1947 میں اپنے قیام کی تین دہائیوں سے پہلے ہی پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ پاکستان جو کہ مذہب اور علاقایت کی تنگ اساس پر قائم ہوا تھا اس کا ایک بڑا حصہ ٹوٹ کر الگ ہوگیا۔ یہ تجربہ ان تمام بنیاد پرست ، تنگ ذہن عناصر کے لیے سامان عبرت ہے جو کہ معمولی اختلافات رہن سہن کے نظریے اور زبان کے جدا ہونے پر ہی الگ ملک کے قیام کی بات کرنے لگتے ہیں۔
پاکستان کی تحریک جو کہ بظاہر مذہب کی بنیاد پر پیدا ہوئی اور پنپی تھی۔ اس نے جلد ہی ثابت کردیا کہ یہ ملک قائم ہی ایک منفی اساس پر ہوا ہے اور کوئی بھی بڑی طاقت تنگ نظری پر زیادہ دن تک قائم نہیں رہ سکتی۔ 1971-72میں پاکستان اپنے انتشار کے جس صدمے سے دوچار ہوا تھا اس کا بدلہ وہ ہندوستان کو بانٹے اور اس کی علاقائی سلامتی کو ختم کرکے لینا چاہتا ہے۔ مگر تمام تر کوششوں شرپسندی اور تخریب کاری کے باوجود ہمارا شرپسند پڑوسی اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
پنجاب ہندوستان کا دل ہے اور یہ علاقہ پاکستان سے ملا ہوا ہے ۔ پنجاب کے لوگ انتہائی جرأت مند اور محنتی ہوتے ہیں مگر اس شاندار اور بلند حوصلہ قوم کو سبز باغ دکھا کر پاکستان اپنی دل کے پھپھوڑے پھوڑناچاہتا ہے۔ 1980کے دہائی میں پنجاب میں علیحدگی پسندی کی تحریک نے ہمارے ملک کو بڑے صدمات سے دوچار کیا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان میں سوویت یونین کی فوج نے اقتدار میں پر قبضہ کرلیا تھا اور طالبان نام کی ایک جنگجو تحریک ابھر کر سامنے آئی جس نے سوویت یونین کو ایسی دھول چٹائی کہ اس سپر پاور کو مجبور ہو کر افغانستان چھوڑنا پڑا۔ افغانستان میں خارجی مداخلت کا وہ دور شروع ہوا پورا ملک بدترین خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔ یہ صورت حال کسی ایسے ملک کے لیے بڑی تباہ کن ہوتی ہے جہاں منشیات کی زراعت وافر مقدار میں ہوسکتی ہو۔
افغانستان میں افرا تفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے کچھ طبقات نے وہاں سے بڑے پیمانے پر منشیات کو ہندوستان میں منتقل کرنا شروع کردیا اور پاکستان سے ملا ہونے کے سبب پنجاب سب سے پہلے اس کی زد میں آیا۔ منشیات کے دھندے سے ملنے والی رقم اور دولت سے ایشیا کے اس پورے خطے کی دہشت گردانہ انڈسٹری کو فروغ ملا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک بڑا طبقہ منشیات کا عادی ہوگیا۔ منشیات کا کاروبار منظم ہوگیا۔ یہ صورت حال ہندوستان کے لیے انتہائی خطرناک اس لیے ہوگئی کہ پنجاب میں انتہا پسندی کو فروغ ملا اس کے پس پشت اور ایسے ہماری ایجنسیاں اور طاقتیں اس انتہا پسندی کو دبانے میں لگ گئیں۔ 1984میں گولڈن ٹیمپل پر ہندوستانی فوج کی کارروائی نے علیحدگی پسندوں کو جوش دیا اور حالات ہندوستان کی مرکزی اور ریاستی سیاست پر مرتب ہونے لگے۔ ہندوستان میں دہشت گردی کا وہ دور شروع ہوا جس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی دوران وزیراعظم اندرا گاندھی سفاکانہ قتل ہوا اور اس کے بعد جو صورت حال بنی اس کے بارے میں تاریح بھری پڑی ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کے باوجود سیکورٹی دستوں اور قانون نافذ اداروں کی وجہ سے آج ہندوستان ایک متحد ملک ہے اور پنجاب اس کا جز لا ینفک ہے۔
پاکستان کی حکومت اور وہاں کی فوج آئی ایس آئی بطور خاص ہندوستان میں مختلف فرقوں کے درمیان نفرت کی بیچ بو کر ہمارے عظیم ملک کو عدم استحکام کا شکار بنانے چاہتی ہے۔ اسی کڑی کے طور پر پچھلے دنوں وارث پٹھان دے نام کی ایک تنظیم نے سر اٹھانا شروع کیا اور اس سے وابستہ لیڈروں او رورکروں نے پنجاب میں قانون کو ہاتھ میں لے کر ایسی حرکتیں کی جن پر حکومت ہند اور ارباب اقتدار تلملا کر رہ گئے۔ وارث پنجاب کے لیڈر امرت پال سنگھ کئی ہفتوں تک ہندوستان کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چکما دے کر بھاگے پھرے اور آخر کار 23اپریل کو پنجاب کے موگا ضلع میں گرفتار ہوگئے۔ حکومت ہند اس طرح کے لیڈرو ںکی گرفتاری کو لے کر بہت حساس ہے۔ ان شرپسند عناصر کو گرفتار کرکے حکومت ہند نے آسام کے ڈبلیو گڑھ میں بند کردیا۔ بہت سے لوگ اس صورت حال کو خطرے کی گھنٹے کی قرار دیتے ہیں۔
ہندوستان کے باہر کئی ملکوں میں کچھ ایسے دولت مند اور شرپسند عناصر منظم ہوگئے ہیں جو کہ خالصتان تحریک سے متاثر ہیں اور وہ مذہبی خطوط پر ہندوسان کی ایک اور تقسیم کے حامی ہیں۔ کناڈا ، برطانیہ، بیلجیم وغیرہ میں عناصر وہاں کی جمہوری سیاسی نظام کا فائدہ اٹھا کر ایک مضبوط نیٹ ورک بنانے میں کامیاب ہوگئے اور وہیں سے بیٹھ کر اپنے ہم خیال مٹھی بھر شرپسند وں کے ذریعہ ریاست میں فضا خراب کررہے ہیں۔ پنجاب وہ ریاست ہے جس نے ہندوستان کو سبز انقلاب دیا۔ مگر پنجاب یہی ترقی اور خوشحالی پاکستان اور اس کی ایجنسیوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔
سکھ ایک منظم جرأت مندقوم ہے۔ اس کے ادارے اپنے فلاحی کاموں اور جذبۂ ایثار وایمانداری کے لیے مشہور ہے۔ یہ قوم اس ملک کی ایک عظیم سرمایہ ہے۔ جس کی حفاظت ترقی اور خوشحالی ملک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگر پنجاب جیسی زرخیز زمین شرپسندوں کی فرقہ وارانہ اور علیحدگی پسند منصوبہ کا شکار ہوتی ہے تو ہمارے لیے افسوس کا مقام ہے۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔ جبکہ مرکز میں بی جے پی کی اقتدار والی این ڈی اے سرکار دونوں پارٹیوں میں شدید اختلاف ہے۔ کئی حلقوں میں اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ اختلافات شرپسندوں کو موقع فراہم کردیں۔ مرکز اور ریاستوں سرکاروں کو بغیر اشتعال انگیز ی اور سنسنی خیزی کا شکار ہوئے دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سکھ برادری میں ہمارے کسی بھی اقدام سے منفی احساس پیدا نہ ہو ۔ اس کی کوشش ہونی چاہیے لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہماری نرم روی شرپسندوں کو بھی کوئی موقع نہ فراہم کرسکے۔ پنجاب کی رواداری، صلہ رحمی اور مذہبی اخوت ہی اصل وراثت ہے۔ یہ وراثت ہی تہذیبی سماجی اور مذہبی زندگی میں صاف دکھائی دیتی ہے۔
اخوت ورواداری پنجاب کی اصل وراثت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS