نئی دہلی :تجربہ گاہ میں ہونے والے ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ عموماً بچوں کو ابتدائی عمر میں دی جانے والی مشہور اینٹی بایوٹکس، پینسلین ( ایمپسلین اور اموکسو سیلین) سے جسم (بالخصوص معدے) کے اندر بیکٹیریا اور جرثومے کی کیفیات بدل جاتی ہے۔ یہ خردنامئے اور بیکٹیریا اربوں کھربوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ لیکن ساتھ ہی اینٹی بایوٹکس سے جینیاتی کیفیات پر بھی فرق پڑتا ہے۔ اس سے وہ خلیات متاثر ہوتے ہیں جو ابتدائی عمر میں دماغی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پینسلین سے وابستہ ادویہ بچوں کو دوسال کی عمر سے پہلے عام طور پر کھلائی جاتی ہیں اور امریکہ میں اس کے تین کورس کرائے جاتے ہیں۔ رٹگرز یونیورسٹی میں ایڈوانسڈ بایوٹیکنالوجی مرکز کے سربراہ مارٹِن بلیسر کہتے ہیں کہ انہوں نے بعض نومولود جانوروں پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ اگرچہ یہ ابتدائی کام ہے خردناموں کی تبدیلی اور دماغی نشوونما کے درمیان گہرا تعلق ظاہر ہوا ہے۔ اس ضمن میں چوہے کے ان بچوں کو پینسلین کی ہلکی خوراک دی گئیں جنہوں نے چند روز قبل آنکھ کھولی تھی۔ دوسرے گروہ کے بچوں کو اینٹی بایوٹکس نہیں دی گئی اور ان دونوں کا باہمی موازنہ کیا گیا۔ جن چوہوں کو پینسلین دی گئی ان کی آنتو ں میں خردناموں کی ترتیب بدلی اور دماغی قشر(کارٹیکس) اور ایمگڈالا کی تشکیل کرنے والے جین کا اظہار(ایکسپریشن) بھی بدل گیا۔ دماغ کے یہ دو گوشے بہت اہم ہیں، اول مقام پر حافظہ تشکیل پاتا ہے اور دوسرا گوشہ خوف اور دماغی تناؤ سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس بات کے گہرے ثبوت ملے ہیں دماغ میں خردناموں اور بیکٹیریا وغیرہ اور دماغی سگنل کے درمیان گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ اس طرح دماغ اور آنتوں کے درمیان گہرا تعلق پایا گیا ہے۔ ماہرین یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اینٹی بایوٹکس سے معدے اور آنتوں کے صحت مند خلیات جس طرح بدلتے ہیں ان کا اثر دماغ پر پڑتا ہے اور نومولود اپنے بچپن اور یا بلوغت میں اعصابی تنزلی اور دماغی نفسیات کے شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں آگہی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ لازمی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو بہت چھوٹے بچوں کو اینٹی بایوٹکس دینے سے گریز کیا جائے۔
کیا کم عمری میں اینٹی بایوٹکس دماغی نشوونما کو متاثرکرسکتی ہے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS