ڈاکٹر جاوید عالم خان
بجٹ آنے والے سال کے اخراجات کی تفصیل اور مختلف ذرائع سے مالی وسائل کو جمع کرنے کیلئے تیار کیا گیا ایک دستاویز ہے۔ مرکزی حکومت کا مالی سال 2024-25 کیلئے مکمل بجٹ آنے والے مانسون اجلاس یعنی23جولائی کو پیش کیا جائے گا۔ بجٹ مشاورت کے دوران ملک کے تمام طبقات مرکزی حکومت سے اپنی توقعات کو پورا کرنے کیلئے درخواست کررہے ہیں، ان میں سب سے اہم توقع آئندہ بجٹ میں یہ ہے کہ ٹیکس کے بوجھ، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان عوام کو راحت دی جائے۔ پالیسی تجزیہ نگار اور پالیسی سازی میں شامل افراد بھی اس بات کی وکالت کررہے ہیں۔ ان کی اس وکالت کے پیچھے یہ دلیل ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء اور صنعت یا خدمات کے شعبے میں سامان کی طلب میں گزشتہ کئی سالوں میں کافی کمی دیکھنے کو ملی ہے جس کی بڑی وجہ عوام پر ٹیکس کا بڑھتا ہوا بوجھ ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ مرکزی حکومت کے ذریعے بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکس کا نفاذ کیا جاتاہے۔ بالواسطہ ٹیکس کے تحت آمدنی پر ٹیکس اور کمپنیوں کے منافع پر ٹیکس شامل ہوتے ہیں، وہیں بلاواسطہ ٹیکس کے تحت سامان اور خدمات پر ٹیکس یا جی ایس ٹی آتا ہے۔ اس کے علاوہ برآمدات اور درآمدات پر بھی ٹیکس نافذ کیا جاتاہے۔ بالواسطہ ٹیکس کے تحت ایکسائز ڈیوٹی یا کمپنیوں کی پیداوار کی یونٹ پر بھی ٹیکس لاگو کیا جاتاہے۔ اگر حکومت کی مجموعی آمدنی کا تجزیہ کیا جائے تو انکم ٹیکس سے کل آمدنی کا19فیصد، جی ایس ٹی سے 18فیصد، کارپوریشن ٹیکس سے17فیصد، کسٹم سے4فیصد، ایکسائز ڈیوٹی سے5فیصد، اثاثوں کی فروخت سے 1فیصد، غیر ٹیکس آمدنی سے7فیصد اور قرضوں سے28فیصد حاصل کیا جاتا ہے۔
اس وقت مرکزی وزارت خزانہ سے آمدنی پر ٹیکس یا جی ایس ٹی کے ڈھانچے میں تبدیلی کرنے کیلئے کئی سرکاری اور غیرسرکاری تنظیموں کے ذریعہ سفارش کی جارہی ہے اور جی ایس ٹی کی شرح میں تخفیف کرنے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ اگر حکومت جی ایس ٹی کی شرح میں تخفیف کرتی ہے تو عوام کے خرچ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ حالانکہ مرکزی وزارت خزانہ کی دلیل یہ ہے کہ یہ مطالبہ اس بجٹ میں پورا کرنا ممکن نہیں ہے جس کی کئی ساری وجوہات ہیں۔
اس سلسلے میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جی ایس ٹی کی شرح میں اضافہ یا تخفیف کا فیصلہ جی ایس ٹی کاؤنسل کی میٹنگ میں اتفاق رائے سے ہی لیا جاتا ہے اور اس میں صوبوں کے رائے مشورے کے بعد ہی فیصلہ لیا جاتا ہے۔ جی ایس ٹی کاؤنسل کی اگلی میٹنگ بجٹ کے بعد ہی متوقع ہے۔ جہاں تک جی ایس ٹی کی شرح میں تخفیف کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں کئی سارے تجزیہ نگاروں کی را ئے یہ ہے کہ اس سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو مالی نقصان ہوگا، اس لیے جی ایس ٹی کے شرح میں تخفیف کا امکان کم ہے۔ جی ایس ٹی کاؤنسل کی گزشتہ کئی میٹنگوں میں جی ایس ٹی شرح کی تخفیف پر بحث ہوچکی ہے۔ اس سال فروری کے مہینے میں بہار کے نائب وزیراعلیٰ کو جی ایس ٹی کاؤنسل کا کنوینر بنایا گیا تھا، اس کمیٹی میں کئی دوسرے صوبوں کے وزیر خزانہ بھی شامل ہیں وہ صوبے ہیں اترپردیش، گوا، راجستھان، مغربی بنگال، کرناٹک اور کیرالہ۔
نجی اخراجات اشیاء کی طلب کیلئے ایک بڑا اشاریہ ہے۔ اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ گھریلو خام پیداوار یعنی جی ڈی پی کی شرح میں اس کا حصہ53فیصد ہے جوکہ 2011-12 کے بنیادی انڈیکس کے مطابق اب تک سب سے کم ہے۔ اسی طرح سے گزشتہ دو دہائیوں میں نجی اخراجات میں اضافہ 2023-24میں کافی سست روی کے ساتھ ہوا ہے جوکہ صرف4فیصد ہے۔ حالانکہ کورونا وبا کے دوران یہ اور بھی کم ہوگیا تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ کئی سالوں میں مہنگائی یا افراط زر کی شرح میں اضافہ بھی لوگوں کے نجی اخراجات میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ بڑھتے ہوئے افراط زر کے پیچھے کہیں نہ کہیں خراب ٹیکس پالیسی کے نفاذ کا رول بھی رہاہے اور اس سلسلے میں جی ایس ٹی کی بڑھتی ہوئی شرح ایک بڑی وجہ ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت جی ایس ٹی کی شرح میں تخفیف کرے یا پھر وہ آمدنی پر ٹیکس کی شرح کو گھٹائے۔ جی ایس ٹی کی شرح میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ملک کے تمام طبقات کے گھریلو بجٹ متاثر ہوتے ہیں جبکہ آمدنی ٹیکس کے اضافے سے ایک مخصوص طبقے پر بوجھ پڑتا ہے۔ یہاں پر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت آمدنی ٹیکس کے نچلے بریکٹ کے لوگوں کو اس بجٹ میں کچھ راحت دے سکتی ہے۔ آئندہ بجٹ میں مرکزی وزیر خزانہ کا سب سے اہم ہدف مالیاتی خسارے کو کم کرنا ہے۔2024-25کیلئے یہ ہدف جی ڈی پی کی شرح میں1.5فیصد رکھا گیا ہے، وہیں مرکزی حکومت یہ ہدف2025-26میں گھٹا کر جی ڈی پی کی شرح میں4.5فیصد رکھنا چاہتی ہے، اس لیے اگر حکومت ٹیکس کے شرح میں تخفیف کرتی ہے تو مالیاتی خسارے کا ہدف پورا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کی یہ پوری کوشش ہے کہ حکومت ٹیکس سے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل کو جمع کرے ناکہ قرضوں کے ذریعہ۔
حالیہ بجٹ مشاورت کے دوران صنعت کاروں کی تنظیم سی آئی آئی نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اینجل ٹیکس کو ختم کیا جائے۔ دراصل اینجل ٹیکس کا نفاذ اسٹارٹ اپ یا نئی کمپنیوں کی سرمایہ کاری پر نافذ کیا جاتاہے، اس کی شروعات2012 میں کی گئی تھی۔ سی آئی آئی کا یہ کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں اس ٹیکس کے بوجھ کی وجہ سے تقریباً100انڈین اسٹارٹ اپ نے اپنے15ہزار ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کردیا ہے۔ سی آئی آئی کے اینجل ٹیکس کے خاتمے کے مطالبے کی مرکزی حکومت کے ایک اہم شعبہ ڈی پی آئی آئی ٹی نے بھی حمایت کی ہے، دراصل یہ شعبہ صنعت اور اندرونی تجارت کو فروغ دینے کیلئے کام کرتا ہے۔ آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم سودیشی جاگرن منچ نے حکومت سے روبوٹ ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ دراصل روبوٹ ٹیکس کا مطالبہ اس لیے کیا جارہا ہے کہ آرٹی فیشیل انٹلیجنس کے عمل میں آنے کی وجہ سے لوگوں کی نوکریاں بہت تیزی سے ختم ہورہی ہیں۔ روبوٹ ٹیکس کے ذریعہ حاصل کی گئی آمدنی کو بے روزگار لوگوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ سودیشی جاگرن منچ نے اثاثوں پر بھی ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا ہے، اس کا یہ کہنا ہے کہ خالی پڑی ہوئی زمینوں پر جن کا مالکانہ حق ہے، وہ بھی ٹیکس ادا کریں۔
یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک کے مرکزی بینک ریزرو بینک آف انڈیا نے اس سال مرکزی حکومت کو2.11لاکھ کروڑ ڈویڈنڈ (Dividend) یا اپنے منافع کا حصہ ٹرانسفر کیاہے جس کو مرکزی حکومت اپنے بجٹ میں مالیاتی خسارے کو کم کرنے کیلئے استعمال کرسکتی ہے۔ وہیں دوسری جانب آر بی آئی کے ذریعے حاصل کیے گئے ڈویڈنڈ کو اثاثہ جاتی اخراجات میں استعمال کر سکتی ہے۔ چونکہ جلد ہی وزیراعظم نیتی آیوگ کی گورننگ کاؤنسل میں ملک کو 2047تک وکست بھارت بنانے کا اعلان کرنے والے ہیں، اس لیے سوشل سیکٹر کی اسکیموں پر اخراجات کو بھی بڑھانا ضروری ہے جس سے عوام کو صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے میدان میں اس بجٹ سے زیادہ مدد مل سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت آئندہ بجٹ میں وکست بھارت کے روڈ میپ کے مطابق ٹیکس اور اخراجات سے متعلق پالیسی پر زیادہ زور دے گی، لیکن عوام کو حکومت سے یہ امید ہے کہ ٹیکس کی شرح میں تخفیف کی جائے، مہنگائی کی شرح کو کم کیا جائے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں جس سے ان کی زندگیوں میں آسانی پیدا ہو سکے۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈوکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]