ریاض فردوسی
خلیفہ ولید بن عبد الملک نے 45 سال چند ماہ کی عمر میں نو سال آٹھ مہینے خلافت کرنے کے بعد ملک شام میں وفات پائی۔ ولید کے عہد خلافت میں سندھ، ترکستان، سمرقند، بخارا وغیرہ،اندلس، ایشیائی کوچک کے اکثر شہر و قلعے اور بعض جزیرے حکومت میں شامل ہوئے۔ ولید کے انتقال کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک بن مروان سال 715 ء میں دمشق میں خلافت کے مسند پر فائز ہوا اور صرف دو سال حکومت کرنے کے بعد 717ء میں انتقال کر گیا۔خلیفہ بننے سے پہلے وہ اپنے باپ اور بھائی کے دور حکومت میں فلسطین کا گورنر تھا اور اس نے رملہ شہر کی بنیاد ڈالی اور وہاں ایک سفید مسجد کی تعمیر کروائی۔
خلافت کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ہی سلیمان نے اپنے بھائی ولید کے مقرر کردہ گورنروں اور سپہ سالاروں کو جس کی وجہ سے اموی سرحدوں کی کافی توسیع ہوئی اور رقبہ میں اضافہ ہوا کو معزول کرناشروع کردیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹے عزیز کو خلیفہ بنانا چاہتا تھا۔ولید نے تمام صوبائی گورنروں کو عزیز کی ولی عہدی پر بیعت کرنے کا حکم دیا، لیکن سوائے حجاج بن یوسف جو عراق اور مشرقی علاقوں کا وائس رائے تھا اور قتیبہ بن مسلم جو خراسان کا گورنر اور وسط ایشیا کا فاتح تھا کسی نے بھی ولید کے اس تجویز کو تسلیم نہیں کیا۔ سلیمان کی تخت نشینی سے پہلے ہی حجاج بن یوسف انتقال کر چکا تھا، لیکن سلیمان کے دل میں اس کے لیے نفرت اور بغض برقرار تھی۔قتیبہ بن مسلم نے خراسان کی تمام فوج اور سرداران لشکر کو سلیمان کی بیعت کے خلاف گمراہ کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا۔لشکر نے لوٹ مار شروع کر دی اور قتیبہ کی ہر چیز کو لوٹنا اور جلانا شروع کیا۔قتیبہ کے جرم میں اس کے رشتے داروں نے قتیبہ کا سر اور اس کی انگوٹھی خراسان سے سلیمان بن عبدالملک کے پاس بھیجوا دی۔اسی طرح سلیمان نے حجاج بن یوسف کے بھتیجے اور داماد یعنی فاتح سندھ محمد بن قاسم کو بھی معزول کر دیا اور جذبۂ عداوت سے مغلوب ہو کر اس کی گرفتاری کا حکم دیا۔پھر اسے دمشق کے ایک جیل خانے میں انواع و اقسام کی تکلیفیں دے دے کر مار ڈالا۔اس کے بعد قیروان کا گورنر اور اندلس کا فاتح موسیٰ بن نصیر کو بھی معزول کر دیا۔اندلس کے فوراً فتح کے بعد خلیفہ ولید نے موسیٰ کو لکھا کہ تم اسپین میں کسی کو حاکم مقرر کرکے مع طارق بن زیاد میرے پاس واپس آو۔موسیٰ بن نصیر جب دارالخلافہ میں پہنچے تو ان کا قدر شناس خلیفہ ولید فوت ہو چکے تھے۔سلیمان موسیٰ کے ساتھ بجائے ان کے ساتھ عزت و قدردانی کا برتاؤ کرتے ان کو قید میں ڈال دیا اور اس قدر بھاری تاوان ان کے ذمہ عائد کیا جو موسیٰ کی استطاعت سے باہر تھی۔حج کے موقع پر موسیٰ حاجیوں سے ”تعز من تشاء و تذل من تشاء” پڑھ کر اپنے جرمانے کی رقم ادا کرنے کے لئے بھیک مانگا کرتے تھے۔یہ اندلس فتح کرنے کا انعام تھا؟ موسیٰ پر یہ الزام تھا جیسا کہ ابن خلدون نے بیان کیا ہے کہ جب موسیٰ بن نصیر خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کی خدمت میں حاضر ہو ئے تو خلیفہ نے موسیٰ کے اس ارادے پر اظہار ناراضگی کی کہ وہ یوروپ کے ملکوں کو فتح کرتے ہوئے قسطنطنیہ پہنچنا چاہتے تھے۔اس طرح وہ مسلمانوں کو خطرہ اور ہلاکت میں ڈالنے کی جرأت کرتے جارہے۔اس کے علاوہ موسیٰ بن نصیر اندلس کی حکومت اپنے بیٹے عبدالعزیز کو اور افریقہ و مراکش کی حکومت بھی اپنے دیگر بیٹوں کو سپرد کر کے آئے تھے۔اس لیے موسیٰ سے سختی کے ساتھ خلیفہ کا محاسبہ ہوا۔اتنا ہی نہیں موسیٰ بن نصیر کا لڑکا عبدالعزیز جسے موسیٰ نے اندلس کا گورنر مقرر کیا تھا خلیفہ سلیمان کے حکم پر اس کا قتل کر دیا گیا۔خلیفہ سلیمان کا موسیٰ کے ساتھ ناگوار سلوک کا علم جب امیر اندلس عبدالعزیز کو ہوا تو انہیں بہت صدمہ ہوا،مگر وہ خلیفہ کے خلاف کوئی لفظ زبان سے نہیں نکال سکتے تھے،لیکن وہ اندلس کو خلیفہ دمشق کی حکومت سے آزاد کرنے کی تدبیر میں مصروف ہو گئے۔بعد میں خلیفہ کو امیر عبدالعزیز کے منصوبوں کا علم ہو گیا۔جب امیر عبدالعزیز کے جرم بغاوت کی تصدیق ہو گئی تو خلیفہ سلیمان کے حکم پر عبدالعزیز کا قتل کر دیا گیا اور اس کا جسم جنوبی اسپین کے اشبیلیہ (Seville) میں دفن کرکے سر دمشق کی جانب بھیج دیاگیا۔طارق ابن زیاد کو بھی اسپین سے بلاکر غائب کروا دیاگیا۔اس کے علاوہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے عمال جس کی تقرری حجاج بن یوسف نے کی تھی ان کو بھی معزول کر دیا گیا۔خلیفہ سلیمان نے یزید بن مہلب پر بہت بڑا احسان کیا۔اس نے حجاج بن یوسف کے بیٹے عبداللہ بن حجاج کو معزول کرکے اس کے مقام پر یزید بن مہلب کو عراق کا گورنر بنایا۔اس سے پہلے ولید کے دور خلافت میں وہ خراسان کا گورنر تھا، لیکن حجاج نے اسے ہٹاکر اس کے بھائی مفضل بن مہلب کو گورنر بنا دیا، لیکن بعد میں اسے بھی معزول کرکے قتیبہ بن مسلم کو خراسان کا گورنر بنا دیا۔ حجاج نے صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ وہ یزید بن مہلب اور اس کے بیٹے کو قید کر دیا اور انہیں اذیت بھی پہنچاتھا۔کسی طرح یزید اپنی جان بچاکر وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے اور سیدھے فلسطین چلے گئے جہاں اسے سلیمان جو اس وقت فلسطین کے گورنر تھے نے امان دیا۔حجاج کے اصرار کے باوجود خلیفہ ولید نے اپنے بھائی سلیمان کی سفارش کو قبول کرتے ہوئے یزید بن مہلب کے فلسطین سے واپسی پر روک لگا دی تھی۔جب قتیبہ بن مسلم کا قتل ہو گیا تو سلیمان نے یزید بن مہلب کو دوبارہ خراسان کا گورنر مقرر کیا۔
خلیفہ ولید کے مقابلہ میں خلیفہ سلیمان کے عہد میں معمولی ملکی فتوحات ہوئے۔خراسان میں پہنچ کر یزید بن مہلب نے 716ء میں ایک لاکھ فوج کے ساتھ جرجان پر چڑھائی کی اور چالیس ہزار ترکوں کو معرکہ جنگ میں قتل کیا اور شہر جرجان کی بنیاد رکھی۔اس سے پیشتر جرجان کسی شہر کا نام نہ تھا بلکہ وہ ایک پہاڑی علاقہ تھا۔یزید بن مہلب نے ایک شہر آباد کیا جس کا نام جرجان مشہور ہوا۔اس کے بعد اس نے طبرستان کو فتح کیا۔جرجان اور طبرستان شمالی ایران میں بحر کیسپین (Caspian Sea) کے جنوبی ساحل پر واقع ہے۔بعد میں طبرستان اور پڑوسی خطوں کے ترک سرداروں نے ملکر یزید کی فوج کو شکست دی اور اس کو خطے سے نکلے پر مجبور کیا، جس کے نتیجے میں طبرستان سال 760 تک ایک آزاد خطہ بنا رہا جب تک عباسیوں نے اسے فتح نہ کیا۔
716ء سے 718ء تک قسطنطنیہ (Constantinople) کا محاصرہ ہوا۔ حج سے واپسی کے بعد سلیمان ملک شام کے شمال میں دابق کے مقام پر خیمہ زن ہوا اور اپنی فوج کو مرتب کیا،لیکن بیماری کے سبب بجائے خود آگے بڑھنے کے اپنے بھائی مسلمہ بن عبد الملک کو قسطنطنیہ کے محاصرہ کے لیے بھیجا۔ایک علیحدہ متوازی بحری فوج عمر بن ہبیرۃ الفزاری کی قیادت میں قسطنطنیہ پر حملہ کے لیے بھیجا گیا، لیکن قسطنطنیہ فتح نہیں ہوا۔ بازنطینی جنگی بیڑا اموی جنگی بیڑا کو اندر داخل ہونے سے روک دیا۔مجبوراً مسلمہ کو اپنی فوج کو قسطنطینہ کے محاصرہ سے واپس لانا پڑا۔ 24 ستمبر717ء کو سلیمان دابق میں آخری سانس لی اور وہیں مدفون ہوا۔سلیمان بن عبدالملک عدل و انصاف کا شوقین اور جہاد کا حریص تھا۔عہد بنو امیہ میں ایک بری رسم جاری ہو گئی تھی کہ وہ نماز عموماً دیر کرکے آخر وقت میں پڑھتے تھے۔سلیمان نے اس رسم کو مٹا کر نمازیں اول وقت پر پڑھنی شروع کیں۔اس نے گانے بجانے پر بھی پابندی عائد کی۔اپنی وفات سے پہلے سلیمان بن عبدالملک نے یہ وصیت کی کہ اس کے بعد اس کا چچازاد بھائی عمر بن عبد العزیز اور اس کے بعد اس کا بھائی یزید بن عبدالملک خلیفہ ہوگا۔ خلیفہ نے اس فرمان کو ایک بند لفافہ میں رکھ کر رجاء بن حیوہ سے کہا کہ باہر جاؤ اور لفافہ دکھاکر لوگوں سے کہو کہ امیر المومنین نے اس لفافہ میں ولی عہد کا نام لکھ دیا ہے۔جس شخص کا نام اس فرمان میں ہے اس کے لیے بیعت کرو۔جب رجاء بن حیوہ نے باہر جاکر لوگوں کو یہ حکم سنایا تو لوگوں نے کہا ہم بیعت اس وقت کریں گے جب ہم کو اس شخص کا نام بتا دیا جائے گا جس کا نام لفافہ میں درج ہے۔لیکن بعد میں جب خلیفہ کا یہ حکم سنایا گیا کہ جو شخص انکار کرے اس کی گردن اڑا دی جائے تو یہ حکم سنتے ہی سب نے بیعت کی اور چوں چراں نہ کیا۔
آخر میں!سلیمان کا کردار ایک معمہ تھا۔اس کے حوالے سے خدا ترسی، نیک نفسی اور رعایا پروری کی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جن کی وجہ سے اسے بالعموم ایک اصلاح پسند شخصیت مانا جاتا ہے۔اس نے حجاج کے مقرر کردہ ظالم عاملین سے عوام کو نجات دلائی، پینے کے لیے میٹھے پانی کا بندوبست کیا، ولید کے زمانہ کے قیدی رہا کر دیے گئے اور جیل خانوں کے دروازے کھول دیے گئے، لیکن ان کار ہائے خیر کے باوجود وہ بے حد کینہ پرور تھا۔ اس نے محض اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لیے دنیائے اسلام کے نامور سپہ سالاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اور کچھ کو ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ بہرحال اس کے دور کا سب سے اہم اور قابل قدر کارنامہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا بطور خلیفہ تقرر کرنا ہے اور اسی بناء پر مؤرخین اسے مفتاح الخیر کا لقب دیتے ہیں۔
[email protected]
خلیفہ(اموی بادشاہ) سلیمان بن عبدالملک اور سپہ سالاروں کی معزولی!: ریاض فردوسی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS