ازقلم: امام علی فلاحی ۔
ایم اے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن ۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ۔
جنگ آزادی کی 200 سالہ تاریخ ہے جسے ہم دو ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
پہلے دور کی ابتدا اسی وقت سے ہوجاتی ہے جس وقت 1756 عیسوی میں نواب سراج الدولہ جیسے جری بہادر بادشاہ کی حکومت آتی ہے اور تاریخ کا یہ روشن باب اس وقت مکمل ہوتا ہے جب خون کی ندیاں بہائی جاتی ہیں، گاجر مولی کی طرح محبین وطن کو کاٹا جاتا ہے جسے آج ہم ‘غدر’ سن 1857 عیسوی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
جنگ آزادی کا دوسرا دور 1857 عیسوی کے بعد سے شروع ہوتا ہے جسکا اختتام اس وقت ہوتا ہے جس وقت انگریزوں کی غلامی کی زنجیریں قانونی طور پر ہمارے گردنوں سے نکال دی جاتی ہیں اور ملک ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کر دیا جاتا ہے، وہ وقت 1947 عیسوی کاہوتا ہے۔
قارئین! اگر ہم ان دو تاریخوں کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ سن 1756 عیسوی سے سن 1857 عیسوی تک تن تنہا مسلم قوم نے ہی یہ آزادی کی لڑائی لڑی تھی جس میں ہمارے امراء، رؤسا اور شاہان مملکت نے گردنیں کٹوائیں تھی، جس میں ہمارے علماء صلحا اور بزرگان دین نے اپنی خانقاہوں، مسندوں اور بوریوں کو چھوڑ کر کفن بردوش ہوکر میدان جنگ میں کود پڑے تھے اور سرزمین ہند کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے اپنا خون بہا کر تاریخ کو ایک نیا موڑ دیا تھا۔
ٹیپو سلطان ایک عظیم مجاہد آزادی:
جنگ ازادی کا ابتدائی دور مسلمانوں کی بے نظیر قربانیوں سے بھری پڑی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے، خاص طور پر اس حساس، بلند ہمت اور دور اندیش بادشاہ جسے ٹیپو سلطان کہا جاتا ہے، کیونکہ جب یہ بہادر بادشاہ دیکھتا ہے کہ انگریز ہمیں آپس میں لڑا کر آندھی طوفان کی طرح سرزمین ہند کو روندتے ہوئے قبضہ کرتے چلے جا رہے ہیں تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی منظم طاقت اس کے مقابلے میں نہ لائی گئی تو وہ دن دور نہیں کہ پورا ملک ہندوستان ان کی جھولی میں آجائے گا، چنانچہ ٹیپو سلطان پھر منظم طور پر انگریزوں سے معرکہ آرائی شروع کر دیتا ہے اور انگریزوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے، پھر انگریزوں کو بھی یہ احساس ہو جاتا ہے کہ ٹیپو سلطان ایک ایسی چٹان ہے جسے راستے سے ہٹانا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر سلطان رہے گا تو ہم اپنے ناپاک ارادے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اسی لئے انگریز سلطان کو ڈرانے دھمکانے لگتے ہیں اور اپنی فوج کی طاقت دکھانے لگتے ہیں تاکہ سلطان پیچھے ہٹ جائے لیکن سلطان کو ذرہ برابر کسی چیز کا خوف نہیں ہوتا ہے، وہ انگریزوں کے سامنے اپنے گھٹنے نہیں ٹیکتا ہے بلکہ اپنی شجاعت اور بسالت کے بل بوتے لڑتا رہتا ہے اور کہتا رہتا کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے، لیکن کہتے ہیں نا! چاپلوسی ہر زمانے میں پنپتی رہتی ہے، یہی وجہ رہی کہ اپنوں کی غداری اور جنوبی ہند کے امراء کی انگریزوں کی چاپلوسی کی وجہ سے یہ مجاہد بادشاہ سن 1799 کو سرنگا پٹنم کے معرکہ میں شہید ہو جاتا ہے اور کاروان حریت کو نقوش راہ دے جاتا ہے۔
جب جرنل ہارس کو سلطان کی شہادت کی خبر ملتی ہے تو وہ ٹیپوسلطان کی نعش پر کھڑے ہوکر یہ الفاظ کہتا ہے کہ “آج سے ہندوستان ہمارا ہے”۔(ہندوستانی مسلمان ص۱۳۷)
جس یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ ٹیپو سلطان واقعی انگریزوں کے لئے ایک جنگلی شیر کے مانند تھا۔
شاہ عبد العزیز ایک کبیر مرد مجاہد:
قارئین! ٹیپو سلطان کی وفات کے بعد اب کوئی طاقت ایسی نہیں رہ جاتی ہے جو انگریزوں کا کھل کر مقابلہ کر سکے، مغل بادشاہ صرف لال قلعہ کے حکمراں رہ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں پھر بے چینی پھیلنی شروع ہو جاتی ہے، دہلی کے حالات بد سے بدترین ہوجاتے ہیں اور “حکومت شاہ عالم از دہلی تا پالم” کے نعرے لگائے جاتے ہیں تو اس صورت حال کے پیش نظر انگریز حکمرانوں کے خلاف جو سب سے پہلے آواز بلند کرتے ہیں وہ مرد مجاہد شاہ عبد العزیز ہوتے ہیں، جو مسلمانوں کو مسلسل ابھارتے ہیں، انکی بزدلی کو دور کرتے ہیں، انہیں دلائل و براہین سے مسلح کرتے ہیں، انکی لکنت اور توتلے پن کو دور کرتے ہیں، انکے اندر جذبہ جہاد پیدا کرتے ہیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں ملک ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر مسلمانوں پر جہاد کا فتویٰ لگا دیتے ہیں۔
علماء کی ایک بڑی جماعت وطن پر قربان:
اس کے بعد سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید دہلی کی اکبر آبادی مسجد سے ‘تحریک مجاہدین’ کا آغاز کرتے ہیں جس میں انگریزوں سے زبردست لڑائی کا منصوبہ بناتے ہیں لیکن یہ تحریک 1813 میں بالاکوٹ کے میدان میں دفن ہو جاتی ہے اور یہی وہ تحریک ہوتی ہے جو آئندہ مجاہدین آزادی کی تحریکات کا سنگ بنیاد بنتی ہے۔
اسکے بعد ملک کی آزادی کے لیے مختلف تحریکوں کی شروعات ہوتی ہے جس میں سر فہرست: تحریک آزادی، تحریک ریشمی رومال، تحریک خلافت وغیرہ ہیں۔
تحریک آزادی کے بانی مولوی احمد شاہ مدراسی، مولانا فضل حق خیر آبادی، مولانا رحمت اللہ اور دوسرے بزرگان ہوتے ہیں۔
تحریک ریشمی رومال کے سرخیل متعدد علماء اور دانشوران ہوتے ہیں لیکن شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن کی شخصیت ان سب پر حاوی ہوتی ہے۔
تحریک خلافت کے روح رواں مولانا محمد علی جوہر ہوتے ہیں ۔
قارئین ! ملک کی آزادی میں جہاں بے شمار تحریکات شامل تھیں وہیں پر بازار پشاور اور جلیاں والا باغ، امرتسر کے خونچکاں معرکے بھی شامل تھے، اس کے علاوہ اشفاق اللہ خان، رام پرشاد بسمل، بھگت سنگھ اور راج گرد کی زندگیوں اور جوانیوں کی بھینٹ بھی تھی۔
اس کے علاوہ محمد علی اور شوکت علی کے فلک پیما نعرے اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حفظ الرحمن اور مسٹر آصف علی کی صاعقہ باز تقریریں بھی شامل تھیں۔
ملک کی آزادی میں جہاں سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کی امپھال کی پہاڑیوں تک یلغار تھی تو وہیں پر گاندھی جی کی ستیہ گرہ بھی شامل تھی۔
وطن پر قربانی کا بے مثال کارنامہ:
وطن کی آزادی کے لیے جد وجہد کرنے والے تین علماء حضرت مولانا یحیی علی، مولانا جعفر علی تھانسیری اور مولانا شفیع لاہوری کو سلاخوں کے پیچھے رکھ کر جب عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو انگریز عدالت پھانسی کا حکم سناتی ہے اور جج کہتا کل تم کو پھانسی کی سزا دی جائے گی اور کل تمہاری جائیداد ضبط کر لی جائے گی اور تمہاری لاش تمہارے وارثین کو نہیں دی جائے گی بلکہ نہایت ذلت کے ساتھ جیل میں دفن کر دی جائے گی۔
آپ کو حیرت ہوگی یہ تینوں مسلمان یہ سزا سن کر مسکرا دیتے ہیں اور ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں، مسرت ان کے چہرے پر رقص کرنے لگتی ہے، انگریز حیران ہو جاتا ہے کہ یہ کمبخت نہ تو پریشان ہیں نہ مضطرب، انگریز مجسٹریٹ پھر اپنی بات دہراتا ہے کہ شاید یہ سمجھ نہ پائے ہوں مگر ان کی خوشی میں کوئی کمی نہیں آتی ہے، پھر وہ تینوں مسلمان اپنی خوشی کی وجہ بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہادت کی لذت تمہیں کیا خبر، جنت کی حوریں ہمارے لیے فرش راہ ہیں اور جنت ہماری منتظر ہے۔
مولانا جعفر تھانیسری اپنی کتاب “کالاپانی” میں تحریر فرماتے ہیں کہ :’’ جیل کے اندر ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، جسم پر جیل کا لباس اور کمر پر لوہے کی سلاخیں تھیں، انگریز ہم تین علماء کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے تھے اور ہمیں اس میں ڈال دیا کرتے تھے، اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دار سلاخیں بھی لگوائیں تھیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارا لے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ہماری آنکھوں سے آنسوں اور پیروں سے خون بہا کرتے تھے۔
جنگ آزادی کے دریا میں لاکھوں لعل و گوہر:
قارین تاریخ کے اوراق کو جب کھنگالا جاتا ہے تو جنگ آزادی کی دریا میں لاکھوں لعل و گوہر کے خزانے نظر آتے ہیں، مجاہدین آزادی کی ایک لمبی فہرست نظر آتی ہے جو لاتعداد رنگ برنگی پھولوں کی طرح گلستان ہند کی بہاروں کو معطر کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
گلستان ہند کی بہاروں میں وہ مرد مجاہد بھی نظر آتا ہے جو سب سے پہلے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوی دیتا ہے جسے لوگ شاہ عبدالعزیز کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
اسی میں وہ ٹیپو سلطان بھی نظر آتا ہے جو انگریزوں کے سامنے سر کٹنے کو سر جھکنے پر ترجیح دیتے ہوئے کہتا ہے کہ سو سالہ گیدڑ کی زندگی جینے سے ایک سال کی شیر کی زندگی بہتر ہے ۔
جنگ آزادی کے دریا میں گوہر نما وہ شیخ الہند بھی نظر آتا ہے جس کے متعلق انگریز جرنل کہتا ہے کہ اگر اس کو جلا کر راکھ بھی دیا جائے تب بھی اس کے ذرے ذرے سے انگریزوں سے دشمنی کی بو ٹپکے گی۔
اسی دریا میں وہ شیخ الاسلام بھی نظر آتے ہیں جو کراچی کے مقدمہ عام میں کفن بردوش توپوں کو بلبل اور گولیوں کو گل سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
“لیے پھرتی ہے بلبل چونچ میں گل،
شہید ناز کی تربت کہاں ہے،
کھلونا سمجھ کر نہ برباد کرنا،
کہ ہم بھی کسی کے بنائے ہوئے ہیں”۔
اسی دریا میں وہ حسرت موہانی بھی دکھائی دیتے ہیں جو سب سے پہلے مکمل آزادی کا اعلان جمعیت کے اسٹیج سے کرتے ہیں۔
اسی میں وہ مولانا عبدالباری فرنگی محلی بھی نظر آتے ہیں جو گاندھی جی کو مہاتما کا خطاب دلواتے ہیں۔
اسی دریا میں وہ حفظ الرحمن سیوہاروی بھی نظر آتے ہیں جن کی زبان و قلم انگریزوں پر ایٹم بم سے بھی بھاری ہوتی ہے۔
اسی میں وہ ابوالکلام آزاد بھی ہوتے ہیں جو دہلی کی جامع مسجد سے وہ تقریر کرتے ہیں جس سے سامعین میں ایک جوش و ولولہ پیدا کرکے انگریز کے جلتے ہوئے چولہے میں ایندھن بڑھا دیتے ہیں۔
بہر حال! ہندوستان کو طویل جد وجہد کے بعد آزادی کی نعمت حاصل ہوئی ہے، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، جان و مال کی قربانیاں دی ہیں، تحریکیں چلائیں اور تختہ دار کو چوما ہے، ان کی کاوشوں کی بنا پر ہی آج جشن آزادی منائی جا رہی ہے اسی لئے ہمیں اپنے اسلاف اور ماضی کی یادوں کو زندہ رکھنا ہوگا، ان کی بے مثال اور لازوال قربانیوں سے اپنوں اور بیگانوں کو آشنا کرانا ہوگا کیونکہ یہ بات بالکل سچ ہے کہ اگر کسی قوم کو تنزلی اور پستی میں ڈال کر تباہ کرنا ہو تو اس قوم کا رشتہ ان کے اسلاف اور ان کے ماضی سے کاٹ دیا جائے پھر اس قوم کو برباد کرنے کے لیے ان پر میزائل داغنے کی ضرورت نہیں پڑے گی نہ ہی توپ چلانے کی ضرورت پڑے گی بلکہ وہ قوم خود بخود اپنی شناخت کو کھو کر اپنے اسلاف کو بھول کر اپاہج ہو جائے گی۔