بحری راستوں پر قبضے کا مطلب-II

0

اسمٰعیل ظفرخان
گروپ ایڈیٹر،روزنامہ راشٹریہ سہارا اور عالمی سہارااردوچینل
گزرتے وقت کے ساتھ بحری راستے چھوٹے ہوتے چلے گئے۔ جہاز بنانے کے لیے جدید تکنیک کا استعمال ہونے لگا۔ 20 ویں صدی کی ابتدا میں ایک کارگو 3 ہزار ٹن یعنی 3لاکھ کلو ہی سامان لے جا سکتا تھا لیکن آج اس میں 100 گنا زیادہ سامان لادا جا سکتا ہے۔ آج ایک کارگو 3 لاکھ ٹن یعنی 30 کروڑ کلو سامان لے جا سکتا ہے۔ کارگو کے سامان لے جانے کی صلاحیت میں اضافے کی وجہ سے اشیا منگانے اور بھیجنے کا خرچ کم ہوا ہے۔ بری راستے سے ہونے والی تجارت کے مقابلے بحری راستے سے ہونے والی تجارت پر توانائی بھی کم خرچ ہوتی ہے، اس لیے بحری راستے سے ہونے والی تجارت نسبتاً سستی پڑتی ہے۔ بحری راستوں سے ہونے والی تجارت کو مینیج کرنا بھی آسان ہوتا ہے۔ بحری راستوں کے نسبتاً زیادہ محفوظ ہونے کی وجہ سے حادثات بھی کم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بحری راستوں کی تجارت سے ماحولیات کو بھی کم نقصان پہنچتا ہے۔ ان تمام وجوہات سے تجارت کے لیے بری اور فضائی راستوں سے زیادہ اہمیت بحری راستوں کو دی جاتی ہے۔ آج بھی دنیا کی 85 فیصد تجارت بحری راستوں سے ہی ہوتی ہے۔ 9 فیصد تجارت سڑک کے راستے ہوتی ہے، 5 فیصد ٹرینوں سے تو ایک فیصد تجارت ہی فضائی راستے سے ہوتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک ایک دوسرے سے بحری راستوں سے ہی زیادہ تجارت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یوروپ اور امریکہ کے درمیان بحر اوقیانوس کے راستے تجارت ہوتی ہے۔ یہ نہایت مصرف بحری راستہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور یوروپ کے درمیان کافی تجارت ہوتی ہے۔ روایتی طور پر بھی بحر اوقیانوس کا راستہ کافی مصروف رہا ہے لیکن 21 ویں صدی میں انقلابی طور پر بحری راستے تبدیل ہوئے۔ 21 ویں صدی میں مشرق بعید کے ایشیائی ممالک نے بھی کافی صنعتی ترقی کی۔ یہ ممالک بحری راستوں سے تجارت کے معاملے میں دنیا کے لیڈرس مانے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں چین، جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور، ملیشیا اور تائیوان شامل ہیں۔ سمندری راستوں سے ہونے والی تجارت میں آگے رہنے کی وجہ سے صنعتی میدان میں بھی یہ ممالک کافی ترقی یافتہ ہیں۔ یہ ممالک مشرق وسطیٰ، افریقہ اور آسٹریلیا سے کروڈ آئل اور خام مال بحری راستوں سے ہی منگاتے ہیں۔ کروڈ آئل اور خام مال کی وجہ سے ان کی صنعتیں پھل پھول رہی ہیں۔

Clipping of Published Article in DASTAVEZ

مشرق بعید کے ایشیائی ممالک اپنے یہاں تیار ہونے والے سامانوں کا ایکسپورٹ بحری راستوں سے ہی کرتے ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں میں خاص طور پر چین کی صنعتی ترقی عروج پر پہنچ گئی۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن گیا۔ چین کی صنعتی ترقی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے 20 بڑے کمرشیل پورٹس میں سے 9چین میں ہیں یعنی دنیا کے 45 فیصد بڑے کمرشیل پورٹس چین میں ہیں۔
بحری راستوں میں چوک پوئنٹس (Chokepoints) کی بڑی اہمیت ہے۔ چوک پوائنٹ ان بحری راستوں کو کہا جاتا ہے جہاں راستہ تنگ اور ٹریفک زیادہ ہو۔ چوک پوائنٹ کی اہمیت اس لیے ہے، کیونکہ ان پر قبضہ کر کے بحری راستوں کی ٹریفک آسانی سے روکی جا سکتی ہے۔ اگر بحری ٹریفک روک دی جائے تو بڑی حد تک تجارتیں بند ہو جائیں گی اور ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت کو کافی نقصان ہوگا۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے طاقتور ممالک اسٹرٹیجی کے اعتبار سے اہم سمندری علاقوں میں اپنی بحریہ کی موجودگی پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اکثر عالمی سیاست متاثر ہوتی ہے اور یہ طاقتور ممالک کے مابین تنازعات کی وجہ بنتی ہے۔
پناما کینال یعنی نہر پناما اور سوئز کینال یعنی نہر سوئز اہم چوک پوائنٹس ہیں۔ ان کے علاوہ آبنائے ملاکا(The Strait of Malacca)، آبنائے ہرمز (The Strait of Hormuz) اور آبنائے باب المندب (The Bab-el-Mandeb Strait) بھی اہم چوک پوائنٹس ہیں۔ آبنائے ملاکا ملیشیا، انڈونیشیا اور سنگاپور کے پاس واقع ہے۔ ایک جگہ اس کی چوڑائی کافی کم رہ جاتی ہے یعنی صرف 3کلومیٹر رہ جاتی ہے لیکن دنیا کی 25 فیصد تجارت اسی راستے سے ہوتی ہے۔ مشرق وسطیٰ سے چین کو ہونے والی تیل کی سبھی سپلائی آبنائے ملاکا کے راستے ہی ہوتی ہے، اس لیے آبنائے ملاکا چینی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ چین متبادل بحری راستے بنا رہا ہے تاکہ آبنائے ملاکا پر اس کا انحصار کم ہو۔ سی پیک (Sea Pec) ان متبادلات میں سے ایک ہے۔
دوسرا اہم چوک پوائنٹ ہے آبنائے ہرمز۔ آبنائے ہرمز شمال مشرقی جزیرہ نما عرب میں عمان اور ایران کے درمیان واقع ہے۔ آبنائے ہرمز صرف 55 کلومیٹر چوڑا ہے۔ یہ خلیج فارس اور بحیرۂ عرب کو جوڑتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک آبنائے ہرمز کے راستے ہی دنیا کو تیل پہنچاتے ہیں۔ سعودی عرب، عمان، عراق، متحدہ عرب امارات، قطر اور ایران وغیرہ اسی راستے کا استعمال بحری راستوں سے ہونے والی تجارت کے لیے کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والی تیل کی 21 فیصد سپلائی آبنائے ہرمز کے راستے ہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آبنائے ہرمز متذکرہ ممالک کے لیے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ایران آسانی سے آبنائے ہرمز کو بند کر سکتا ہے۔ امریکی بحری فوجی بحیرے کے اطراف میں اس وجہ سے بھی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایران اور امریکہ کے مابین تنازع کی ایک وجہ ہے۔
تیسرا اہم چوک پوائنٹ آبنائے باب المندب ہے۔ یہ جنوب مغربی جزیرہ نما عرب میں یمن اور جبوتی کے درمیان واقع ہے۔ آبنائے باب المندب 28 کلومیٹر چوڑا ہے۔ یہ بحیرۂ عرب کو بحیرۂ احمر سے جوڑتا ہے۔ آبنائے باب المندب بہت اہم ہے، کیونکہ ایشیا سے یوروپ جانے والی زیادہ تر ٹریفک اسی راستے سے ہوتی ہوئی سوئز کینال کی طرف بڑھتی ہے۔ پھر منزل تک پہنچتی ہے۔ اسٹرٹیجی کے اعتبار سے آبنائے باب المندب کی اہمیت کی وجہ سے ہی ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں اور سعودی اتحادی افواج کے مابین جنگ شروع ہوئی۔ ادھر سے گزرنے والے جہازوں کے لیے صومالی قزاق بھی بہت بڑا خطرہ ہیں۔ آبنائے باب المندب کی اہمیت اور اس کے خاص محل وقوع کی وجہ سے چھوٹے سے ملک جبوتی میں 5 طاقتور ممالک کے فوجی اڈے ہیں۔ یہ ممالک امریکہ، فرانس، اٹلی، چین اور جاپان ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS