مگر یہ دل نہیں تیار تیرے ماتم کو!

’انداز‘ کے دلیپ، ’دیدار‘ کے شیامو، ’دیوداس‘ کے دیوداس، ’پیغام‘ کے رتن لال، ’مغل اعظم‘ کے شہزادہ سلیم، ’گنگا جمنا‘ کے گنگا رام عرف گنگا، ’آدمی‘ کے راجیش؍راجہ صاحب، ’مشعل‘ کے ونود کمار، ’کرما‘ کے جیلر وشوناتھ پرتاپ سنگھ اور ’سوداگر‘ کے ٹھاکر ویرسنگھ کے کرداروں کو دیکھتے ہوئے کون یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ دلیپ کمار ہیں؟ ان کرداروں کی زبان، لہجہ، مکالمے کی ادائیگی کا انداز ان کے پس منظر کا تعارف پیش کر دیتا ہے۔ یہی دلیپ کمار کا کمال تھا۔ 7 جولائی، 2021 کو وہ دارفانی سے رخصت ہو گئے۔

0

ہردلعزیز اداکار دلیپ کمار کا اصل نام محمد یوسف خان تھا۔ ان کی پیدائش 11 دسمبر، 1922 کو پشاور میں ہوئی تھی۔ ان کے والد لالہ غلام سرورخان اور والدہ عائشہ بیگم تھیں۔ وہ بارہ بھائی بہن تھے مگر اولاد سے محروم رہے۔ لالہ غلام سرور خان فلموں میں کام کرنے کو کچھ اچھا نہ سمجھتے تھے۔ وہ پھلوں کے تاجر تھے مگر یوسف اپنی شناخت خود بنانا چاہتے تھے۔ وہ کمانے کا ذریعہ تلاش کر رہے تھے۔اسی سلسلے میں پونے، جو اب پنے کہلاتا ہے، کی برٹش آرمی کینٹین کے باہر سینڈوچ فروخت کرتے تھے۔ ان کے سینڈوچ کی بڑی شہرت تھی۔ یوسف شرمیلے تھے مگر حق بات کہنے سے جھجکتے نہیں تھے۔ ایک دن انہوں نے کہہ دیا کہ ہندوستان پر برطانوی حکمرانی غلط ہے اور جنگ آزادی صحیح ہے۔ انہیں حکومت مخالف تقریر کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہاں کئی اور مجاہدین آزادی بھی تھے۔ زندگی کی جدوجہد سے گزرتے ہوئے یوسف خان کو فلم ’جوار بھاٹا ‘ ملی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے والد کو فلموں میں کام کرنے کے بارے میں معلوم ہو۔ ادھر دیویکارانی نے بھی انہیں نام بدلنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کے سامنے تین نام پیش کیے گئے تھے۔ ان میں سے دلیپ کمار نام انہوں نے چنا۔ ’جوار بھاٹا‘ میں دلیپ نے جگدیش کا رول ادا کیا۔ یہ فلم 1944 میں ریلیز ہوئی۔ یہ ہٹ نہ ہوئی۔ دلیپ کمار کو لوگوں نے توجہ نہیں دی۔ رپورٹ کے مطابق، ’دلیپ کمار کے بارے میں ایک مضمون لکھنے والے سینئر صحافی رؤف احمد نے لکھا ہے کہ ’’جوار بھاٹا‘‘ کی ریلیز پر اس دور کی مقبول میگزین’’فلم انڈیا‘‘ کے ایڈیٹر بابو راؤ پٹیل نے لکھا تھا ، ’’فلم میں لگتا ہے، کسی کمزور اور بھوکے نظر آنے والے شخص کو ہیرو بنا دیا گیا۔‘‘ لیکن لاہور سے نکلنے والی میگزین ’’سنے ہیرالڈ‘‘ کے ایڈیٹر بی آر چوپڑا، جو بعد میں بہت بڑے فلمساز بنے، دلیپ کمار کی صلاحیات کا اندازہ لگا چکے تھے۔ انہوں نے اس فلم کے بارے میں لکھا کہ دلیپ کمار نے جس طرح اس فلم میں مکالموں کی ادائیگی کی ہے، وہ انہیں دیگر اداکاروں سے جدا کرتی ہے۔ ‘‘ اس طرح یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دلیپ کمار کے پہلی فلم کرنے کے بعد بی آر چوپڑا وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے ان کی خوبیوں کا اندازہ لگا لیا تھا، البتہ ان کا اندازہ 1947 سے صحیح ثابت ہونا شروع ہوا۔ یہ آزادی کا سال تھا، یہ سال دیش کی تقسیم کا سال بھی تھا۔ اسی سال دلیپ کمار کی پہلی فلم ہٹ ہوئی تھی اور یہ فلم ’جگنو‘ تھی اور اسی سال انہیں آبائی شہر چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا تھا، کیونکہ آبائی شہر پشاور ان کے پاکستانی بننے پر ہی رہتا مگر انہیں یہ منظور نہ تھا کہ وہ پاکستانی بن کر رہیں۔ انہوں نے اس وقت پاکستان کو نہیں، ہندوستان کو چنا۔ یہ بات الگ ہے کہ انہیںجب پاکستان کا سب سے بڑا شہری ایوارڈ نشان امتیاز دیا گیا تو اس وقت کئی لوگوں نے اس بات کا خیال نہیں کیا تھا کہ دلیپ کمار 1947 میں ہی پاکستان کو چھوڑ چکے ہیں، اب اگر اس کی طرف سے انہیں کوئی بڑا شہری ایوارڈ دیا جاتا ہے تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ اس سلسلے میں رشی کپور نے لکھا ہے کہ ’جب بال ٹھاکرے نے یوسف انکل کو تنگ کرنا شروع کیا، کیونکہ یوسف انکل نے پاکستان حکومت سے نشان امتیاز قبول کیا تھا، ان کے گھر کے باہر دنگے ہوئے اور وہ گھر میں محصور ہو کر رہ گئے اور شیو سینا کو لگام ڈالنے کے لیے کوئی آگے نہ آیا۔ یوسف انکل نے اس وقت کہا تھا کہ مجھے آج میرا دوست راج بہت یاد آرہا ہے۔ آج اگر راج زندہ ہوتا تو وہ کبھی ایسا نہ ہونے دیتا۔۔۔۔راج کبھی مجھ پہ یہ وقت نہ آنے دیتا اور بے خوفی سے میرا دفاع کرتا۔‘لیکن سیاست کی اپنی مجبوریاں ہیں، ورنہ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ بالاصاحب ٹھاکرے سے دلیپ کمار کے ایک عرصے تک دوستانہ مراسم رہے، اس لیے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنا ٹھیک نہیں۔ دلیپ کمار کی اصل پہچان بے مثال اداکار کی حیثیت سے ہے اور اسی حیثیت سے لوگ ان کی عزت کرتے ہیں۔ انہیں ’فرسٹ خان‘ اور ’ٹریجڈی کنگ‘ کہتے ہیں۔ ’شہنشاہ جذبات‘ مانتے ہیں مگر یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ محمد یوسف خان ایک دن میں دلیپ کمار نہیں بنے تھے۔ اس کے لیے انہیں بڑی مشقت کرنی پڑی تھی۔ غم زدہ آدمیوں کا کردار ادا کرتے رہنے کی وجہ سے ان کی صحت پر اثر پڑنے لگا تھا اور کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹروں نے انہیں ہلکی پھلکی فلمیں کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ دلیپ کے کامیڈی فلم ’آزاد‘ کرنے کی یہی وجہ تھی۔ بعد میں انہوں نے کئی اور کامیڈی فلمیں، مثلاً: ’رام اور شیام‘ ، ’گوپی‘ ، بھی کیں۔ ان فلموں میںبھی انہیں پسند کیا گیا۔ ’انداز‘ کے دلیپ، ’دیدار‘ کے شیامو، ’دیوداس‘ کے دیوداس، ’پیغام‘ کے رتن لال، ’مغل اعظم‘ کے شہزادہ سلیم، ’گنگا جمنا‘ کے گنگا رام عرف گنگا، ’آدمی‘ کے راجیش؍راجہ صاحب، ’مشعل‘ کے ونود کمار، ’کرما‘ کے جیلر وشوناتھ پرتاپ سنگھ اور ’سوداگر‘ کے ٹھاکر ویرسنگھ کے کرداروں کو دیکھتے ہوئے کون یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ دلیپ کمار ہیں؟ ان کرداروں کی زبان، لہجہ، مکالمے کی ادائیگی کا انداز ان کے پس منظر کا تعارف پیش کر دیتا ہے۔ یہی دلیپ کمار کا کمال تھا۔
سائرہ بانو سے محمد یوسف خان کی شادی 11 اکتوبر 1966 کو ہوئی تھی۔ اس وقت سائرہ 22سال کی تھیں، یوسف 44 سال کے۔ آخر تک ان کا ساتھ دے کر سائرہ بانو نے یہ بتا دیا کہ رشتے نبھانے میں فلم والے کسی سے پیچھے نہیں ہیں، البتہ 7 جولائی، 2021 کو محمد یوسف خان کے انتقال کے بعد وہ تنہا ہو گئی ہیں۔ محمد یوسف خان کی مغفرت کے ساتھ سائرہ بانو کے صبر کے لیے بھی دعائیں کی جانی چاہئیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS