محمد فاروق اعظمی
حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی اوراس کے لیڈران منافقت کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں۔ملک کے تعلیمی بجٹ میں ہر سال کٹوتی کرتے ہوئے اسے نچلی سطح پر لانے والی حکومت کے وزیرداخلہ انتہائی واضح الفاظ میں یہ کہتے ہیں کہ ناخواندہ افراد ملک پر بھاری بوجھ کی طرح ہیں۔ گزشتہ سات برسوں کے دوران نہ صرف تعلیم کا بجٹ کم کیاگیا ہے بلکہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کو ملنے والی سرکاری اعانت میں بھی بھاری پیمانے پر کٹوتی کی گئی ہے۔ تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم کو اتنا مہنگاکردیاگیا ہے کہ وہ عام آدمی کی رسائی سے دور ہے۔ اسکول ، کالج اور یونیورسیٹیوں کی فیس میں بے تحاشا اضافہ کرکے غریب اور متوسط طبقہ کو اس کے حصول سے بازرہنے کا سامان کردیاگیا ہے۔ان سب کے باوجود وزیرداخلہ امت شاہ تعلیم کی اہمیت پر لکچر دیتے ہوئے ناخواندہ افراد کوملک پر بوجھ بتارہے ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی کی اقتدار میں دو دہائی مکمل ہونے پر بھارتیہ جنتاپارٹی کی جانب سے 17 ستمبر سے 7 اکتوبر 2021 تک چلائی گئی خصوصی مہم کے دوران وزیرداخلہ امت شاہ نے سرکاری ٹیلی ویژن سنسد ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے یوں تو کئی باتیں کہیں اور وزیراعظم مودی کی حصولیابیوں کاذکر کرتے ہو ئے ان کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کردیے۔تاہم اس دوران انہوں نے چند ایسی باتیں بھی کہیں جن کی حقیقت سامنے آنی ضروری ہے۔ وزیرداخلہ امت شاہ نے اس انٹرویو میں کہا کہ نریندر مودی ڈکٹیٹر نہیں ہیں بلکہ ان جیسا جمہوری لیڈر آج تک ہندوستان میں کبھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ مودی جی ہر اہم فیصلہ سب سے مشورہ کرکے لیتے ہیں۔وہ ضدنہیں بلکہ جوکھم اٹھاکر فیصلہ لیتے ہیں اور ان کے ہر فیصلہ کا مقصد تبدیلی لانا ہوتا ہے۔
وزیراعظم مودی کی تعریف کرتے ہوئے امت شاہ شاید یہ بھول گئے کہ یہ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، غیر منظم لاک ڈائون، زرعی قوانین جیسے فیصلے بھی مودی جی کی ہی حکومت نے کیے تھے اور آج تک پوراہندوستان اس فیصلہ کی وجہ سے اضطراب سے گزررہاہے۔ 5کھرب امریکی ڈالر کی معیشت کا ذکر کرتے ہوئے بھی شاید امت شاہ نے اس بات پر توجہ نہیں دی کہ آج ملک میں مہنگائی و بے روزگاری بے لگام ہوگئی ہے۔ ہندوستان میں تبدیلی لانے کے مقصد سے مودی جی کے ہی فیصلوں کا اثر ہے کہ آج پٹرول اور ڈیژل کی قیمت 105 روپے فی لیٹر ، سرسوں کا تیل 200روپے فی لیٹر اور گندم 46روپے فی کلو ہے، سبزیاں اور دالیں عوام کی رسائی سے دور ہوگئی ہیں۔ رسوئی گیس ایک ہزار روپے فی سیلنڈر بک رہاہے۔
مودی جی کو ہندوستان کا سب سے بڑا جمہوری لیڈر بتانے کی کوشش کے ساتھ اس انٹرویو میں امت شاہ نے دوسری بات جو کہی وہ تعلیم کے تعلق سے تھی۔امت شاہ نے کہا کہ ایک ناخواندہ آدمی ملک پر بھاری بوجھ کی طرح ہے ، وہ نہ تو آئین میں دیے گئے اپنے حقوق کو سمجھتا ہے اور نہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے واقف ہوتا ہے اور نہ ہی ملک کا ایک اچھا شہری بن سکتا ہے۔تعلیم کے حوالے سے انہوں نے گجرات ماڈل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی حکومت نے جس طرح گجرات کو ترقی سے جوڑا وہ ملک کی دیگر ریاستوں کیلئے ایک مثال ہے۔تعلیم کے حوالے سے گجرات میں بہت سے کام کیے گئے ہیں، دوسری ریاستوں کو چاہیے کہ وہ اس کا تجزیہ کریں اور اس پر عمل کرکے اپنے یہاں تعلیمی انقلاب لے آئیں۔ بظاہر امت شاہ تعلیم کی اہمیت کے بارے میں درست کہہ رہے ہیںلیکن یہ کھلی ہوئی منافقت ہے۔