جمہوریت کی روح شفاف،آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں مضمر ہے‘لیکن جب انتخابات کے انعقاد کا ذمہ دار ادارہ ہی شکوک و شبہات کے کہرے میں لپٹ جائے تو جمہوریت کی بنیادیں لرز اٹھتی ہیں۔ آج بہار کی سرزمین ایک ایسے ہی آئینی اور جمہوری بحران کی زد میں ہے‘جہاں الیکشن کمیشن آف انڈیا کا حالیہ طرز عمل اور متضاد بیانات نے ملک کے سنجیدہ حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ قصہ بہار کی ووٹر لسٹ سے 65 لاکھ شہریوں کے ناموں کے پراسرار طور پر غائب ہو جانے کا ہے،ایک ایسا واقعہ جس نے انتخابی عمل کی ساکھ پر ایک گہرا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
ملک میں جمہوری اصلاحات کیلئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم،ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے اس سنگین معاملے پر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اے ڈی آر کی عرضی نہایت واضح اور منطقی مطالبات پر مبنی تھی کہ الیکشن کمیشن کو پابند کیا جائے کہ وہ حذف شدہ 65 لاکھ ووٹروں کی اسمبلی اور بوتھ وار مکمل فہرست شائع کرے نیزہر نام کے اخراج کی ٹھوس وجہ (مثلاً موت،مستقل منتقلی یا ناقابل شناخت ہونا) عوام کے سامنے لائی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔
اس عرضی پر 6 اگست کو جب عدالت عظمیٰ نے سماعت کی تو الیکشن کمیشن سے جواب طلب کیا گیا۔ کمیشن نے عدالت میں جو حلف نامہ داخل کیا‘وہ تضادات کا ایک عجیب و غریب مرقع ہے۔ ایک طرف تو کمیشن نے یہ یقین دہانی کرائی کہ کسی بھی ووٹر کا نام بغیر اطلاع کے فہرست سے نہیں ہٹایا جائے گا اور ہر فرد کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع دیا جائے گا‘جو کہ انصاف کے بنیادی اصولوں کا تقاضا ہے۔ لیکن اسی سانس میں،کمیشن نے ایک ایسی قلابازی کھائی جس نے اس کی نیت پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے۔ کمیشن نے رجسٹریشن آف الیکٹرز رولز 1960 کے قاعدہ 10 اور 11 کا سہارا لیتے ہوئے یہ دو ٹوک موقف اختیار کیا کہ وہ قانوناً اس بات کا پابند نہیں ہے کہ حذف شدہ ناموں کی کوئی الگ فہرست شائع کرے اور نہ ہی وہ ان ناموں کے اخراج کی وجوہات بتانے کا ذمہ دار ہے۔ یہ دلیل محض قانونی موشگافی نہیں ،بلکہ شفافیت کے گلے پر چھری پھیرنے کے مترادف ہے۔ اگر کسی ووٹر کا نام غلطی سے نہیں ہٹایا گیا تو اس کی وجہ بتانے میں کیا قباحت ہے؟
الیکشن کمیشن نے اپنی صفائی میں مزید دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ بوتھ سطح کی فہرستیں سیاسی جماعتوں کو فراہم کر دی گئی ہیں اور جن افراد کے نام مسودہ فہرست میں نہیں ہیں،وہ یکم ستمبر تک فارم 6 جمع کروا کر اپنا نام دوبارہ شامل کروا سکتے ہیں۔ لیکن یہ دلائل اس بنیادی سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ آخر 65 لاکھ ناموں کو ہٹانے کی نوبت ہی کیوں آئی اور اس عمل میں شفافیت کیوں نہیں برتی گئی؟ کمیشن کا یہ کہنا کہ ناموں کا اخراج حتمی نہیں،ایک کمزور دفاع ہے جو اصل مسئلے پر پردہ ڈالنے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔تشویشناک امر یہ ہے کہ یہ واقعہ الیکشن کمیشن کی حکمت عملی میں تبدیلی کے ایک وسیع تر سلسلے کی کڑی نظر آتا ہے۔ ڈیجیٹل ووٹر لسٹ کی عدم دستیابی اور سی سی ٹی وی فوٹیج تک رسائی کو مشکل بنانے کیلئے قواعد میں ترمیم جیسے اقدامات پہلے ہی شکوک پیدا کر رہے تھے۔ اب حذف شدہ ناموں اور ان کی وجوہات کو خفیہ رکھنے پر اصرار اس تاثر کو مزید گہرا کرتا ہے کہ انتخابی عمل کو جان بوجھ کر غیر شفاف بنایا جا رہا ہے۔
اس پورے معاملے میں الیکشن کمیشن کا رویہ محض دفاعی نہیں بلکہ جارحانہ بھی ہے۔اس نے اے ڈی آر کی عرضی کوبدنام کرنے کی کوشش قرار دیا اور عدالت سے درخواست کی کہ وہ درخواست گزار پر بھاری جرمانہ عائد کرے۔ ایک آئینی ادارے کا ایک سول سوسائٹی تنظیم جومحض شفافیت کا مطالبہ کر رہی ہے،کے خلاف ایسا جارحانہ رد عمل بجائے خود ایک بری مثال ہے۔ یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کا مقصد تنقید کی ہر آواز کو دبانا اور احتساب کے عمل کو کمزور کرنا ہے۔
اب تمام نگاہیں 12 اگست کو ہونے والی سپریم کورٹ کی اگلی سماعت پر مرکوز ہیں۔ یہ مقدمہ صرف بہار کے 65 لاکھ ووٹروں کے حق رائے دہی کا نہیں‘بلکہ ہندوستان میں انتخابی جمہوریت کے مستقبل کا مقدمہ ہے۔ کیا ملک کا سب سے بڑا آئینی ادارہ‘الیکشن کمیشن‘قواعد و ضوابط کی آڑ میں اپنی جواب دہی سے فرار حاصل کر سکتا ہے؟ کیا لاکھوں شہریوں کو ان کے بنیادی جمہوری حق سے محروم کرنے کے عمل کو خفیہ رکھا جا سکتا ہے؟ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ نہ صرف بہار کے آئندہ انتخابات کی سمت متعین کرے گا‘بلکہ یہ بھی واضح کرے گا کہ ہندوستان کی جمہوریت میں شفافیت اور احتساب کی اقدار کتنی مضبوط ہیں۔
edit2sahara@gmail.com