شاہنواز احمد صدیقی
میخائل گورباچوف کے انتقال پر دنیا نے ایک ایسے شخص کو خراج عقیدت پیش کی جس نے دنیا کا سیاسی نظام بدل کر رکھ دیا۔ اگرچہ یوایس ایس آر جس کو سوویت یونین بھی کہتے ہیں کا اختتام انہی کے ہاتھوں ہوا اور یہ ان ہی کی پالیسیوں کا نتیجہ تھا مگر یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ انہوں نے دنیا کے نظام کو دو قطبی سے یک قطبی میں تبدیل کردیا۔ ایک طویل عرصہ تک سرد جنگ نے دنیا کو ایک ایسی کشمکش میں گرفتار رکھا جو لاحاصل تھی اور بے مطلب تھی۔ افغانستان جیسے ملک پر سوویت یونین کا قبضہ اور اس بہانے مغربی طاقتوں کی اس ملک کو آزاد کرانے کی کشمکش نے دنیا کی سیاست کو ایک محدود پیرایہ میں باندھے رکھاتھا۔ دنیا میں صرف دو ہی بلاک تھے جو سوویت یونین اور امریکہ کی قیادت والے گروپوں میں منقسم تھے۔ اگرچہ ایک تیسرا بلاک بھی کافی موثر تھا جس کو ہم تیسری دنیا یا ناوابستہ تحریک بھی کہتے ہیں۔ مگر یہ بات بھی دھیان میں رہنی چاہئے کہ ناوابستہ تحریک جس کی قیادت عظیم شخصیات، جوزف بروز، جمال عبدالناصر اور پنڈت جواہر لال نہرو کے گرد گھوم رہی تھی ان کا جھکائو سوویت یونین کی طرف تھا۔ یہ تحریک ناوابستہ ہونے کے باوجود کسی حد تک سوویت یونین کے بلاک کی طرف جھکی ہوئی تھی۔ سوویت یونین نے جب اپنی فوجیں افغانستان میں اتاری تھیں تو اس وقت ہندوستان کی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس عمل پر قدرناگواری کا اظہار کیا تھابلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ سوویت یونین کے سربراہ میخائل گورباچوف کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے سردجنگ کا خاتمہ ہوا۔ گورباچوف کی نئی فکر نے دونوں بلاکوں کے درمیان ٹکرائو کوختم کیا۔ ظاہر ہے کہ اس ٹکرائو کے خاتمہ پر سوویت بلاک جوکہ وارسا دفاعی معاہدہ سے بندھا ہوا تھا، تحلیل ہوا تھا اوراس کو ایک طرح سے سوویت بلاک کی شکست کے طورپر دیکھا گیا کیونکہ مغربی طاقتوں کا بلاک ناٹو جوکہ وارسا سمجھوتہ کو ٹکر دے رہا تھا، یوایس ایس آر کے ختم ہونے کے بعد بھی نہیں ٹوٹا تھا۔ دنیا کے کئی حلقوں میں اس بات پر توجہ دی گئی کہ جب سرد جنگ ختم ہوچکی ہے اور وارسا تحلیل ہوگیا ہے، سوویت یونین کے ایک درجن سے زائد ٹکڑے ہوچکے ہیں تو ایسے حالات میں ناٹو کا برقرار رہنا کیا معنی رکھتا ہے۔ دنیا کے سامنے سنگین ترین مسائل جیسے غربت، بے روزگاری اور قدرتی آفات میں اموات جیسے ایشوز ہیں، ان پر توجہ دینی چاہئے مگر مغربی اقوام نے ایسا نہ کیا بلکہ ناٹو کو برقرار رکھا۔ مغربی طاقتوں کے ناقدین مسلسل اس بات کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں کہ ناٹو کو برقرار رکھنے اور ایک فوجی قوت کو قائم رکھنے کے لئے ناٹو کے ممبرممالک اور مغربی اقوام کو ایک ایسے دشمن کی ضرورت تھی جس کے ذریعہ ناٹو کے اندر آنے والے ممالک کو ہتھیاروں کا ذخیرہ برقرار رکھنا درست قرار دیا جاسکے۔ اہل مغرب نے اس مقصد کے لئے ایک نیا دشمن ’مسلم بلاک ‘ کو فرضی دشمن کے طورپر گھڑ لیا جس کے تحت ایک زمانہ میں افغانستان اور پھر طالبان، عراق وغیرہ جیسے دشمنوں کا ہوّا کھڑا کیا گیا۔ مغرب کی پروپیگنڈہ مشینری نے چند ملکوں کے مفادپرست لیڈروں کے ذاتی عزائم اور مقاصد کا ہوا بناکر ایک ایسا دشمن کھڑا کیا جس کے خلاف ناٹو اور مغربی ممالک نے فوجی کارروائیاں کیں۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد مشرقی یوروپ میں کچھ ممالک بھی تقسیم ہوئے اورکچھ ممالک متحد بھی ہوئے۔ ان میں سوویت یونین کے علاوہ یوگوسلاویہ بھی ہے جس کے کئی ٹکڑے ہوئے اور جرمنی جوکہ دوٹکڑوںمیں تقسیم ہوگیا تھا متحد ہوگیا۔ تاریخی برلن وال (دیوار برلن) منہدم ہوئی اور دونوںملکوں کے مکین ایک ساتھ ایک جمہوری نظام میں متحد ہوئے۔ یہ اتحاد برصغیر کے ہندوستان کی تقسیم کے عین برخلاف تھا جس میں ایک آزاد ملک پاکستان معرض وجود میں آیاتھا۔پرتشدد کارروائی میں پھر پاکستان تقسیم ہوا۔
میخائل گورباچوف کو ایک نرم اورکمزور لیڈر کے طورپر بھی نکتہ چینی کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر میخائل گورباچوف ان الزامات کی یہ کہہ کر تردید کرتے رہے ہیں کہ اگر وہ اس وقت سختی دکھاتے اور سوویت یونین کی چار کروڑ فوج کا استعمال کرتے تو دنیا اور مشرقی یوروپ اور خود سوویت یونین میں کشت و خون کا وہ بازار گرم ہوتا جس کو روکنا ممکن نہیں ہوتا۔
میخائل گورباچوف 1985 میں سوویت یونین کے سربراہ بنائے گئے تھے۔ ان کا برسراقتدار آنا بھی ان معنوں میں دلچسپ تھا کہ ان سے پہلے سوویت یونین کے جتنے بھی سربراہان مملکت آئے تھے وہ جلدی جلدی مرتے گئے اور میخائل گورباچوف کے ہاتھ میں اقتدار ایسے وقت میں پہنچا کہ جب کوئی دوسرا سخت گیر موقف کا حامل نہ ہنسنے مسکرانے والا کمیونسٹ لیڈر زندہ نہیں بچا تھا۔ سوویت یونین کی لیڈرشپ کے بارے میں یہ عام تاثر تھا کہ وہ بہت سفاک اور سخت گیر ہوتے ہیں، ظالم و جابرہوتے ہیں اسٹالن اور لینن کے ظالمانہ کرتوت اہل مغرب کی کتابوں اوردستاویزات میں آج تک محفوظ ہیں۔ یہاں یہ بات برمحل نہ ہوگی کہ ہم سوویت یونین کے جبرواستبداد کی وہ کہانیاں دہرادیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سینٹرل ایشیا کے کئی ایسے ممالک کو زبردستی اور طاقت کے زورپر اپنے ساتھ ملا لیا تھا جو ماسکو کی بکھرتی ہوئی طاقت کے ساتھ آزاد ہونے لگے تھے۔ کریمیا، چیچنیا، ازبکستان، قزاقستان کی سرزمین یہاں کے مسلمانوںکے لہو سے رنگین ہے۔ سینٹرل ایشیا کے ٹویٹر ہینڈل سوویت یونین کے دور کی ایسی داستانیں بیان کرتے ہیں جن کو سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
میخائل گورباچوف کے انتقال پرروس کے صدر ولادیمیرپوتن کا جو نپا تلا ردعمل سامنے آیا وہ اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ یوایس ایس آر کی قدیمی اور روایتی روسی قیادت آج بھی میخائل گورباچوف کی بے بسی اورکمزور قیادت کو حقارت سے دیکھتی ہے۔ ولادیمیرپوتن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ سوویت یونین کے اسی وقار،طاقت اور جاہ و جلال کو واپس لانا چاہتے ہیں جو کہ گورباچوف کے ہاتھوں پامال ہوا۔ گورباچوف کی آخری رسومات کو لے کر وہاں کی موجودہ قیادت جورویہ اختیار کر رہی ہے وہ 1991کے کرب کا اظہار ہے جوکہ اتنی بڑی طاقت کے ٹوٹنے بکھرنے کی ان کہی داستان ہے۔
میخائل گورباچوف جن پر سوویت یونین کے زوال کا الزام ہے دراصل انہوں نے اپنے ملک کو مالی بدحالی سے نکالنے کی کوشش کی تھی لیکن اقتصادی اصلاحات نافذ کرنے میں حالات اس قدر بے قابو ہوگئے کہ سوویت یونین ہی بکھر گیا۔ گورباچوف کو بیسٹانینٹ چرنیکو کے انتقال کے بعد 1985 میں کمیونسٹ پارٹی کی جنرل سکریٹری بنایا گیا۔ وہ اس وقت تک کے سب سے کم سن جنرل سکریٹری تھے۔ وہ پہلے جنرل سکریٹری تھے جو 1917 کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ گورباچوف کا مسکراتا اور شگفتہ چہرہ اس دور میں کافی مقبول ہوا۔ ان کی خوش پوشاکی، کھل کر بات کرنا، تپاک سے ملنا اہل مغرب کو متاثر کر گیا۔ ان کی اہلیہ رئیسہ گورباچوف بھی کافی مقبول ہوئیں۔ گورباچوف نے اقتصادی اصلاحات شروع کیں۔ خیال رہے کہ کمیونسٹ نظام اقتصادی نظام پر مبنی تھا اور ان کی اصلاحات کو پروستورائیکو (Perestovika) کہا گیا یہ روسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ڈھانچے کی ازسرنو تنظیم یا اقتصادی ڈھانچہ کی تنظیم نو۔ کمیونسٹ معیشت میں کھلاپن لانے کی اپیل کرتے ہوئے انہوںنے کہا تھا کہ وہ آزا د معیشت کو چاہتے تھے مگرآزاد معیشت کو ریاستی کنٹرول یاحکومتی کنٹرول سے آزاد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ 1985 میں ذمہ داری ملنے کے بعد اپنی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ آپ بازار‘‘ پرمبنی معیشت میں پناہ لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر کامریڈس پناہ گاہ کی نہیں بلکہ پورے جہاز کی فکر کیجئے اور یہ جہاز سوشلزم ہی ہے۔انہوںنے کمیونسٹ کے سرچشمہ ملک ’’سوویت یونین‘‘ میں جمہوریت کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اس گھٹن بھرے ماحول سے نکلنے کا واحد راستہ جمہوریت ہے۔ انہوں نے پہلی مرتبہ مقننہ ’’کانگریس آف پیوپلز ڈیپوٹیس Congress of People’s Deputies کے لئے آزادانہ انتخابات کا راستہ کھولا۔
گورباچوف کی نرم خوئی کی وجہ سے کئی حلقوں میں بے چینی دیکھی گئی اورکمیونسٹوں نے بے چینی کا اظہار کیا۔ سوویت یونین کی کئی ریاستوں میں ماسکو کی گرفت ڈھیلی ہونے پر اصل خودمختاری اور آزادی کے جذبات نے کروٹ لی۔ کئی خودمختار ریاستوں نے آزادی کی خواہش کا اظہار کیا اور شروعات قزاقستان سے ہوئی۔
گورباچوف نے اپنے ملک کے اندر حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی پالیسیوں میں تبدیلی کی طرف فوری توجہ دی۔ انہوں نے بڑے پیمانہ پر تباہی مچانے والے اسلحہ کو ختم کرنے کے لئے امریکہ سے مذاکرات کئے اور ا مریکی صدر رونالڈ ریگن کے ساتھ Intermediate Nuclear Forces Treaty کی ہے۔
انہوں نے سوویت یونین کی روایتی فوج میں تخفیف کا اعلان کیا۔ فوجی طاقت اور نفری میں کمی کی وجہ سے افغانستان پر سوویت یونین کی گرفت کمزورہوئی اور پھر سوویت یونین کی وہ ریاستیں جو زبردستی طاقت کے زور پر شامل کی گئی تھیں الگ ہونے لگیں۔ ان بالٹک ریاستوں میں لاٹیوبا، لتھوانیا، اسٹونیا تھیں۔ یہ عمل وارثا سمجھوتے کے اختتام کی طرف بھی ایک اہم پیش رفت ثابت ہوا۔
جرمنی جوکہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا اور جنگ کی شروعات کے وقت دونوں علاقوں کو بانٹنے والی دیوار برلن وال تعمیر کردی گئی تھی، 9؍نومبر 1989 میںمنہدم کردی گئی اسی طرح مشرقی جرمنی ملک ختم ہوگیا۔ دونوں جرمنی ایک ہوگئے۔ گورباچوف نے اس وقت اپنے سب سے اہم حلیف مشرقی جرمنی کو ختم ہونے اور دونوں حصوں کے ایک ملک کے طورپر سامنے آنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جر منی کا اندرونی معاملہ ہے یعنی اگر یہ دونوں ریاستیں متحد ہورہی ہیں تو اسے ان دونوں ملکوں کا آپسی اور اندرونی معاملہ قرار دیا گیا ہے۔
سردجنگ کے خاتمہ، افواج میں تخفیف اور پھر جرمنی کے اتحاد کی وجہ سے مشرق و مغرب میں ٹکرائو ختم ہوا۔ نیوکلیر ہتھیاروں کی مقابلہ آرائی ختم ہوئی اور اس کا کریڈٹ گورباچوف کو دیا گیا۔ گورباچوف کو نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ آخرکار سوویت یونین کی روایتی قیادت کو ’ہوش‘ آیا، ان کے خلاف بغاوت ہوئی، گورباچوف گرفتار ہوگئے اور بورس پلسن نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی۔
شایدروس کے صدر ویلادیمیرپتن گورباچوف کو ایک ایسا کمزور لیڈر سمجھتے رہے ہیں جومغرب کے آبروئے خم پر فیصلہ لیتا رہا ہے ، سوویت یونین میں بڑی طاقت کے زوال کا سبب بنے۔ پتن اس وقت کی گوربارچوف کی سیاسی قیادت کی کوتاہیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کا پورا فوکس روسی فیڈریشن کو مضبوط بنانا ہے اور اگرکوئی یوکرین جیسا ملک نکل آئے تو اس کو سبق سکھانا چاہتے ہیں اوراس زمانے کا جاہ و جلال بحال کرنا چاہتے ہیں جو گورباچوف کے زمانے میں کھوگیا تھا۔ ٭٭٭