نوپور شرما کو سیکیورٹی نہیں سزا دی(
)جائے
امام علی مقصود فلاحی.
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن،
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
مذاہب عالم کے مطالعے اور تجزیے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام ہی امن و امان اور سلامتی کا نقیب ہے، اسی لئے ہر مسلمان کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ تمام انبیاء کرام قابل احترام اور لائق تعظیم ہیں،اسلام رواداری کا اس درجہ داعی ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو کفار و مشرکین یہاں تک کہ انکے معبودان باطلہ کو بھی بلاوجہ برا کہنے سے منع کرتا ہے اور زندگی کے ہر راستے پر اعتدال و عدم تشدد کا درس دیتا ہے، لیکن جو قومیں اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھتی ہیں وہ مختلف حربوں سے اسلام کو بدنام کرنے اور اس پر غلط الزام لگانے اور اسکے پاکیزہ شبیہ کو مسخ کرنے کی ہر آن کوشش کرتی ہیں، اسی لئے کبھی مسلمانوں کو پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے، تو کبھی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے، کبھی مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا جاتا ہے، تو کبھی انکا اور انکے معبود و پیغمبر کا مذاق اڑایا جاتا ہے جیسا کہ ابھی حال ہی میں بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما نے عزت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کی شان اقدس میں گستاخی کرنے کی جرأت کی ہے، اور وہ گستاخی بھی یوں ہی نہیں بلکہ گیان واپی مسجد کو مندر ثابت کرنے کی ڈبیٹ میں کی ہے، جو کہ ایک مسلمانوں کو تکلیف دینے کی ایک کھلی بحث تھی، اور وہ ڈبیٹ بھی کسی چھوٹے موٹے چینل پر نہیں بلکہ ایک نیشنل چینل پر کی ہے جسے پورا ملک دیکھتا ہے یعنی کہ وہ گستاخی کسی ایک شخص کے سامنے نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں کے سامنے کی ہے جسکی وجہ سے پورے ملک مسلمان ناراض ہیں علاوہ ازیں دیگر مسلم ممالک نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے، اور وہ مسلم تنظیمیں جو ملک ہندوستان میں مسلمانوں کی رہبری کر رہی ہیں وہ بھی ناراض ہیں یہی وجہ ہے کہ رضا اکیڈمی، مسلم پرسنل لا بورڈ، کاروان امن و انصاف، ٹیپو سلطان پارٹی نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا ہے کہ نوپور شرما پر ایف آئی آر درج کرکے اسکے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اور جلد سے جلد کوئی ایسا قانون نافذ کیا جائے جس میں ہر ایسے شخص کو جو دوسروں کے مذہب پر انگلی اٹھائے تو اسکی انگلی کاٹ لی جائے، جو دوسروں کے مذہب پر زبان درازی کرے اسکی زبان کھینچ لی جائے۔
اور ہر مذہب اور اسکے فاؤنڈر و رہبر کے کو تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ ملک سے مذہب کی سلگتی آگ کو بجھایا کر ملک کو منافرت و عداوت سے نکال کر بھائی چارگی کی طرف رواں کیا جائے۔
لیکن بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج ملک ہندوستان میں مذہب کے فاؤنڈر و رہبر کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے اس شخص کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے جو نفرت و عداوت کی آگ لگا رہا ہے یا لگا رہی ہے، ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ جب بھی کوئی شان رسالت میں گستاخی کرتا ہے تو حکومت اسی کو سیکیورٹی فراہم کرتی ہے جیسا کہ سابقہ میں کئی لوگوں کے ساتھ ہوا ہے۔
اب ٹھیک اسی طرح نوپور شرما بھی حکومت سے سیکیورٹی کی مانگ کر رہی ہے، جب سے وہ گستاخانہ کلمہ شان اقدس میں کی ہے اسی وقت سے سیکیورٹی کی فریاد کر رہی ہے، اور اس بات کی ہمیں امید بھی ہے کہ نوپور شرما کو تحفظ فراہم کیا جائے گا لیکن مذہب کے فاؤنڈر و رہبر کو کوئی سیکورٹی نہیں دیا جائے گا۔
معلوم ہونا چاہیے کہ شان رسالت میں گستاخی کا یہ کوئی پہلاواقعہ نہیں ہے بلکہ دشمنان اسلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رسالت کو ہمیشہ اپنی کم ظرفی اور کمینگی کے اظہار کا نشانہ بنایا ہے۔
قرونِ وسطیٰ میں جان آف دمشقی (700 تا 754ء)وہ پہلا نامراد شخص ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت و الزام لگایا تھا جسکے بعد اکثر وبیشتر مستشرقین نے انہی الزامات کو دہرایا۔
اس حوالے سے اگر گذشتہ چند برس کی تاریخ کو پیش نظر رکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ توہین رسالت بعض تشدد پسند غیرمسلموں کا ایک نفرت انگیز رویہ ہے، جس کااظہار وقفے وقفے سے کیاجاتاہے، تاکہ اسلام کے پیروکار مشتعل ہوں اور ان پر جوابی کارروائی کی جاسکے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ان مواقع پر کیا کرنا چاہئے؟ تاکہ صحیح معنی میں ہم شریعت کے احکام کے مطابق ناموس رسالت کادفاع کرسکیں،اگرہم واقعۃً مسلمان ہیں اور حدود شریعت میں رہ کر تاج نبوت ورسالت کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں توہمیں قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل امور کی جانب بھی خصوصی توجہ دینی چاہئے جنہیں مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی نے قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایاہے:
1)اسلامی تعلیمات کی مکمل پیروی اور غیر اسلامی نظریات سے دور رہنا چاہیے۔
2)عالمی طور پرتمام مسلمانوں کو متحدہ ہو کر “یو این او” کو ایسے قوانین وضع کرنے پر مجبور کرنا چاہیے ، جس میں انبیاء کرام علیہم السلام کی اہانت کرنے والوں کو قتل کی سزا دی جائے۔
3)نمازوں کا مکمل اہتمام کرنا چاہیے۔
4)زندگی کے ہر موڑ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو معلوم کرکے اس پر عمل کرنا چاہیے۔
5)بدعات وخرافات سے بھرپور اجتناب کرنا چاہیے۔
6)صحابہ سے محبت اوران کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
7)علماء سے محبت اور ہر دنیوی ودینی معاملہ میں ان سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
8)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو پڑ ھ کر اس کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا چاہیے۔