا ماحولیاتی بہتری کے ساتھ آمدنی کا ذریعہ بھی ہوسکتا ہے۔ چاہے لالچ ہو یا کوئی دیگر وجہ، دنیا میں کاربن کریڈٹس اگر بڑھیں گے تو نتیجہ فضا میں گرم کرنے والی گیسوں میں اضافہ کو روکنا اور کم ہونا ہی ہوگا۔ جگہ-جگہ کی ایسی بڑی-چھوٹی کوششیں دنیا کے کل کاربن اخراج پر کٹوتی لاتے ہیں۔ فضا کسی ضلع، گاؤں، ریاست یا ملک کی سرحدوں کے تحت تو نہیں ہے۔ اس سے عالمی مجموعی سطح پر کاربن پر مبنی معیشت تو کم ہوگی ہی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS