عبدالحفیظ گاندھی
جون2011میں روس کی ٹامسک اسٹیٹ یونیورسٹی کے تجزیہ کی بنیاد پر بھگوت گیتا کے خلاف عدالت میں کیس درج کیا گیا۔ اس کیس میں کہا گیا کہ بھگوت گیتا مذہبی اور معاشرتی عدم رواداری کو فروغ دیتی ہے، لہٰذا اس پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ اس کیس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں تنازع پیدا کردیا۔ حکومت ہند نے بھگوت گیتا پر پابندی عائد کرنے کی کوششوں کی مذمت کی اور کہا کہ یہ کوشش کچھ بے راہ روی کے شکار افراد کی لگتی ہے۔ اس کیس کے ٹرائل کو کافی نگیٹو میڈیا پبلسٹی ملی۔ نتیجتاً دسمبر2011میں ، عدالت نے کیس خارج کردیا۔ اس کیس کو خارج کرنے کے خلاف جنوری2012میں اپیل دائر کی گئی۔ لیکن مارچ 2012 میں اس اپیل کو بھی یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا گیا کہ نچلی عدالت نے اس کیس کو صحیح خارج کیا ہے۔ اس فیصلے سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ عدالتیں مذہبی گرنتھوں کے معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتی ہیں اور ان میں مداخلت کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ قابلیت اس لیے نہیں ہے کیوں کہ تمام مذاہب میں ان گرنتھوں کو سپریم پاور کے الفاظ کہا گیاہے۔ لہٰذا ان دھرم گرنتھوں کے بارے میں دھرم گرو ہی وضاحت کرسکتے ہیں، کورٹ نہیں۔
کورٹ کو صرف قانون کے بارے میں فیصلہ لینے کا حق ہے پھر چاہے وہ قانون مذہبی ہی کیوں نہ ہو۔
میرے مطابق عدالتیں مذہبی صحیفوں(دھارمک گرنتھوں) میں دخل اندازی نہیں کرسکتی ہیں۔ ہاں، اگر کوئی مذہبی قانون ہے تو عدالتیں اس کے بارے میں فیصلہ لے سکتی ہیں۔ جیسے تین طلاق کے مسئلہ پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا۔ لیکن وہ مذہبی مسائل جو قانونی شکل کے نہیں ہیں(purely religious matters/خالص مذہبی معاملات)، ان کے بارے میں کورٹ کو فیصلے دینے کا حق نہیں ہے۔ اس لیے چاہے بھگوت گیتا کا یا قرآن پاک کی آیات پر پابندی کا مسئلہ ہو، کورٹ کو اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق اور صلاحیت دونوں نہیں ہے۔ مذہبی معاملات کی وضاحت کورٹ کو نہیں بلکہ دھرم گروؤں کو کرنے کا حق ہے۔ ایسا اس لیے کیوں کہ دھرم گرو ہی مذہبی معاملات کے جانکار ہوتے ہیں۔
کسی بھی مذہبی گرنتھ کا judicial reviewکرنے سے کوئی حل نہیں نکلے گا۔ لوگوں کی جو مذہب میں عقیدت ہے اس کو وہ مانیں گے ہی اور ویسے بھی ہندوستانی آئین مذہبی عقائد کو تسلیم کرنے کا حق دیتا ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ ان مذہبی گرنتھوں سے جو قانون نکلے ہیں ان کا Judicial reviewکرنے کا حق عدالتوں کو ہونا چاہیے تاکہ ان مذہبی قوانین میں مروجہ عدم مساوات کو دور کیا جاسکے۔
ہر مذہب کے دھارمک گرنتھوں میں کئی طرح کی باتوں اور واقعات کا ذکر ہوتا ہے۔ ایک وہ مسائل ہوتے ہیں جو ضوابط اور قانون کی بات کرتے ہیں۔ دوسرے مسائل وہ ہوتے ہیں جنہیں آپ عقائد کہہ سکتے ہیں۔ ان عقائد میں اس مذہب کو ماننے والوں کا عقیدہ ہوتا ہے۔ میں پہلے ہی بتاچکا ہوں کہ مذہبی قوانین کے بارے میں فیصلہ دینا اور ان کی آئینی حیثیت کی جانچ کرنا کورٹ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ لیکن مذہبی عقائد(purely religious matters) کے بارے میں کورٹ کو دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ ان مذہبی عقائد میں عقیدہ رکھنے کو آئین کے آرٹیکل 25میں تحفظ دیا گیا ہے۔
حالاں کہ 1951 میں بامبے ہائی کورٹ نے نرسواپّامالی کیس میں کہا تھا کہ پرسنل لاء کی آئینی حیثیت کا فیصلہ عدالت نہیں کرسکتی۔ ایسا بامبے ہائی کورٹ نے اس لیے کہا کیوں کہ کورٹ کے حساب سے پرسنل لاء جو مذہبی قوانین ہوتے ہیں، وہ آئین کے پارٹ-3کی نظر میں قانون نہیں سمجھے جاتے ہیں اس لیے ان مذہبی قوانین کو بنیادی حقوق کی کسوٹی پر کسا نہیں جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آرٹیکل13کے دائرہ سے پرسنل لاز باہر ہیں۔ پرسنل لاز کی آئینی حیثیت کو آرٹیکل13کی بنیاد پر چیلنج نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے پرسنل لاز میں ابھی تک جنس اور religious biasبنا ہوا ہے۔
پرسنل لاز کے مسئلہ پر بامبے ہائی کورٹ کا فیصلہ پورے ہندوستان میں نافذ نہیں ہوتا لیکن پھر بھی دوسرے ہائی کورٹس کے لیے اور سپریم کورٹ کے لیے یہ فیصلہ ایک persuasive valueضرور رکھتا ہے۔
بامبے ہائی کورٹ کے فیصلہ سے میں اتفاق نہیں رکھتا کیوں کہ اگر پرسنل لاز آئین کے پارٹ-3کے حساب سے قانون نہیں ہیں تو پھر تین طلاق پر سپریم کورٹ نے فیصلہ کیوں دیا۔ میرے مطابق پرسنل لاز بھی آئین کے پارٹ-3کے مطابق قانون قبول کیے جائیں تاکہ پرسنل لاز میں جو عدم مساوات ہے اس کو چیلنج دے کر ٹھیک کرایا جاسکے۔ سبھی پرسنل لاز چاہیں وہ کسی بھی مذہب کے ہوں، ان میں جنس اور religious biasدیکھنے کو ملتا ہے۔
ابھی تک میں نے مذہبی مسائل کو دو حصوں میں تقسیم کرکے بات کی۔ مذہبی قانون(Personal laws) کے مسئلہ پر کورٹ کو حق ہونا چاہیے کہ کورٹ ان قوانین کی آئینی حیثیت کی جانچ کرسکے لیکن وہ مسائل جو پوری طرح مذہبی عقائد سے وابستہ ہیں، ان پر فیصلے کا حق عدالت کو نہیں ہے۔
آئیے اب ہم مذہبی عقائد والے مسائل پر کچھ تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں قرآن پاک کی کچھ آیات کو ایک پی آئی ایل کے ذریعہ سپریم کورٹ میں چیلنج دیا گیا ہے۔ اس پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ قرآن پاک کی 26آیات سے تشدد کو بڑھاوا ملتا ہے اس لیے سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی ان آیات کو قرآن پاک سے ہٹایا جائے۔ اس موجودہ پٹیشن کے بعد وہی سوال کھڑے ہوتے ہیں جو روس میں بھگوت گیتا پر پابندی عائد کرنے والی پٹیشن کے وقت کھڑے ہوئے تھے-کیا کورٹ کو حق اور صلاحیت ہے کہ وہ مذہبی گرنتھوں سے کوئی چیز ہٹا سکے۔ پہلے بھی یہ مسئلہ ہندوستان میں کورٹ کے سامنے اٹھ چکا ہے۔ کولکاتہ ہائی کورٹ میں چاندمل چوپڑہ نے 1985میں ایک ایسا ہی کیس قرآن پاک کے خلاف داخل کیا تھا۔ اس میں بھی کہا گیا تھا کہ قرآن تشدد کو بڑھاوا دیتا ہے۔ کولکاتہ ہائی کورٹ نے کیس کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ قرآن پاک پر پابندی عائد کرنے سے آئین کے آرٹیکل 25جو مذہبی آزادی کی بات کرتا ہے، کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس کیس میں کورٹ نے یہ بھی کہا کہ بھگوت گیتا، قرآن پاک، گرو گرنتھ صاحب اور بائبل کے بارے میں کورٹ فیصلہ نہیں دے سکتے۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ تاریخ میں ایسا کوئی وقت نہیں آیا اورنہ ہی آگے آئے گا جب قرآن پاک کی وجہ سے تشدد بھڑکا ہو یا بھڑکے گا۔
سپریم کورٹ میں قرآن پاک کے خلاف داخل پی آئی ایل سیاست سے متاثر لگتی ہے۔ درخواست گزار کا ماضی بہت متنازع رہا ہے۔ اکثر اس قسم کی درخواستیں سیاست سے ترغیب حاصل کی ہوئی ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ معاشرتی ہم آہنگی کو متاثر کرنے کے لیے اس طرح کی درخواستوں کا سہارا لیتے ہیں۔ درخواست گزار کی اس پٹیشن کی تاریخ کے پیش نظر ، سپریم کورٹ کو درخواست گزار کے ذریعہ PIL Jurisdictionکا غلط استعمال کرنے کے لیے exemplary costلگانی چاہیے تاکہ مستقبل میں لوگ پی آئی ایل کا سیاسی فائدہ اٹھانے سے خوف محسوس کریں۔ اس پٹیشن میں 59پارٹیاں بنائی گئی ہیں، پارٹیوں کو دیکھنے سے صاف پتا چلتا ہے کہ اس پٹیشن کا مقصد کیا ہے۔ اس میں علی گڑھ مسلم یونیوسٹی کے چانسلر کو بھی پارٹی بنایا گیا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چانسلر کا قرآن پاک کی آیات کو رکھنے یا ہٹانے سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ اسی طرح اور بھی اداروں کے عہدیداروں کو بھی پارٹی بنایا گیا ہے جن کا قرآن پاک میں کیا رکھا جائے یا کیا نہ رکھا جائے، اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ درخواست گزار کی کوشش صرف اور صرف پبلسٹی پانے اور اپنے مسلم مخالف آقاؤں کو خوش کرنے کی ہے۔
پی آئی ایل کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ نے کئی فیصلے دیے ہیں۔ اپنے ان فیصلوں میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پی آئی ایل کو Publicity Interest Petitionبنانے سے روکا جانا چاہیے۔ پی آئی ایل سپریم کورٹ کا extra-ordinary jurisdictionہے۔ اس کا استعمال کچھ خاص معاملات میں ہونا چاہیے جہاں ہزاروں لوگوں کے حقوق کا مسئلہ ہو۔ پی آئی ایل کی شروعات سپریم کورٹ نے غریب، مظلوموں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کے لیے کی تھی کیوں کہ یہ لوگ انصاف کے لیے خود کورٹ نہیں جاسکتے اس لیے ان کی جگہ کوئی اور کورٹ جاکر ان لوگوں کے مسائل کو اٹھاسکے۔ پی آئی ایل کا مقصد لوگوں کو ان کے دروازے تک انصاف پہنچانے کا تھا۔
کسی بھی مذہبی گرنتھ کا judicial reviewکرنے سے کوئی حل نہیں نکلے گا۔ لوگوں کی جو مذہب میں عقیدت ہے اس کو وہ مانیں گے ہی اور ویسے بھی ہندوستانی آئین مذہبی عقائد کو تسلیم کرنے کا حق دیتا ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ ان مذہبی گرنتھوں سے جو قانون نکلے ہیں ان کا Judicial reviewکرنے کا حق عدالتوں کو ہونا چاہیے تاکہ ان مذہبی قوانین میں مروجہ عدم مساوات کو دور کیا جاسکے۔ ہاں میں اس بات پر فوکس دینا چاہوں گا کہ سبھی مذاہب کے سول قانون codifyہونے چاہئیں۔ اگر یہ قانون codify ہوں گے تو بہت حد تک personal lawsمیں مروجہ عدم مساوات ختم ہوگی۔
میرا ماننا ہے کہ جس طرح سے روس میں بھگوت گیتا کے خلاف کورٹ سے کیس خارج ہوا ویسے ہی قرآن پاک کے خلاف داخل پی آئی ایل خارج ہونی چاہیے کیوں کہ ’purely religious affairs‘‘میں مداخلت کرنے کا کورٹ کو کوئی حق نہیں ہے۔
[email protected]