اس سے سبھی واقف ہیں کہ گزشتہ سات برسوں کے دوران مودی حکومت نے کوئی ایک ایساکام نہیں کیا ہے جو عوام کو تعلیم سے جوڑنے کا موجب بن سکے۔اس کے برخلاف تعلیم ہندوستان کے عام غریب اور متوسط طبقہ سے دور ہوتی گئی ہے۔ ملک کا تعلیمی بجٹ دھیر ے دھیرے کرکے اتنا کم ہوگیا ہے کہ اب تعلیمی اداروں کو گرانٹ ملنا تقریباً بند ہے۔ فیس میں بے تحاشا اضافہ کے ساتھ ساتھ طلبا کے فیلو شپ میں کٹوتیوں کا ریکارڈ بن گیا ہے۔ تعلیم پر اخراجات کے حوالے سے ہندوستان میں صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ بحیثیت ملک ہندوستان تعلیم پر اخراجات کے لحاظ سے دنیا میں ایک سو چھتیسویں نمبر پر ہے۔ جاپان اور کیوبا جیسے ممالک اپنے بجٹ کا دس فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں ناروے، نیوزی لینڈ، برطانیہ، امریکہ اور کئی دیگر یوروپی ممالک اپنی کل گھریلو پیداوار یعنی جی ڈی پی کا6فیصد سے زیادہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ جب کہ ہندوستان میں یہ شرح 2.88فیصد ہے۔ تازہ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں مودی حکومت نے ہندوستان کی کل گھریلو پیداوار کا سالانہ اوسط 2.88فیصد خرچ کیا ہے۔ یوپی اے کی حکومت میں تعلیم پر ہونے والے قومی اخراجات کا سالانہ جی ڈی پی کا کل 3.19 فیصد تھا۔ 2014-15 میں تعلیمی اخراجات پر حکومت 3.4 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرتی تھی جسے 2018-19 میں بڑھا کر 5.6لاکھ کروڑ روپے کیاگیا یعنی پانچ برسوں میں60فیصد کا اضافہ کیاگیا جب کہ 2009-10 میں تعلیم پرکل اخراجات 1.9لاکھ کروڑ روپے تھے یوپی اے 2کی حکومت نے اس رقم میں77فیصد کاا ضافہ کرتے ہوئے 2013-14میں 3.48لاکھ کروڑروپے کیا تھا۔ یوپی اے حکومت کے دور میں 2009-10 میں تعلیم پر جی ڈی پی کا3.1فیصد، 2010-11 میں 3.2 فیصد ، 2011-12 میں 3.17فیصد، 2012-13 میں 3.6 فیصد اور 2013-14 میںکل گھریلو پیدوار کا3.1فیصد تھا جب کہ این ڈی اے کی مودی حکومت کے دوران یہ مسلسل کم ہوتا رہا ہے۔ 2014-15 میں2.84، 2015-16 میں 2.85، 2017-18میں 2.88 اور 2018-19 میں جی ڈی پی کا فقط 2.98فیصد تھا۔کم و بیش یہی صورتحال 2019-20اور رواں مالی سال میں بھی ہے۔
ایک ایسی حکومت کو جو ہر سال تعلیمی بجٹ میں تخفیف کرتی رہی ہو اور اس کے وزیرداخلہ یہ فرمائیں کہ ناخواندہ شہری ملک پر بوجھ ہیں اور وہ کبھی اچھے شہری نہیں ہوسکتے ہیں تو اسے منافقت کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیاجاسکتا ہے۔ ٹیلی ویزن کے سامنے بیٹھ کر ہوائی قلعہ بنانے اور فلسفہ بگھارنے سے ہندوستان کا شہری خواندہ اور تعلیم یافتہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر حکومت واقعی اچھے شہری کی خواہش مند ہے تو اسے ہندوستان میں صد فیصد خواندگی کا ہدف حاصل کرنا ہوگا۔ یہ ہدف وزارت فروغ انسانی وسائل کا نام بدل کر وزارت تعلیم کرنے سے بھی نہیں حاصل ہوگا بلکہ اس کیلئے تعلیمی اخراجات کی مد میں معقول اضافہ کرکے نئے تعلیمی منصوبے اور پروجیکٹ شروع کرنے ہوں گے۔ کالجوں اور یونیورسیٹیوں کی گراں ہوتی فیس کو کم کرنا ہوگا۔ ایک ایسا نظام وضع کرنا ہوگا جس میں غریب اور متوسط طبقہ کے ہندوستانیوں کو بھی یہ حق ہو کہ وہ بغیر کسی مالی رکاوٹ کے تعلیم حاصل کر سکیں۔ کالج، یونیورسٹیوں کی گرانٹ میں اضافہ کرنا ہو گا ، طلبا کی بند اسکالر شپ کی مد میںافراط زر کی شرح سے معقول اضافہ بھی ضروری ہے تاکہ طلبا یکسوہوکر تعلیم حاصل کرسکیں۔یہ سب کام کیے بغیر ناخواندہ شہریوں کو ملک پر بوجھ بتانا کھلی منافقت ہے۔ناخواندہ شہری نہیں بلکہ اخراجات میں کٹوتی کرکے شہریوں کو تعلیم سے دور رکھنے والی حکومت ہی دراصل ملک پر بوجھ ہوتی ہے۔
[email protected]