اترپردیش میں پھر بلڈوزر

0

قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے نام پر اترپردیش میں حکمرانوں کا جبر اپنی انتہا کو پار کرگیا ہے۔کچی جھونپڑی بچانے میں ناکام بہو بیٹیاں زندہ جل کر موت کو گلے لگارہی ہیں تو مائوں کی کوکھ اجڑ رہی ہیں۔ لیکن حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑرہاہے اور اس غیر آئینی عمل کو قانون کا نفاذ کہہ کر اپنی پیٹھ تھپتھپانے اور تالیاں بٹورنے میں مصروف ہے۔ تازہ واردات کانپور کی ہے جہاںکے ایک گائوں میں تجاوزات ہٹانے پہنچی ضلعی انتظامیہ کی ٹیم نے ایک خاندان کی جھونپڑی پر بلڈوزر چلایا،اسی دوران آگ بھڑک اٹھی اور ماں بیٹی اس میں جھلس کر ہلاک ہوگئیں۔ اس واقعہ کا ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے، ویڈیو میںآگ کے بلند شعلے نظرآرہے ہیںتو بچائو بچائو اور رونے پیٹنے کی آوازیں بھی آرہی ہیں۔یہ جھونپڑی کرشن گوپال دکشت کی تھی اور ہلاک ہونے والی اس کی بیوی اوراس کی23سالہ جوان بیٹی ہے۔ اس ظالمانہ واردات کی سنگینی کم کرنے کیلئے کہاجارہا ہے کہ کرشن گوپال کی بیوی اور بیٹی نے احتجاجاً خود کو آگ لگاکر خودکشی کرلی جب کہ دوسری جانب کرشن گوپال اور گائوں کے لوگوں کا سنگین الزام ہے کہ پولیس نے جھونپڑی کو آگ لگائی جس کی وجہ سے دونوں خواتین کی موت ہوگئی۔چار افراد کے اس خاندان میں اب صرف جھلسے ہوئے باپ بیٹا رہ گئے ہیںاور وہ بھی اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑرہے ہیں۔
غنڈہ اور مافیا راج ختم کرنے کیلئے اترپردیش حکومت کی ’بلڈوزر پالیسی‘ اورا نہدامی کارروائی کا دائرہ اس سے پہلے چند مخصوص طبقات تک ہی محدود تھا،چند حلقوں کی جانب سے اس غیر آئینی کارروائی کی پذیرائی بھی ہوئی اور اسے یوگی حکومت کی ایک بہت بڑی حصولیابی اور امن و امان کے قیام کی صحت مند کوشش قرار دیاگیا۔ان ہی سطور میں چند ماہ قبل ہم نے لکھا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر کارروائی کو ایک ’مضبوط حکومت‘ کا مثالی ’ حسن انتظام‘ سمجھنا غلط ہے۔ یہ کھلا ظلم اور ناانصافی ہے،جب ظلم و بربریت کی آگ پھیلتی ہے تووہ اکثریت واقلیت اورا پنے پرائے میں کوئی تمیز نہیں کرتی ہے،سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔آج وہی ہورہاہے،گزرتے وقت کے ساتھ بلڈوزر پالیسی نے اپنے دائرہ میں دوسروں کو سمیٹنا شروع کردیا ہے۔کانپور دیہات کے مڈولی گائوں میں ہونے والی یہ انہدامی کارروائی یا انتظامیہ کی مجرمانہ واردات،پالیسی کی اسی توسیع کا نتیجہ ہے۔
کانپور کے اس مڈولی گائوں اورا طراف میں ابھی بھی کشیدگی پھیلی ہوئی ہے۔ گائوں والے بضد تھے کہ مہلوکین کی آخری رسومات ان کے گائوں میں ہوں گی۔پولیس انہیں سمجھانے میں ناکام رہی تو ریاست کے نائب وزیراعلیٰ برجیش پاٹھک نے اہل خانہ سے بات کرکے انہیں گائوں کے باہر لاشیں جلانے پر رضامند کرلیا۔ پولیس نے جنازے کو کاندھا دے کر ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔ اب متاثرہ خاندان کیلئے معاوضہ، سرکاری نوکری اور مکان کا مطالبہ کیاجارہاہے، ممکن ہے کہ حکومت عوا م کے غصہ کو ٹھنڈاکرنے کیلئے مطالبہ ماننے کا اعلان بھی کردے لیکن ان سب سے نہ تو تجاوزات روکے جاسکتے ہیں اور نہ جرائم پر قابو پایاجاسکتا ہے۔اترپردیش کے امن و قانون پر لگنے والے اس بدنما داغ کو دھونے کیلئے سردست 42افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے ایس ڈی ایم کو معطل اور لیکھ پال و جے سی بی ڈرائیور کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
ضلع اور تحصیل کی سطح کے چھوٹے افسران کے خلاف یہ کارروائی پالیسی میں کسی بہت بڑی تبدیلی کا سبب بھی نہیں بن سکتی ہے اور نہ ہی اس سے متاثرہ خاندان کو انصاف مل سکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ حکمرانوں کی ذہنیت بدلی جائے، انہیں یہ سمجھایاجائے کہ وہ اس ملک اور زمین کے مالک نہیں بلکہ منتظم ہیں۔ ایک منتظم کی حیثیت سے ان کے کچھ حدود طے کیے گئے ہیں، ان حدودو کی پاسداری پر انہیں مجبور کرنا عوام کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کے غیرآئینی اور ماورائے قانون اقدام پر اگرپہلے ہی دن سول سوسائٹی مذہبی امتیاز سے بالاتر ہوکر اس کی مخالفت کرتی تو انتظامیہ کو یہ ہمت نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ کسی کی جھونپڑی پر بزن بول کر غریب ماں بیٹی کو رزق آگ بنادے۔
غنڈہ اور مافیا راج ختم کرنے اورتجاوزات ہٹانے کیلئے ضروری ہے کہ قانون کی بالادستی قائم کی جائے۔بغیر کسی امتیازخرد وکلاں اور حاکم و محکوم سبھی خود کو قانون کا پابند کریں۔آئین اورقانون کی طے کردہ حدود سے باہر نکل کر اٹھایاجانے والا ہر قدم چاہے وہ حکومت اٹھائے یا انتظامیہ اور پولیس افسران صریحاً خلاف قانون اور جبر و ظلم ہوتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اب اترپردیش میں ظلم کا یہ باب بند ہوجانا چاہیے۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS