برکس: 5 ملکوں کا اہم گروپ

0

کوئی گروپ خودبخود اہمیت کا حامل بن جاتا ہے جب اس سے اقتصادی اور دفاعی طور پر بڑے ممالک وابستہ ہوتے ہیں اور متعدد ممالک اس سے وابستہ ہوناچاہتے ہیں۔ ایسا ہی گروپ ہے برکس (BRICS)۔ 16جون 2009 کو روس میں اس کا افتتاحی سربرہ اجلاس ہوا تھا تو اس کا نام برکس نہیں تھا۔ اس وقت اس کا نام برک (BRIC) تھا۔ اس وقت جنوبی افریقہ اس گروپ سے وابستہ نہیں ہواتھا۔ اس کی بنیاد رکھنے والے 4 ممالک ہندوستان، روس، چین اور برازیل تھے۔ گروپ کا نام رکھنے کے لیے اسی ترتیب کا استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ نام رکھنے کی تربیت یہ تھی- برازیل، روس، ہندوستان، چین۔ ان تمام ملکوں کے نام کا پہلا حرف یعنی برازیل کا ’بی‘، روس کا ’آر‘، ’انڈیا‘ یا ہندوستان کا ’آئی‘، چائنا یا چین کا ’سی‘ لے کر گروپ کا نام برک (BRIC) رکھا گیا تھا۔ تشکیل کے ساتھ ہی یہ گروپ عالمی برادری کی توجہ اس لیے بھی اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب رہا، کیونکہ 4 بڑے ممالک نے مل کر ا س کی تشکیل کی تھی۔ تشکیل میں 3 براعظم ایشیا، یوروپ، جنوبی امریکہ کے ممالک شامل تھے۔ 2010 میں جنوبی افریقہ کے وابستہ ہو جانے کے بعد اس کا نام بدل کر برکس (BRICS) کر دیاگیا۔ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ برکس میں ’ایس‘ کا اضافہ کرنے کے لیے ساؤتھ افریقہ یا جنوبی افریقہ کا پہلا حرف ’ایس‘ لیا گیا تھا۔ اس اضافے نے گروپ کی اہمیت اور بڑھا دی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے اس سے وابستہ ہو جانے سے ایک اوربراعظم کی اس سے وابستگی ہوگئی۔ اس طرح آج برکس ہے تو صرف 5 ملکوں پر مشتمل لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس سے 4 براعظم کے ممالک وابستہ ہیں اور ان تمام ملکوں کا شمار اقتصادی طور پر بھی دنیا کے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے اور دفاعی طور پر بھی۔ یہ ممالک اپنا دائرئہ اثر رکھتے ہیں۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ یہ تمام ممالک جی-20 کاحصہ ہیں۔ دنیا کا 39,746,220 مربع کلو میٹر کا رقبہ ان کے پاس ہے یعنی دنیا کی 26.7 فیصد زمین انہیں ملکوں کے پاس ہے۔ برکس ممالک کی آبادی 3.21 ارب ہے یعنی دنیا کی مجموعی آبادی میں 41.5 فیصد لوگ انہیں ملکوں کے باشندے ہیں۔ برکس ممالک کی جی ڈی پی 28.06 ٹریلین ڈالر ہے یعنی دنیا کی جی ڈی پی کا 26.6 فیصد انہیں ملکوں کے پاس ہے۔ اسی طرح برکس ممالک کی مساوی قوت خرید 56.65 ٹریلین ڈالر ہے یعنی دنیا کی مساوی قوت خرید کا 32.5 فیصد انہیں ملکوں کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ 2018 تک برکس ممالک کے پاس 4.46 ٹریلین ڈالر زرمبادلہ تھا۔ ان اعدادوشمار سے برکس کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے اور اس بات کو سمجھنا بھی مشکل نہیں ہے کہ اس سے بڑے، طاقتور، بااثر اور مختلف براعظم کے ممالک کیوں وابستہ ہونا چاہتے ہیں۔ نئے ملکوں کی برکس سے وابستگی کی چاہت اور ان سے گروپ سے وابستہ ملکوں کے رشتوںکو دیکھتے ہوئے اس بار کے سربراہ اجلاس پر عالمی برادری کی نگاہیں مرکوز تھیں۔ دراصل سربراہ اجلاس سے پہلے اس طرح کی خبریں آرہی تھیں کہ فلاں ملک فلاں ملک کو برکس سے وابستہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس گروپ میں اس کی پوزیشن اور مستحکم ہو جائے۔ فلاں ملک فلاں ملک کو برکس سے وابستہ ہونے دینا نہیں چاہتا تاکہ گروپ میں اس کی پوزیشن کمزور نہ ہو۔ ان خبروں کی روشنی میں اس سوال کا اٹھنافطری ہے کہ کیا آنے والے برسوں میں برکس اسی طرح مستحکم رہے گا جیسے اب تک رہا ہے اور کیا اس سے نئے ممالک اسی طرح وابستہ ہونا چاہیں گے جیسے وہ آج چاہتے ہیں؟ یوکرین جنگ کی وجہ سے بھی اس سوال کی اہمیت ہے، کیونکہ امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے روس کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے اور تائیوان پر چین کے متوقع حملے کے اندیشوں کے مدنظر بھی اس سوال کی اہمیت ہے۔ یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ امریکہ چین کا دائرہ اثر اتنا زیادہ بڑھنے دینا نہیں چاہتا کہ آنے والے وقت میں وہ اس کی پوزیشن لے لے اور نیا سپرپاور بن جائے۔ برکس سربراہ اجلاس کے اختتام کے بعد کے دنوں میں اس سے وابستہ ملکوں کی سرگرمیوں سے بھی یہ اندازہ لگانا آسان ہوگا کہ اس گروپ کا مستقبل کیسا ہے، کیونکہ نہ چین کے ہندوستانی علاقوں پر دعوؤں کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے، نہ یوکرین جنگ کے سلسلے میں کوئی پیش گوئی کی جا سکتی ہے، نہ ہی اس پر کوئی حتمی بات کہی جا سکتی ہے کہ چین، تائیوان کو بھبکی ہی دیتا رہے گا، اس پر حملہ نہیں کرے گا، البتہ یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ برکس کے سابقہ سربراہ اجلاسوں کے مقابلے یہ سربراہ اجلاس اپنی نوعیت کے حساب سے کافی اہم اجلاس تھا۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS