اسد مرزا
برکس ممالک نے اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے روسی شہر کازان میں اپنی سالانہ سربراہی کانفرنس کا اختتام کیا۔ مالیاتی تعاون کوفروغ دینے اور مغربی غلبہ والے ادائیگی کے نظام کے ممکنہ متبادل کو عملی جامہ پہنانے کے منصوبوں پربھی اس اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا، اس کے علاوہ افریقی ممالک کے بدلتے ہوئے عالمی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں میں ایک اہم رول ادا کرنے کی سفارشات بھی شامل کی گئی ہیں ۔
برکس تنظیم گزشتہ دو دہائیوں میں عالمی سطح پرایک بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری ہے، جو عالمی اداروں میں مغربی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی اپنی خواہش پر قائم ہے۔ 2023 میں گروپ کی توسیع نے اس کے نظریے کو اور واضح کیا ہے۔2023 میں ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے اس میں شامل ہونے کے بعد، وہ اتحاد جس میں ابتدائی طور پر برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل تھے اب آہستہ آہستہ ایک بڑی اور بااثر عالمی تنظیم بن گئی ہے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے جنوب مغربی روسی شہر کازان میں برکس کے اختتامی اجلاس میں کہا کہ بلاک میں شامل ہونے والے تمام ممالک ’ایک جیسی خواہشات اور اقدار اور نئے جمہوری عالمی نظام کے نظریے کے حامل ہیں۔‘ تین روزہ سربراہی اجلاس، جو گزشتہ جمعرات کو ختم ہوا، اس میں رکن ممالک کو مالی تعاون کوفروغ دینے اور مغربی غلبہ والے ادائیگی کے نظام کے متبادل تیار کرنے کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی فراہم کیا گیا۔لیکن اس کے ساتھ ہی، سربراہی اجلاس کے دوران یوکرین پر روس کے حملے جیسے مسائل پر نئے اختلافات بھی سامنے آئے۔ روس کی 2024 کی قیادت بلاک کی مغرب مخالف توجہ کو تیز کر سکتی ہے، جس میں امریکی ڈالر کو ختم کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں – حالانکہ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہو سکتا ہے۔اگرچہ یہ مفروضے موجود ہیں کہ یہ بلاک مغربی قیادت والے بین الاقوامی نظام کو کمزور کر سکتا ہے، لیکن مغربی ماہر معیشت اور سیاست کے درمیان ایسے شکوک و شبہات موجود ہیں جس کے مطابق برکس کو موجودہ اداروں کے لیے ایک قابل عمل متبادل تیار کرنے کے عزائم کو ممکنہ طور پر ناقابلِ تسخیر چیلنجوں کا سامنا بھی ہے۔
درحقیقت، برکس کوئی باضابطہ تنظیم نہیں ہے، بلکہ غیر مغربی معیشتوں کا ایک ڈھیلا بلاک ہے جو بڑے کثیرالجہتی گروہوں، جیسے کہ عالمی بینک، G7 اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے عالمی اداروں کا متبادل بنانا چاہتے ہیں۔
گروپ کی 2024 کی توسیع جغرافیائی سیاسی اثرات کی ایک حد کے ساتھ آتی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی معاشی اور آبادیاتی بوجھ کی نمائندگی کرتا ہے: دس برکس ممالک اب عالمی معیشت کے ایک چوتھائی سے زیادہ اور دنیا کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل ہیں۔ یہ گروپ غزہ کی پٹی اور یوکرین کی جنگوں، عالمی اقتصادی نظام کی شکل، چین اور مغرب کے درمیان مسابقت اور صاف توانائی کی طرف منتقلی کی کوششوں پر اثر و رسوخ رکھنے کے لیے تیار ہے۔برکس کی موضوعاتی ترجیحات، سب سے پہلے، عالمی تنظیموں میں زیادہ نمائندگی کی وکالت کرتی ہیں۔ گروپ کا مقصد موجودہ اداروں میں اصلاحات پر زور دینا اور ان اداروں کے اندر مذاکراتی بلاکس بنانا ہے۔ دوم، ایک متوازن اقتصادی پالیسی کو مربوط کرنا۔ 2008 کی عالمی کساد بازاری نے برکس ممالک کو سخت نقصان پہنچایا، جس کی وجہ سے گروپ نے ٹیرف پالیسی، اہم وسائل کی برآمدی پابندیوں اور سرمایہ کاری جیسے مسائل پر اقتصادی ہم آہنگی پر زور دیاہے۔تیسرا اور سب سے زیادہ اہم موضوع امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کے لیے ایک نئے عالمی ادائیگی کے نظام پر کام کرنا ہے۔
عالمی لین دین میں ڈالر کے تسلط کی بڑھتی ہوئی ناخوشی، جو انہیں مغربی پابندیوں سے دوچار کرتا ہے، برکس کے رہنماؤں نے طویل عرصے سے مقامی کرنسیوں یا یہاں تک کہ ممکنہ مشترکہ برکس کرنسی میں تجارت میں اضافے کے حق میں ڈالر کے خاتمے کی وکالت کی ہے۔اور آخر میں، ایک متبادل مالیاتی نظام بنانا۔ گروپ کے نیو ڈیولپمنٹ بینک (NDB) اور کسی خراب صورت حال سے بچنے کے لیے کسی متبادل ذرائع کو یکجاکرکے کسی نئے فند کو قائم کرنا (CRA)اور ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) کے متبادل فراہم کرنا ہے۔ برکس کے ارکان کو امید ہے کہ متبادل قرض دینے والے ادارے جنوبی تعاون کو تقویت دے سکتے ہیں اور فنڈنگ کے روایتی ذرائع پر انحصار کم کر سکتے ہیں۔ BRICS ممالک نے بین الاقوامی تجارت میں امریکی ڈالر کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش بھی کی ہے، بنیادی طور پر تجارت کے لیے اپنی کرنسیوں کے استعمال کو بڑھا کر، خاص طور پر چین کی رینمنبی یابرکس ڈالر کو متعارف کراکر۔
دریں اثنا، مغربی ممالک نے گروپ کی ترقی کو بڑی حد تک کم اہمیت دی ہے کیونکہ انھیں نہیں لگتا ہے کہ کوئی 20سال پرانی تنظیم 75سال پرانی عالمی تنظیم کو کیسے چیلنج دے سکتی ہے۔ وہائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا ہے کہ واشنگٹن برکس کو جغرافیائی سیاسی حریف کے طور پر نہیں دیکھتا، جب کہ وزیر خزانہ جینٹ یلین نے بڑی حد تک ڈالر سے دور جانے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔ اسی طرح جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے برکس ممبران کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو زیادہ اہمیت دی ہے۔پھر بھی، بعض یوروپی پالیسی سازوں نے خبردار کیا ہے کہ مغرب مخالف جذبات مزید تصادم کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ وہ برکس کی توسیع کو کم آمدنی والے ممالک کی ضروریات کے لیے مغربی ردعمل کے نتیجے میں دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کو سنجیدگی سے عالمی مالیاتی اداروں میں اصلاحات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
درحقیقت، اس سال کے سربراہی اجلاس کا اعلامیہ بہت کم کچھ نیا کہا جاسکتا ہے،لیکن اجلاس سے پہلے اور اس کے حاشیے میں متعدد دوطرفہ ملاقاتیں ہوئیں جو اس زیادہ اہم رہیں۔ ان میں سب سے اہم ملاقات ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ کے دوران ہوئی جنھوں نے پانچ سالوں میں پہلی بار آمنے سامنے بات چیت کی۔چین اور ہندوستان کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی برکس کے لیے ایک نئے عالمی نظام کے وژن کو تیار کرنے اور اپنے ترجیحی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مزید رفتار پیدا کر سکتی ہے۔ اس میں مضمر ہے کہ برکس میں قیادت کی ممکنہ تبدیلی جو کہ چین اور روس کے بجائے اب چین اور ہندوستان کی جانب آسکتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ممکنہ طور پر مغرب مخالف نظریے کے بجائے غیر مغربی ایجنڈے میں تبدیل کرنے کے عمل کو ظاہر کرتا ہے۔بظاہر یہ عالمی مشرق – روس، چین اور ایران کے ساتھ ساتھ غیر برکس اراکین شمالی کوریا، کیوبا اور وینزویلا میں مشترکہ نظریہ ہوسکتا ہے۔لیکن گلوبل ساؤتھ میں بہت سے ممالک – خاص طور پر ہندوستان اور برازیل – اس ایجنڈے کے ساتھ جانے کا امکان نہیں رکھتے ہیں۔ وہ مغرب کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے اپنی برکس رکنیت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے پر توجہ مرکوز کریں گے۔
جب مشرق اور مغرب کے درمیان توازن کی بات آتی ہے تو ہندوستان برکس میں سب سے اہم کھلاڑی ہے۔ تاہم، جیسا کہ تنظیم کی توسیعی مہم سے ظاہر ہوتا ہے کہ برکس میں اپنی مستقبل کی سمت کو لے کر ایک اندرونی جنگ بھی جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں، مغرب کے لیے بین الاقوامی نظام کی تشکیل نو کے جاری عمل میں زیادہ مثبت اور تعمیری اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لیے جگہ اور وقت درکار ہے۔ہو سکتا ہے کہ گلوبل ایسٹ یعنی کہ موجودہ مغربی ممالک اس کی زد سے باہر رہیں ، لیکن ہندوستان کی قیادت میں گلوبل ساؤتھ کے ساتھ دوبارہ جڑنے کا ایک بہت بڑا موقع ان ممالک کے پاس ہے ۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)