لداخ جو کبھی اپنی خاموش وادیوں،مسکراتے چہروں اور بے مثال سکون کیلئے جانا جاتا تھا،آج ایک ایسے سانحے کی لپیٹ میں ہے جس نے پورے ہندوستان کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ خطہ،جسے 2019 میں جموں و کشمیر سے الگ کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا،تب سے اپنی شناخت،اپنے حقوق اور اپنی زمین کے تحفظ کیلئے آواز بلند کر رہا ہے۔ پانچ برسوں کی مسلسل نظراندازی اور بار بار کی وعدہ خلافیوں نے نوجوانوں کو ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ان کا غصہ اب شعلوں میں بدل گیا ہے۔
بدھ کے روز مایوس نوجوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور لیہہ کی فضائوں میں جو آگ بھڑکی اس نے بی جے پی کے دفتر اور سرکاری املاک کوخاشاک کردیا۔ اعدادوشمار خود گواہی دے رہے ہیںکہ چار لاشیں زمین پر گریں،45 سے زائد لوگ زخمی ہوئے،جن میں 22 پولیس اور سی آر پی ایف اہلکار بھی شامل ہیں۔ پارٹی دفاتر جلائے گئے،گاڑیاں خاکستر ہوئیں اور ایک پرامن جدوجہد لمحوں میں خون اور آگ کی تصویر بن گئی۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب لداخ کے روحانی و ماحولیاتی رہنما سونم وانگچک پینتیس دنوں سے بھوک ہڑتال پر تھے اور مسلسل یہ دہرا رہے تھے کہ تشدد ان کی تحریک کو خاک میں ملا دے گا۔ لیکن ریاستی طاقت کی بے حسی اور حکومت کے سرد رویے نے بالآخر نوجوانوں کو مشتعل کردیا۔
حکومت کی پالیسی ہمیشہ کی طرح الزام تراشی پر مبنی رہی۔ وزارت داخلہ نے نہ صرف وانگچک کو تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا بلکہ ان پر ’’عرب بہار‘‘ اور نیپال کی تحریکوں کے حوالے دے کر عوام کو اکسانے کا الزام بھی عائد کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پرامن احتجاج کی قیادت کرنے والا ایک شخص،جو خود بھوک ہڑتال پر ہے،اپنے ہی مقصد کو جلانے کیلئے بھیڑ کو اکسائے گا؟ یہ بیانیہ حکومت کی اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔ اگر وانگچک کے الفاظ اتنے اشتعال انگیز تھے تو پھر نوجوانوں نے پانچ برس تک صبر کیوں کیا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اصل اشتعال ان وعدوں کی خلاف ورزی تھی جو بی جے پی نے 2019 کے لوک سبھا اور 2020 کے ہل کونسل انتخابات میں چھٹے شیڈول کے تحفظ کے حوالے سے کیے تھے؟
یہ کوئی چھوٹی تحریک نہیں ہے۔ لیہہ اپیکس باڈی اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس دونوں اس مطالبے کے نگہبان ہیں کہ لداخ کو مکمل ریاستی درجہ دیا جائے،چھٹے شیڈول کے تحت زمین اور روزگار کا تحفظ ملے اور مقامی ملازمتوں کیلئے پبلک سروس کمیشن تشکیل دیا جائے۔ یہ صرف چند نوجوانوں کی ضد نہیں بلکہ ایک پوری قوم کا اجتماعی مطالبہ ہے،جسے پانچ برس تک مرکزی حکومت نے مسلسل نظر انداز کیا۔
تشدد کے فوری اسباب بھی سامنے ہیں۔ دو بزرگ مظاہرین کی طبیعت بگڑنے پر اسپتال منتقلی نے نوجوانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا۔ اس غصے نے بدھ کو ایک بند کی شکل اختیار کی اور پھر وہ شعلے بھڑکے جنہوں نے لیہہ کی گلیوں کوآگ اور دھویں سے بھر دیا۔ پولیس کا لاٹھی چارج،آنسو گیس اور حتیٰ کہ مبینہ طور پر فائرنگ کرنا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست عوامی جذبات سے نمٹنے کے بجائے انہیں دبانے پر آمادہ ہے۔ شام تک کرفیو نافذ کر دیا گیا،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کرفیو نے نوجوانوں کے دلوں میں جلتے سوالوں کو بجھا دیا ہے؟
یہاں ایک اور نکتہ قابل غور ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ، جو ہر انتخابی ریلی میں لداخ کے حسن اور مرکز کی جانب سے دیے گئے وسائل کے قصیدے پڑھتے ہیں،آج کہاں ہیں؟ کیا وہ اس آگ کے دھویں کو دیکھنے سے انکار کریں گے ؟ کیا یہ وہی لداخ نہیں جسے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے امن اور رنگوں کی جنت کہا تھا؟ آج اسی جنت میں دھواں ہے، آگ ہے اور لاشیں گری ہوئی ہیں۔ اگر منی پور میں ڈھائی سالہ بدامنی کے باوجود استعفیٰ دینا حکومت کو یاد نہ آیا تو لداخ کے چار جنازے بھی ان کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑیں گے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نوجوان نسل خاموش نہیں رہے گی۔
لداخ کی جغرافیائی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ خطہ چین اور پاکستان کی سرحدوں کے بیچ واقع ہے۔ یہاں کے نوجوان اگر مسلسل بے روزگاری اور جمہوری حقوق کی محرومی کا شکار رہے تو یہ غصہ محض گھریلو سیاست کا مسئلہ نہیں رہے گا بلکہ قومی سلامتی کیلئے خطرے کی گھنٹی بن سکتا ہے۔ وانگچک نے بجا کہا تھاکہ بے روزگاری اور حق تلفی سماجی بدامنی کو جنم دیتی ہے۔ آج وہ بدامنی ہمارے سامنے ہے۔
اب سوال یہ نہیں کہ کس نے کسے اکسایا،کس نے کس پر الزام لگایا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا مرکزی حکومت آخرکار لداخ کے عوام کی بات سنے گی یا ان کے مطالبات کو مزید جوتے تلے روندتی رہے گی؟ 6 اکتوبر کو ہونے والے مذاکرات محض ایک رسمی کارروائی ہوں گے یا اس آگ کو بجھانے کی سنجیدہ کوشش؟ لداخ کی زمین پر پڑی ہر لاش،جلا ہوا ہر دفتر اور ہر زخمی نوجوان اس سوال کا جواب مانگ رہا ہے۔ اور اگر یہ جواب نہ ملا تو شاید آنے والے دنوں میں یہ شعلے پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیں۔
edit2sahara@gmail.com