خواجہ عبدالمنتقم
کسی بھی جمہوری ملک میںصرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر کوئی بھی اقلیتی فرقہ سیاسی اغراض کے لیے مضبوط پریشر گروپ نہیں بن سکتا کیونکہ اقلیت کبھی بھی اکثریت کو مغلوب نہیں کر سکتی چونکہ بقول علامہ اقبال جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جس میںبندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے،لیکن اگر ہم امریکی یہودیوں کی مثال اپنے سامنے رکھیں تو یہ مفروضہ غلط ثابت ہوجاتا ہے مگر کیوں؟ امریکہ میں مٹھی بھر یہودی سب سے طاقتور پریشر گروپ اس لیے ہیں کیونکہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، بڑے بڑے بینک ان کے قبضہ میں ہیں،سائنس اور ٹیکنا لوجی کے شعبوں میں ان کی معقول نمائندگی ہے اور نیوز چینلوں، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کو بھی ان کی سرپرستی حاصل ہے۔اسی طرح ہنگری کی کئی ملین کی آبادی میں چند ہزار یہودی ایک پریشر گروپ ہیں جب کہ اکثریتی فرقے کے بہت سے لوگ ان کو پسند نہیں کرتے۔
اگر ہندوستانی مسلمانوں نے بھی سر سیداحمد خاں کی نصیحت پر بروقت عمل کیا ہوتا، اپنے بچوں کو روایتی و دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ بر وقت شروع کر دیا ہوتاتوآج ہندوستانی مسلمان اپنے دیگر برادران وطن کی طرح ہر شعبۂ حیات میں خود کو برابر محسوس کرتے، نہ احساس کمتری ہوتا نہ اتنے پسماندہ ہوتے۔ صرف یہی نہیں، ان کی سوچ مزید دانشمندانہ ہوتی اور فیصلے بھی منطقی اور سودمند ہوتے اور سیاسی اعتبار سے ایک مضبوط پریشر گروپ ہوتے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ عام مسلمانوںکی سیاسی سمجھ بوجھ ابھی بھی اس حد تک پختہ نہیں ہوئی ہے کہ وہ اپنے بھلے برے کا فیصلہ غیرجذباتی ہو کر کر سکیں، انہیں سمجھنا ہوگا کہ سیاست کوئی خیرات نہیں جس کو ہر اس شخص کی جھولی میں ڈال دیںجو ان کے دروازے پر دست دراز کرنے آجائے، سیاست ایک سنجیدہ عمل ہے جس کو حکمت عملی کے اصولوں پر سمجھا اور نافذ کیا جاتا ہے۔
ہمارے عام ہندو برادران یہ سمجھتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں میں بہت زیادہ اتحاد ہے لیکن ہم نے خانۂ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں ہر ملک اور ہرمسلک کے لوگوں کو امام کعبہ کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا مگر کچھ ہندوستانیوں نے ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جبکہ ہم ہمہ وقت محمود وایاز کو ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کی با ت کرتے ہیں۔صرف یہی نہیں مسجدیں، جنہیں اللہ پاک کا گھر کہا جاتاہے،ان میں سے کچھ مساجد میں صرف مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد ہی نماز ادا کر سکتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کوہندوستانی عوام کوپولرائزیشن کی راہ پر لے جانے کے بجائے ایک ایسا سیاسی ماحول دستیاب کرانے کی کوشش کرنی چاہیے جس میںالگ الگ سیاسی سوچ ہونے کے باوجود سب شیر و شکر ہو کر رہیں،نہ طعنہ زنی ہو نہ کسی کو احساس برتری یا احساس کمتری۔
اگرچہ ہندوستانی مسلمان ہندوستان کی سیاست میں بادی النظر میں ایک مضبوط پریشر گروپ ہیں اور بسا اوقات وہ اپنے آپ کو کنگ میکر بھی سمجھنے لگتے ہیں مگر پھربھی جب اکثریتی فرقے سے تعلق رکھنے والے معدودے چند افراد ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتے ہیں تو انہیں اپنی کمتری کا احساس ہونے لگتا ہے۔ کسی بھی ملک میں نفرت کی سوچ رکھنے والوں کی تعداد نہ کے برابر ہو تی ہے اور اس تعداد میں اس وقت اچانک اضافہ ہوجاتا ہے جب کسی غرض خاص کے حصول کے لیے ان کے مذہبی جذبات ابھار دیے جاتے ہیں۔ جب بھی کوئی الیکشن ہوتا ہے تو انتخابی نتائج کا رونا رویا جاتا ہے اور یہ مسئلہ زیر غور آنے لگتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں مسلمان کس طرح متحد ہوں۔ یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے چلا آرہا ہے اور تاہنوز جاری ہے۔ہمیں بھی اس ضمن میں کچھ قلم برداشتہ لکھنے کی ترغیب ملی اور ہمارے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ آخر مسلمان جو آزادی کے76 سال بعدبھی اس نظام جمہوریت میں خود کو کبھی سینہ فگار، بے کس وزخم خوردہ محسوس کرتے ہیں تو کبھی وہ اشک بار یا لہولہان نظر آتے ہیں، اپنے حقوق کی حصولیابی کے لیے کس طرح متحد ہوں۔ ان کی حالت تو اس شکستہ مزار کی سی ہے جس پر کبھی کبھی بروئے مصلحت سفیدی کرادی جائے یا دوچار پھول چڑھادیے جائیں۔
تنگ نظری کے اس چہار طرفہ ماحول میں سیاسی بیداری اور اتحاد کی باتیں بعید از قیاس تو نہیں مگر قابل عمل نظر نہیں آتیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں روشن خیالی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں اور ان لوگوں کے دل بھی جیتنے کی کوشش کریں جو ہمیں حقیر سمجھتے ہیں، اپنی سیاسی قوت تمیزی میں مزید استحکام پیدا کریں اور پارلیمنٹ میں ایسے نمائندے بھیجیں جو ہمارے لیے تعمیری کام کریں اورارباب حکومت کی توجہ ہمارے اصل مسائل کی جانب مبذول کرائیں اور جب تک مسائل کا حل نہ نکلے باربار حکومت کی گوشمالی کرتے رہیں، وہ اتنے تعلیم یافتہ ضرور ہوں کہ جب پارلیمنٹ میں کوئی بل پیش ہو تو اس کے نفس موضوع کو سمجھ سکیں۔ یاد رہے کہ اتحاد کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ ہر وقت اس چکر میں پڑے رہیں کہ صرف مخصوص فرقے کے امید وار کو ہی منتخب کریں، خواہ اس کی حمایت کرنے سے آپ کے مفادات پر منفی اثر ہی کیوں نہ پڑتا ہو۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں اس حد تک بھائی چارہ اور عملی دوستی ورواداری کا جذبہ پیدا ہوجائے اور وہ اس طرح شیروشکر ہوجائیں کہ کسی کو یہ احساس ہی نہ ہو کہ کس کا تعلق کس فرقہ سے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی مکمل شناخت بھی قائم رہے۔
آئین یا انسانی حقوق سے متعلقہ دستاویزات میں اقلیت اور اکثریت میں دونوں کے بیچ کتنی ہی مساوات کی بات کی جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثریت جب بھی چا ہے اقلیت کو مغلوب کر سکتی ہے مگرایک مہذب معاشرہ میں یہ امید کی جانی چاہیے کہ دونوں فریق غالب و مغلوب جیسی غلامانہ اصطلاحات کو نظر انداز کرتے ہوئے اور اس تصور کو ہی خارج کرتے ہوئے ایک دوسرے کو زیر دکھانے یا bulldoze کرنے کے بجائے ایک ایسے نئے ہندوستان کی تعمیر کریں جس میں مستحقین کو ان کا حق ملے، نا انصافی کا خاتمہ ہو اور ایسا ’جمہوری‘ رام راج لوٹ کر آئے اور ایک ایسا مثالی(utopian) معاشرہ وجود میں آئے جس میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ مساوات اور شفافیت کا دور دورہ ہو مگریہ نعرہ ٔ حق ’تبھی با معنی ثابت ہوگا جب بانگ اذان اور صدائے ناقوس کسی کو ناگوار نہ گزرے اور ہم سب اپنے ملک کے آئین پر کاربند رہیں۔
یاد رہے کہ سیاست میں مستقل طور پر کوئی اپنا نہیں ہوتا۔ کوئی بھی حسب موقعہ و حسب ضرورت چولا بدل سکتا ہے اور آپ سے نظریں چرا سکتاہے۔ دریں صورت ہمیں ہر ا لیکشن میں ایسے امیدوار کی حمایت کرنی چاہیے جسے عوام کے تمام طبقات کا مفاد عزیز ہو،مستقل مزاج ہو،اسے اپنی زبان پر قابو ہو، وہ کسی کے مذہبی جذبات کو نہ ابھارے اور یہ سمجھے کہ ہم سب ایک ہیں۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]