محمد حنیف خان
فسادات میں صرف جان و مال کا زیاں نہیں ہوتا بلکہ اس سے ایک ایسی خلیج بنتی ہے جسے نسلیں نہیں پاٹ پاتیں۔ بہرائچ ایک سرحدی ضلع ہے ،جہاں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ آپسی یگانگت کے ساتھ رہتے آئے ہیں،جس علاقے مہسی مہراج گنج میں حالیہ فسادات ہوئے وہ ہندو اکثریتی علاقہ ہے، اول مسلمانوں کی تعداد کم ہے،دوم اکثریت غریبوں کی ہے جو یومیہ مزدوری کرکے اپنا اور بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔فسادات میں سب سے زیادہ نقصان اسی طبقے کا ہوا ہے ،کیونکہ ان ہی کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہاں چند دنوں قبل جو فسادات ہوئے اس کی آگ اب دھیرے دھیرے کم ہو رہی ہے ۔پولیس اور انتظامیہ پوری مستعدی کے ساتھ مصروف عمل ہے ۔ضلع مجسٹریٹ اور ایس پی کی اولین ترجیح یہی رہی کہ پہلے حالات پر قابوپایا جائے جس میں انہیں کامیابی بھی ملی ہے۔لیکن یہ جزوی کامیابی ہے ،کیونکہ ابھی تک وہ لوگ اپنے گھروں کو واپس ہونے کی ہمت نہیں کر پارہے ہیں جن کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا ہے۔
ان فسادات میں صرف گھر اور مکان نہیں جلے ہیں اس کی آگ میں آپسی اخوت و محبت بھی جل گئی ہے۔اس علاقے میں دونوں طبقات کو جوڑنے میں اب ایک طویل عرصہ لگے گا۔
جب کسی علاقے میں فسادات ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ان کو قابو میں کیاجانا ہی اہم ہوتاہے جس میں پولیس اور انتظامیہ نے اچھاکردار ادا کیا ہے۔لوگوں کی جانوں کو بچانے کے لیے پولیس نے اپنی گاڑیوں کا بھی استعمال کیا اور انہیں محفوظ مقامات تک پہنچایا،لیکن یہ عمل اس وقت کیا جب فسادات پھوٹ چکے تھے،اس سے قبل پولیس نے سستی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے اس پورے علاقے کو فسادات نے اپنی زد میں لے لیا۔ ایک متاثرہ شخص کلیم کے مطابق جب حالات خراب ہونا شروع ہوئے اور ہندو اکثریتی بھیڑ نے گھروں کو جلانا شروع کیا تو اس نے سو(100)نمبرپر پچاسوں مرتبہ کال کی مگر اسے کوئی جواب نہیں ملا،اسی طرح پولیس کی وہ ٹکڑیاں جو یہاں تعینات کی گئی تھیں وہ بھی فسادات کے وقت بھاگ گئیں ،گھروں کو نذر آتش کئے جانے کے بعد پولیس نظر آئی ۔اس کا یہ بیان واضح کرتا ہے کہ موقع پر تعینات پولیس اہلکاروں کی نااہلی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے اگر وہ چاق چوبند ہوتی اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بروقت کارروائی کرتی تو حالات بے قابو نہ ہوتے۔
فسادات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عورتوں اور بچوں نے کھیتوں میں چھپ کر اپنی جانیں بچائی ہیں۔جس علاقے میں یہ فسادات ہوئے ہیں وہاں سے سیتاپور کو جوڑنے والی سڑک گزرتی ہے،یہ سڑک گھاگھرہ ندی پر بنے پل سے جڑتی ہے،شارٹ کٹ کی وجہ سے سیتاپور کے راستے لکھیم پور،بریلی،پیلی بھیت اور دہلی کی جانب سفر کرنے والے لوگ اسی راستے کو اختیار کرتے ہیں۔جب فسادات ہوئے تو فسادی اس عام سڑک پر آگئے اور یہاں سے گزرنے والی گاڑیوںاور ان میں سوار مسافروں کو نشانہ بنانے لگے۔ایک صحافی رام برن بھی اس بھیڑ کی زد میں آگیا،جس کا کہنا ہے کہ لوگ کلاوہ(ہندوؤں کے ذریعہ ہاتھ میں پہنا جانے والا دھاگہ) دیکھ کر چھوڑ رہے تھے۔اس نے اپنا کلاوہ بھی دکھایا اس کے باوجود اس کو اس لیے بری طرح سے مارا گیا کیونکہ وہ ویڈیو شوٹ کر رہا تھا،اس صحافی کے مطابق فسادی یہ جان رہے تھے کہ ان کے چہرے میرے کیمرے میں قید ہورہے ہیں جس کی بنیاد پر ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے اس لیے انہوں نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا،اس نے بتایا کہ جب میں نے ان کو دکھایا کہ میں آپ لوگوں کے خؒاف رپورٹنگ نہیں کر رہاہوں تو دو تین لوگ ان میں سے آگے آئے اور میرا موبائل دیکھا،جو ویڈیو شوٹ کیا تھا اسے ڈلیٹ کیا۔صحافی کو یقین نہیں تھا کہ وہ بچ پائے گا ،اس کے بیان کے مطابق مجھے یہ ڈر لگ رہاتھا کہ ابھی یہ لوگ مجھے جلتی ہوئی گاڑیوں کی آگ میں ڈال دیں گے۔
یہ واقعہ صرف ایک مثال ہے ،فسادیوں کی شقاوت قلبی کے نشانات اس پورے علاقے میں جگہ جگہ دیکھے جاسکتے ہیں،جلے ہوئے گھراور نذر آتش گاڑیوں کا ملبہ بتا رہا ہے کہ فسادی بھیڑ نے کیا کیاہے۔علاقے کے مسلمان رو رو کر اپنا حال بتا رہے ہیں اور اپنے مسلمان ہونے کی دہائی دے رہے اور کہہ رہے ہیں کہ ہمارے گھروں کو صرف اس لیے جلایا گیا کیونکہ ہم مسلمان ہیں،مگر ان کی کوئی سننے والا نہیں ہے۔انتظامیہ نے اب اس علاقے میں صفائی کا کام شروع کردیا ہے تاکہ زندگی کو پٹری پر لایاجاسکے۔لیکن کیا عام زندگی کا پٹری پر آجانا اتنا آسان ہے؟ جن لوگوں نے موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے ناچتے دیکھا ہے، جنہوں نے فسادیوں سے کسی طرح اپنی جان بچائی ہے،جو کھیتوں میں چھپنے پر مجبور ہوئے کیا ان میں صرف صفائی سے اعتماد پیدا ہوجائے گا؟
متاثرہ علاقے میں اعتماد صرف پولیس اور انتظامیہ کے عمل سے پیدا ہوتا ہے۔مثلاً مقتول کے باپ اور اہل خانہ نے پولیس اور انتظامیہ پراس وقت اپنے اعتماد کا اظہار کیا جب انہیں یہ اطلاع ملی کہ ایس ٹی ایف ملزم سرفراز اور طالب کا انکاؤنٹر کردیا ہے۔ جمعرات کو ان دونوںکو ایک مڈبھیڑ کے بعد گرفتار کیا گیا جن کے پیروں میں گولی لگنے کی اطلاع ہے۔لیکن دوسری طرف ملزم سرفراز کی بہن کا کہنا ہے کہ پولیس رات میں ہی اس کے بھائی کو اٹھاکر لے گئی تھی ،جس کے ساتھ اب مڈبھیڑ دکھائی گئی ہے۔ یہیں سے پولیس پر سوالیہ نشان لگنا شروع ہوجاتا ہے اور ذہن میں یہ سوال پیدا ہونے لگتا ہے کہ کیا پولیس اور انتظامیہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں گے؟
فسادات کا زور ٹوٹنے کے بعد پولیس ملزمین کے خلاف کارروائی میں مصروف ہوگئی ہے۔ایس پی نے کہاہے کہ جو لوگ بھی ان فسادات کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی،اور ان پولیس اہلکاروں کی بھی جواب دہی طے کی جائے گی جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں سے منھ موڑا اور فسادات ہوئے۔ پولیس نے اپنی کارروائی سے جہاں مقتول کے اہل خانہ کو مطمئن کردیا ہے اور اس کو اب پولیس اور انتظامیہ سے شکایات نہیں رہ گئی ہیں ۔کیا پولیس ان لوگوں کو بھی ایسے ہی مطمئن کرے گی جن کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا،جن کی املاک جلا دی گئیں اور لوٹ لی گئیں؟اقلیتی طبقہ کو مطمئن کرنے کے لئے پولیس نے اب تک کیا کیا ہے، اس سلسلے میں ابھی تک تو کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ایف آئی آر کی جو کاپی سامنے آئی ہے ،اس میں 6 لوگوں کو نامزد ملزم بنایا گیا ہے،جو سبھی مسلم ہیں۔فساد کرنے والے کسی بھی غیر مسلم کے خلاف ابھی تک ایف آئی آر کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اگر پولیس کارروائی کر رہی ہے تو اسے دونوں طرف کے فسادیوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے،جن لوگوں نے پہلے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا،ایک مسلمان کے گھر پر چڑھ کر سبز پرچم اتار کر اس پر بھگوا پرچم لگایاسب سے پہلے ان کے خلاف ایف آئی آر ہونی چاہئے۔جن لوگوں نے گولی چلائی اور ایک شخص کی جان لی ان کے ساتھ ہی ان فسادیوں کے خلاف بھی کارروائی شروع ہونی چاہئے جنہوں نے مسلمانوں کے گھروں کو جلایا،عام مسافروں کی گاڑیوں کو نذر آتش کرکے اس پورے علاقے کو فسادات کی آگ میں جھونک دیا۔پولیس کی یکطرفہ کارروائی سے مسلمانوں میں خوف ہے،ان کو اس بات کا ڈر ہے کہ اکثریتی طبقہ کو خوش کرنے کے لیے اس علاقے کے مسلمانوں پر اب قہر ٹوٹے گا۔ضلع بہرائچ کی سر برآوردہ شخصیات میں شامل مولانا محمد سرور قاسمی (علماء کونسل کے ضلع صدر ہونے کے ساتھ ہی فخر پور علاقہ سے ضلع پریشد کے ممبر بھی ہیں) ان کا بھی کہنا ہے کہ آگے بڑھ کر کون بولے ،اس سلسلے میں پولیس و انتظامیہ سے کون باز پرس کرے ؟کسی میں ہمت نہیں ہو رہی ہے کیونکہ اس بات کا خوف ہے کہ وہ خود زد میں نہ آجائے۔ خوف کی جو یہ لہرہے سب سے زیادہ خطرناک ہے۔پولیس اور انتظامیہ اگر واقعی چاہتے ہیں کہ حالات بہتر ہوں اور لوگ اپنے گھروں کو واپس آئیں تو جس طرح سے اکثریتی طبقہ کو مطمئن کرنے کے لیے تیزی کے ساتھ کارروائی کی ہے ،اسی طرح فسادیوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے اور ان کی بھی شناخت کرکے انہیں بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
[email protected]