ضمنی انتخاب: اقتدار کے سنگھاسن پر لرزش: ڈاکٹر محمد فاروق

0

ڈاکٹر محمد فاروق

ملک کی چار ریاستوں میں پانچ اسمبلی نشستوں پر ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات نے ایک بار پھر اس سیاسی مقولے کو سچ ثابت کر دیا ہے کہ سیاست میں کوئی بھی کرسی مستقل نہیں اور اقتدار کا تانا بانا عوام کے موڈ اور فیصلوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ بظاہر غیرمرکزی حیثیت رکھنے والے ان ضمنی انتخابات نے درحقیقت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور اپوزیشن خیمے کیلئے تازگی کا جھونکا ثابت ہوئے ہیں۔

گجرات،جو بی جے پی کا ناقابل تسخیر قلعہ سمجھا جاتا رہا ہے،اس بار اسی مضبوط قلعے میں ایک شگاف پڑا ہے۔ کڑی سیٹ پر بی جے پی کے راجندر کمار چاوڈا نے اگرچہ 39,452 ووٹوں سے جیت حاصل کی،مگر ویساوادر سیٹ پر عام آدمی پارٹی کے گوپال اٹالیہ نے بی جے پی کے کیرتی پٹیل کو 17,500 سے زائد ووٹوں کے فرق سے شکست دے کر سیاسی نقشے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ وہی سیٹ ہے جو اے اے پی کے بھوپیندر بھیانی نے جیتی تھی، مگر بعد میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کرکے استعفیٰ دیا۔ عوام نے دوبارہ اعتماد اے اے پی پر کرکے نہ صرف پارٹی کے حق میں فیصلہ دیا بلکہ یہ بھی واضح کر دیا کہ خریدارانہ سیاست اب دیرپا نتائج نہیں دے سکتی۔

پنجاب کی لدھیانہ ویسٹ سیٹ پر اے اے پی کے سنجیو اروڑہ نے کانگریس کے بھارت بھوشن آشو کو 10,600 ووٹوں کے فرق سے شکست دے کر پارٹی کے زخموں پر مرہم رکھا ہے۔ یاد رہے،یہی پنجاب ہے جہاں کجریوال کو دہلی میں شکست کے بعد نئی امید کی تلاش تھی اور یہ کامیابی ان کیلئے سیاسی بقا کی ایک صورت بن کر ابھری ہے۔ پنجاب کی 117 نشستوں میں اے اے پی اب 92 پر قابض ہے، جب کہ کانگریس کی تعداد محض 18 رہ گئی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ریاستی سطح پر عوام نے ابھی تک کجریوال کی حکومت کو نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ آئندہ کیلئے بھی اسے اقتدار میں دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔

ادھر مغربی بنگال کی کالیا گنج سیٹ پر ترنمول کانگریس کی علیفہ احمد نے بی جے پی کے آشیش گھوش کو 49,755 ووٹوں کے زبردست فرق سے ہرا کر ممتابنرجی کیلئے نئی توانائی فراہم کی ہے۔ یہ وہی مغربی بنگال ہے جہاں بی جے پی نے مسلسل پروپیگنڈے، مذہبی قطبیت اور الزامات کی سیاست کے سہارے زمینی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی،مگر عوام نے ناصر الدین احمد کی بیٹی کو ووٹ دے کر بی جے پی کے عزائم خاک میں ملا دیے۔ اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ محض بیانیہ سے اقتدار نہیں ملتا،عوامی خدمت،مقامی ساکھ اور اجتماعی شعور وہ عناصر ہیں جو ووٹوں میں ڈھلتے ہیں۔

کیرالہ میں بھی نیلمبور سیٹ پر کانگریس کے آریدان شوکت نے 11,000 سے زائد ووٹوں سے جیت درج کی، جو بظاہر ایک ضمنی کامیابی سہی،مگر اس میں پرینکا گاندھی کی انتخابی مہم نے جو جوش پیدا کیا،وہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں بڑے سیاسی اشارے دے رہا ہے۔ یہاں یہ بھی اہم ہے کہ ایل ڈی ایف کے حمایت یافتہ سابق ایم ایل اے پی وی انور نے استعفیٰ دے کر ٹی ایم سی میں شمولیت اختیار کی،مگر پھر بھی جیت نہ سمیٹ سکے،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیرالہ میں پارٹی سے زیادہ امیدوار کا پس منظر اور کیمپ بدلنے کا تاثر عوامی فیصلے پر اثر انداز ہوتا ہے۔

ان پانچ سیٹوں پر مجموعی ووٹر ٹرن آؤٹ 50 سے 73 فیصد کے درمیان رہا،جو کہ ضمنی انتخابات کے تناظر میں خاصا قابل ذکر ہے۔ خاص طور پر پنجاب (51.33%)، گجرات (کڑی: 57.90%)، ویساوادر: (56.89%)‘کیرالہ (73.26%) اور مغربی بنگال (69.85%) میں عوامی شمولیت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سیاسی بیداری کا عمل اب تیز ہو چکا ہے اور ووٹر کسی بھی پارٹی کیلئے محفوظ نہیں رہا۔
سیاسی سطح پر سب سے بڑا دھچکا کانگریس کو گجرات میں لگا،جہاں دو سیٹوں پر ناقص کارکردگی کے بعد ریاستی صدر شکتی سنگھ گوہل نے اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ یہ قدم اگرچہ سیاسی وقار کا مظہر ہے،مگر یہ بھی واضح کرتا ہے کہ کانگریس کے تنظیمی ڈھانچے میں ابھی تک وہ استحکام نہیں آیا جو بی جے پی یا دیگر علاقائی پارٹیوں میں دیکھا جاتا ہے۔

دوسری طرف،بی جے پی کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ پانچ میں سے صرف ایک سیٹ پر کامیابی ملی۔ وہ بھی وہ نشست جو پہلے سے ان کے قبضے میں تھی۔ یعنی حقیقی معنوں میں پارٹی کو ایک نشست کا نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ وہی بی جے پی ہے جس نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں جارحانہ مہم اور طاقتور انتخابی مشینری کے ذریعے مرکز میں حکومت بنانے کی کوشش کی،لیکن ضمنی انتخابات میں اس کی زمین کھسکتی ہوئی نظر آئی۔

عام آدمی پارٹی،جو دہلی میں کراری شکست اور پنجاب میں ساکھ کے مسائل سے دوچار تھی،ان نتائج کے بعد ایک بار پھر میدان میں واپسی کرتی نظر آ رہی ہے۔ گوپال اٹالیہ اور سنجیو اروڑہ کی کامیابیوں نے اے اے پی کو وقتی سکون ہی نہیں دیا بلکہ سیاسی ساکھ میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ اس جیت نے دہلی میں عام آدمی پارٹی کی کھوئی ہوئی زمین کو کسی حد تک زرخیز ضرور بنایا ہے۔

اگر ان نتائج کو بڑے سیاسی منظرنامے میں دیکھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بی جے پی کے خلاف قومی سطح پر قائم ہونے والا ’انڈیا‘ الائنس اگرچہ ان ضمنی انتخابات میں باضابطہ متحد نہ تھا، پھر بھی عوام نے ہر ریاست میں مختلف اپوزیشن جماعتوں کو کامیابی دلا کر یہ عندیہ دیا ہے کہ ایک مربوط،متحدہ اور باہمی تعاون پر مبنی اپوزیشن ہی بی جے پی کے ناقابل شکست تاثر کو پاش پاش کر سکتی ہے۔

مختصراً، ان ضمنی انتخابات نے یہ پیغام دیا ہے کہ اگرچہ اقتدار کی گونج دار عمارتیں بلند ہیں،مگر ان کی بنیادیں اگر عوامی اعتماد سے خالی ہوں تو ایک چھوٹا سا زلزلہ بھی انہیں ہلا کر رکھ سکتا ہے۔ یہ نتائج محض انتخابی ہار جیت کا معاملہ نہیں، بلکہ سیاسی حکمت عملی، مقبولیت اور عوامی نفسیات کا آئینہ ہیں، جس میں اقتدار کے دعوے داروں کو خود کو بار بار دیکھنا چاہیے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS