ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ
آج کی دنیا کے انسانوں نے اپنے لیے جو ورلڈ آرڈر تیار کیا ہے اس کا ڈھانچہ اس انداز میں تیار کیا گیا ہے کہ کمزور قوموں اور ملکوں کو امن نصیب نہیں ہوسکتا۔ جہاں امن کا بھرم قائم رکھا جاتا ہے وہاں کی حقیقت بھی یہ ہے کہ ان ملکوں کی سیادت اور پالیسی سازی کے امور میں ان کا انحصار طاقتور ملکوں پر تقریباً مکمل ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ کمزور ملکوں کے قدرتی ذخائر پر کنٹرول رکھا جائے اور ان سے مستفید ہونے کا موقع ان ملکوں کے عوام سے زیادہ ان نوسامراجی طاقتوں کو ملے جن کے انگوٹھے کے نیچے وہاں کے حکمراں طبقے رکھے جاتے ہیں۔ ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے لوگ جو دربدر مارے مارے پھرتے ہیں اور امن و سکون والی زندگی کی تلاش میں کبھی سرحدوں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں تو کبھی سمندروں میں غرق ہونے کا خطرہ مول لے کر کسی بھی طرح بس اپنے ملک سے نکل جانے کا تہیہ کیے رہتے ہیں، اس کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ مذکورہ بالا براعظموں اور ملکوں میں قدرت نے زندگی کے وسائل مہیا نہیں کیے ہیں یا وہاں کے عوام کو اپنے ملک و قوم سے محبت نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ لوگ جنہیں پناہ گزیں یا مہاجرین کے ناموں سے پکارا جاتا ہے، وہ کسی بھی اعتبار سے محنت کش نہیں ہوتے یا انہیں اجنبی ملکوں میں درپیش چیلنجز کو جھیلنے کا کوئی شوق ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں جتنی بھی ہجرتیں ہوتی ہیں، اس کی اصل وجہ مغرب کا وہ عالمی نظام ہے جس نے کمزور ملکوں اور قوموں کے قدرتی ذرائع اور نظام حکومت پر قابض ہوکر انہیں ہر قسم کی ترقی کے لیے مطلوب تمام وسائل سے محروم کرکے نہ صرف اپنے لیے خوبصورت جنت بنالی ہے بلکہ جن ملکوں کا استحصال کیا ہے اور لگاتار کر رہے ہیں، انہیں اس حالت میں بھی نہیں چھوڑتے کہ وہاں کے لوگ تھوڑا کم کھا کر ہی سہی لیکن امن کے ساتھ اپنی زمینوں اور ملکوں میں رہ سکیں۔ وہاں کے امن کو غارت کرنے کے لیے پہلے تو کئی مسلح جماعتیں پیدا کر دی گئی ہیں۔ پھر ان جماعتوں کو مغربی ممالک کے ذریعے ہتھیار سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہ جماعتیں جب بندوق کے ذریعے موہوم امن کی بحالی کی کوششیں کرتی ہیں اور آپس میں ہی ایک دوسرے کی مخالف ہوجاتی ہیں تو امن کے بجائے عدم استحکام اور مسلسل جنگ کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس جنگ و جدال کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، ان کے تصفیہ کے لیے بھی پھر وہی نظام ثالثی کا کردار پیش کرنے کے لیے آ گے آتا ہے جس نے بنیادی طور پر اس مسئلے کو ایک منظم منصوبے کے تحت پیدا کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں مسئلے کب سلجھ سکتے ہیں؟ انہی ناگفتہ بہ حالات میں جنگ و جدال اور قتل و غارت گری سے تھک چکے لوگ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل عطا کرنے کے لیے ہجرت اور ترک وطن پر مجبور ہوتے ہیں۔ جب یہ لوگ ان مغربی ملکوں کا رخ کرتے ہیں جنہوں نے مہاجرین کے ملکوں کو جہنم زار بنایا ہوتا ہے تو انہیں نہ صرف وہاں داخل نہیں ہونے دیا جاتا بلکہ ان کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے اور اس طوفان کو کھڑا کرنے میں مغرب کا میڈیا، کارپوریٹ نظام، سیاسی پارٹیاں اور مبصرین و مفکرین سبھی شامل ہوتے ہیں۔ ان دنوں تو پورے یوروپ میں ایسا لگتا ہے کہ صرف اسلاموفوبیا کی شکار اور مہاجرین مخالف سیاسی پارٹیاں ہی ہر جگہ چھائی ہوئی ہیں۔ کوئی مغربی ملک ایسا نہیں بچا ہے جہاں پناہ گزینوں اور مہاجرین کے خلاف عداوت کا ماحول تیار نہیں کر دیا گیا ہو۔ اس میں بھی شک نہیں کہ انہی ملکوں میں انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والے افراد اور جماعتیں بھی پائی جاتی ہیں جو ان مہاجرین اور پناہ گزینی کی تلاش میں بھٹکنے والوں کی وکالت اور مدد بھی کرتے ہیں لیکن چونکہ اسٹیٹ کے مقابلے میں ان کی صلاحیت اور وسائل محدود ہیں، اس لیے کئی بار انسانی حقوق کی محافظ جماعتیں اور تنظیمیں ناکام بھی ہو جاتی ہیں۔
مذکورہ بالا مقدمے کو دھیان میں رکھ کر اگر برطانیہ کے روانڈا پلان کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ کس منظم ڈھنگ سے یوروپ کی حکومتیں کوشش کرتی ہیں کہ وہ کمزور ملکوں میں مسائل تو پیدا کریں لیکن جب ان کی انسانیت مخالف پالیسیوں سے متاثر ہوکر لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کے دروازوں تک پہنچ جائیں تو بجائے اس کے کہ ان کے درد کے درماں بنیں، انہیں مزید نئے اور سنگین مسائل میں ڈال دینے کا ایک پلان الگ سے تیار کر لیا جاتا ہے۔ کچھ یہی معاملہ برطانیہ کے روانڈا پلان کا بھی ہے۔ اس پلان کی تفصیل یہ ہے کہ اپریل 2022 میں برطانیہ نے روانڈا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا کہ پناہ کی تلاش میں جو لوگ برطانیہ آتے ہیں، انہیں روانڈا بھیج دیا جائے گا۔ اس پلان کا نام ’ہجرت اور اقتصادی شراکت‘ یا’روانڈا پلان‘رکھا گیا تھا لیکن یہ پلان نافذ ہونے سے قبل ہی عدالتی رکاوٹ کا شکار ہوگیا۔ نومبر 2023 میں برطانیہ کے سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ صادر کر دیا کہ یہ پلان غیر قانونی ہے، کیونکہ مہاجرین کو روانڈا بھیجنے کی صورت میں نہ صرف برطانوی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں پر بھی اس سے زد پڑتی ہے۔ جب سپریم کورٹ نے برطانوی سرکار کے اس عمل کو غیر قانونی قرار دیا تو برطانوی وزیر اعظم رشی سنک جو خود ہجرت کرکے برطانیہ پہنچے ہیں، انہوں نے اس کے مقابلے میں ایک نئے معاہدے پر روانڈا کے ساتھ دستخط کرلیا اور اس کو عدالتی مداخلت سے محفوظ رکھنے اور یہ تاثر پیش کرنے کے لیے کہ روانڈا ایک محفوظ ملک ہے جہاں پناہ گزینوں کو کوئی دقت پیش نہیں آ ئے گی، ایک بل بھی برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا جس کا نام’محفوظ روانڈا (پناہ گزینی اور ہجرت) قانون‘ رکھا گیا۔ یہ بل پارلیمنٹ میں اب پاس ہوکر قانون بن چکا ہے۔ اس اسکیم کے تحت جو پناہ گزیں روانڈا بھیجے جائیں گے۔ ان کی پناہ گزینی سے متعلق درخواستوں پر روانڈا کے قانون کے تحت غور کیا جائے گا اور وہ دوبارہ برطانیہ لوٹ کر نہیں آ پائیں گے۔ اس قانون کی بڑے پیمانے پر تنقید ہو رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وہ کمزور لوگ جو بہتر زندگی کی تلاش میں برطانیہ آئے ہیں، ان کے ویلفیئر کو اس قانون سے سخت نقصان پہنچے گا۔ ناقدین میں تمام سیاسی پارٹیوں کے اراکین پارلیمنٹ، رفاہی تنظیمیں اور حقوق انساں کی جماعتیں شامل ہیں۔ ان سب کا ماننا ہے کہ ہر شخص کو پناہ گزینی کا حق حاصل ہے اور تجربہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جب کبھی کھلی بانہوں سے ان کا استقبال کیا گیا ہے تو پناہ دینے والے ملک و سماج کی ترقی میں انہوں نے بڑا رول ادا کیا ہے، لہٰذا برطانوی سرکار کو چاہیے کہ وہ انہیں ہزاروں میل دور بھیجنے کے بجائے ان کو تحفظ فراہم کرے اور ان کا استقبال کرے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب اس قانون کی ہر سطح پر اتنی مخالفت ہو رہی ہے تو برطانوی سرکار ایسا کیوں کر رہی ہے؟ سرکار کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کا مقصد انسانی تجارت میں ملوث گروہوں کے تجارتی ماڈل کو روکنا ہے تاکہ وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں انہیں بٹھاکر اور ناجائر ڈھنگ سے برطانیہ میں داخل نہ کروائیں۔ برطانیہ کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ اس شراکت کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ ناجائز، خطرناک یا غیر ضروری طریقوں سے برطانیہ کا سفر کرتے ہیں، ان کو روانڈا منتقل کرنے پر غور کیا جائے گا جہاں پناہ گزینی سے متعلق ان کے دعووں کو پروسیس کیا جائے گا۔ قانون کے الفاظ گرچہ سننے میں زیادہ خطرناک نہیں معلوم ہوتے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص ہجرت کرکے برطانیہ نہیں پہنچ پائے گا، کیونکہ ملک سے باہر رہتے ہوئے پناہ گزینی کی درخواست کوئی نہیں دے سکتا اور نہ ہی کسی پناہ گزیں کو ویزا جاری کیا جاتا ہے تاکہ وہ ملک میں داخل ہو سکے۔ اس کا مطلب کوئی بھی شخص جو پناہ کی تلاش میں ہو وہ برطانیہ میں قانونی طور پر داخل نہیں ہو سکے گا۔ حالانکہ رفیوجی کنونشن کے تحت پناہ گزینی کی تلاش میں سرگرداں شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بشمول برطانیہ اپنی پسند کے کسی بھی ملک میں پناہ گزینی کے لیے درخواست دے اور اگر ناجائز ڈھنگ سے بھی ملک میں داخل ہوجائے تو اس کو ہراساں نہ کیا جائے۔ برطانیہ اس کنونشن پر دستخط کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے اس پر عمل کا پابند ہے۔ اس کے باوجود روانڈا پلان کو نافذ کرنے کی ضد پر تلا ہوا ہے جبکہ برطانوی وزارت خارجہ کا ریکارڈ بتلاتا ہے کہ انگلش چینل کو عبور کرکے ناجائز ڈھنگ سے جو لوگ برطانیہ میں داخل ہوتے ہیں، ان کی اکثریت کو پناہ گزیں کا اسٹیٹس مل ہی جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ برطانیہ آتے ہیں وہ واقعی بڑے کمزور و بے کس لوگ ہوتے ہیں اور ان کو تحفظ فراہم کرنا قانون کے لحاظ سے بھی ضروری ہے اور ان کو سزا دینا عین روح قانون کے خلاف عمل ہے۔ پناہ گزینوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل برطانوی تنظیم آئی آر سی اور YouGov نے جون 2023 میں جو سروے کیا تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان اور یوکرین کے حالیہ بحران کے تناظر میں برطانوی عوام کی اکثریت(65 فیصد) بھی اس حق میں ہے کہ پناہ گزینوں کو تعاون فراہم کیا جائے۔ ایسا کیا جانا ضروری اس لیے بھی ہے کیونکہ پناہ گزینی کی تلاش میں برطانیہ پہنچنے والے اکثر لوگ بڑی بری حالت میں یہاں پہنچے ہیں۔ انہیں قانونی مدد، ہمدردی اور دیگر سہولیات کی فراہمی کی ضرورت ہے نہ کہ میلوں دور ان کو بھیج دیا جائے جہاں انہیں بیشمار مسائل کا سامنا کرنا ہوگا اور ان کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ روانڈا پلان پر عمل کرنا رفیوجی کنونشن1951 کے خلاف بھی ہے جیسا کہ یو این ایچ سی آر نے کہا ہے کہ پناہ کی تلاش کرنا بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔
آج جبکہ دنیا بھر میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ لوگ پناہ کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں، برطانیہ ایسا اقدام بھلا کیسے کر سکتا ہے؟ اس کو چاہیے کہ اس سلسلے میں وہ اپنے حصے کی ذمہ داریوں کو نبھائے۔ اس کے برعکس وہ اپنی ذمہ داری دوسرے غریب ملک کی طرف منتقل کر رہا ہے۔ ویسے بھی حقیقت یہ ہے کہ پناہ گزینوں کی اکثریت توان ملکوں کا ہی رخ کرتی ہے جو نزاعات سے متاثر غریب اور پڑوسی ممالک ہوتے ہیں۔ بہت تھوڑی تعداد ہی امیر مغربی ملکوں میں جاتی ہے۔ اس کے باوجود یہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے کتراتے ہیں۔ مزید یہ کہ برطانیہ کو آسٹریلیا اور اسرائیل کے سابقہ تجربوں سے سبق لینا چاہیے۔ ان ملکوں نے بھی اس سے قبل پناہ گزینی کے درخواست دہندوں کے معاملے کو آؤٹ سورس کیا تھا لیکن ناکام رہے۔ ان کی ایسی پالیسیوں کے نتیجے میں زیادہ جانیں تلف ہوئیں۔ ان ملکوں تک پہنچنے کی تمنا میں سمندر میں غرق آب ہونے والوں کی تعداد بڑھتی رہی لیکن چھوٹی کشتیوں میں سوار ہوکر وہاں آنے والے پھر بھی آتے ہی رہے۔ اگر برطانیہ یہ سمجھتا ہے کہ جہاں آسٹریلیا اور اسرائیل ناکام ہوگئے وہاں یہ کامیاب ہوجائے گا تو یہ محض خام خیالی ہے۔ اس کے علاوہ اقتصادی طور پر بھی یہ پلان صرف غیر موثر ہی نہیں بلکہ گھاٹے کا سودا ہے۔ روانڈا پلان پر عمل کرنے کی صورت میں برطانیہ کو بہت خرچ کرنا پڑے گا۔ ’ٹائمس‘ کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ نے روانڈا کو ترقیاتی فنڈ کے طور پر بارہ کروڑ پاؤنڈ ادا کیا تھا۔ اب پروسیسنگ کی قیمت کے بطور دو کروڑ پاؤنڈ مزید ادا کیا ہے۔ گزشتہ سال جب روانڈا بھیجنے کا پلان عدالتی مداخلت کی وجہ سے ناکام ہوگیا تھا، اس وقت بھی دس کروڑ پاؤنڈ خرچ کرنا پڑا تھا لیکن ایک بھی پرواز کو روانڈا نہیں بھیجا جا سکا تھا۔ اس سلسلے میں وزارت خارجہ کے ایک خط کے مطابق پانچ کروڑ پاؤنڈ کا اضافی خرچ متوقع ہے۔ کل ملا کر29 کروڑ پاؤنڈ کا خرچ اب تک اس پلان پر ہوا ہے اور ابھی بھی اس کا مستقبل اندھیرے میں ہے۔ اس کے بجائے اگر ان پیسوں کا استعمال برطانوی سرکار موثر طریقے سے پناہ گزینی سے متعلق درخواستوں کو پروسیس کرنے پر خرچ کرتی تو اس میدان میں کام کرنے والی تنظیموں کے مطالعوں سے پتہ چلتا ہے کہ جنہیں پناہ دی جاتی ہے وہ مستقبل میں اپنے میزبان ملک کے لیے بہت مفید ثابت ہوتے ہیں اور جتنا ان پر خرچ کیا جاتا ہے، اس سے کہیں زیادہ وہ وہاں کی اقتصادی ترقی میں اپنا حصہ پیش کرکے لوٹا دیتے ہیں۔ آئی آر سی (انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی) کی رپورٹ کے مطابق94 فیصد پناہ گزیں کام کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس پر عمل کیا گیا تو برطانیہ کو سالانہ ساڑھے گیارہ کروڑ پاؤنڈ کا فائدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ اہم اور ضروری پہلو اس پورے انسانی بحران سے متعلق مسئلے کا یہ ہے کہ مغربی ممالک کی اکثریت نے دنیا بھر میں اس بحران کو پیدا کیا ہے اور لگاتار کر رہی ہے، اس لیے اس کو حل کرنے میں بھی انہیں اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ اس کے باوجود اگر برطانوی سرکار سختی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہتی ہے اور دو ہفتے قبل پارلیمنٹ میں پاس شدہ نئے قانون کے تحت عدالتی مداخلت سے بچنے کی کوشش کرتی ہے تب بھی اس کے لیے اس پر عمل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا، کیونکہ قانونی چارہ جوئی کے دوسرے راستے موجود ہیں جن سے برطانیہ بچ نہیں سکتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ برطانیہ کی سول آرگنائزیشنز اس قانون کی خرابیوں کو اجاگر کرنے اور پناہ گزینوں کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں سنجیدہ ہیں، اس لیے زیادہ امکان یہی ہے کہ برطانیہ کے روانڈا پلان کا مستقبل وہی ہوگا جو اس سے قبل آسٹریلیا اور اسرائیل کے پلانوں کا ہو چکا ہے۔