ڈاکٹر سیّد احمد قادری
گزشتہ ماہ نومبر میں جن 5ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم کے اسمبلی انتخاب ہوئے۔ ان میں سے 4 ریاستوں کے نتیجے سامنے آ گئے ہیں ۔ جو یقینی طور پر سیکولرازم پر یقین رکھنے والوں کے لئے حوصلہ افزا نہیں ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے تلنگانہ کو چھوڑ کر تینوں ریاستوں میں اپنی حکومت قائم کر لی ہے۔ ایک طرف جہاں ایگزٹ پولز کے رجحان کی وجہ سے کانگریس خیمہ میں خوشی اور جشن کا ماحول تھا ، وہیں بی جے پی میں مایوسیاں تھیں۔اس لئے کہ بس اب چند ماہ ہی دور ہیں لوک سبھا کے انتخابات ، لیکن اس شاندار کامیابی کے بعد نریندر مودی اور امت شاہ کا بلکہ راشٹریہ سویم سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا حوصلہ بڑھنا بالکل فطری ہے۔ اس بڑھتے حوصلے سے ان جماعتوں کے کارکنان جو پارٹی بدلنے کے لئے پر تول رہے تھے وہ بھی پورے جوش وخروش میں ہیں اور طرح طرح سے اپنے جوش وخروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حزب مخالف بھی خاموش تماشائی بنا رہے گا یا اپنے اپنے مفادات کو وقتی طور پر سرد خانے میں ڈال کر اپنی اپنی بقا کے ساتھ ساتھ ملک کے مفادات کو ترجیح دیںگے ۔ حزب مخالف ’’انڈیا‘‘ نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لئے اور ضد پر اڑے رہے تو کوئی طاقت نہیں کہ اگلی بار بھی لوک سبھا کے انتخاب میں مودی اور شاہ کی کامیابی کا ڈنکا بجنے سے روک سکے۔ اس لئے کہ یہ دونوں اپنی حکمرانی کے لئے ہر وہ قدم اٹھا سکتے ہیں، جو انھیں کامیابی سے ہمکنار کرے۔ ان کے پاس پیسہ کے انبار ہیں اور الیکشن کمیشن ان کے ماتحت ہے اور یہ لوگ بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ انتخاب لڑنا بھی جانتے ہیں ۔ ابھی تین ریاستوں کے نتائج نے بلا شبہ مودی اور شاہ کے لئے سنجیونی کا کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پورے ملک میں مودی جی کی شاندار کامیابی پر خوب ڈنکے بج رہے ہیں، بجنا بھی چاہئے۔ مایوس کن حالات میں ایسی بے مثال کامیابی پر خوشی میںجتنا بھی ڈنکا بجایا جائے اور سنکھ پھونکا جائے کم ہے۔ یہ کامیابی کیوں اور کیسے ملی۔ اس کی بحث اب فضول ہے۔ وجہ جو بھی رہی ہو، کامیابی مودی اور شاہ کی بہرحال ہوئی ہے۔جو جیتا وہی سکندر، اور سکندر کی حیثیت سے مودی کا اگر لوک سبھا میں خیر مقدم ’جے شری رام‘ اور راجیہ سبھا میں ’شیر آیا‘ کے نعروں سے کیا جائے گا ،تو غلط اس لئے نہیں ہے کیونکہ اس شیر کو رام نے ہی شہرت اور کامیابی سے ہمکنار کیا ہے ۔ مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخاب میں مودی ،شاہ ، بھارتیہ جنتا پارٹی یا راشٹریہ سویم سنگھ کو جس طرح کی کامیابی ملی ہے ۔اس پس منظر میں جو منظر نامہ ملک کے سامنے آیا ہے،وہ یہ ہے کہ اب اس ملک کے لئے غربت، بے روزگاری،مہنگائی، صحت، تعلیم، تحفظ، رواداری،کرپشن،ذخیرہ اندوزی، اظہار آزادی،صنعتی و تجارتی انجماد، اقتصادی مساوات، سماجی استحصال، جمہوری قدروں کی پامالی، آئین کی بے وقعتی وغیرہ جیسے مسئلے ، اب مسئلے نہیں رہ گئے ۔ یہ سب کے سب اب حاشیہ پر چلے گئے ہیں۔اب اگر ملک کے لئے سب اہم مسئلہ ہے ، تو یہ ہے کہ پورے ملک میں ’ہندوتو‘ ایجنڈہ کیسے نافذ ہو اور ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب اور شاندار روایات کو روندتے ہوئے ’ ہندو راشٹر‘ کیسے بنایا جائے۔ لیکن میرے خیال میں مشکل یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم مودی جی بیرون ممالک کی آئے دن سیر کرتے رہتے ہیں اور وہ جہاں جاتے ہیں وہاں کے لوگ اور حکومتیں، مودی جی کے ملک بھارت کے عوام کی خوشحالی، ان سے تعلیم و صحت کی سہولیات، اظہار آزادی اور جمہوری قدروں کی اہمیت اور آئین کے تئیں رویے پر سوالات کرتی ہیں ۔ جن کے جواب میں عام طور پر ہمارے وزیر اعظم مودی جی حزب اختلاف کو ذمہ دار قرار دے دیا کرتے رہے ہیں کہ قبل کی حکومت نے ان مسائل پر کبھی توجہ ہی نہیں دی، لیکن اب تو لوک سبھا میں بھاری اکثریت ہے ہی، راجیہ سبھا میں بھی اب ہو جائے گی، اب صدر و نائب صدر بھی ان ہی کی پارٹی کے ہیں۔ اب ایسے سوالات کا جواب دینا ان کے لئے بڑا مشکل ہو جائے گا کہ آپ کی حکومت نے اتنے دنوں میں اپنے ملک کے عوام کے بنیادی مسائل کیوں نہیں حل کئے کیونکہ غربت اور بدحالی سے ملک کی شبیہ خراب ہو رہی ہے ۔ ملک کے کسان مسلسل خودکشی کر رہے ہیں۔ بے روزگاری اس وقت عروج پر ہے ، مہنگائی سے عوام کراہ رہی ہے۔ بیان بازی اور جھوٹے وعدوں سے ان اہم مسئلوں کا حل نہیں نکلنے والاہے ۔ کشمیر میں جس طرح ظلم اور بربریت کا مظاہرہ کرکے ان کے احتجاج کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، اس سے مسئلہ مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ منی پور سے ابھی تک فرقہ واریت کے شعلے اٹھ رہے ہیں ۔ ان سارے اہم مسئلوں سے رو گردانی کرکے مسئلہ کم نہیں ہو رہا ہے ، بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
مشکل یہ بھی ہے کہ بڑی فیاضی کے ساتھ یہ حکومت سرکاری شعبوں کو فروغ دینے کے بجائے دوسرے نجی شعبوں کو فروغ دینے میں منہمک ہے۔مثلاً ریلوے کو ڈیژل مہیا کرانے والی سرکاری کمپنی انڈین آئیل کارپوریشن اور بھارت پیٹرولیم کی بجائے یہ ٹھیکہ ریلائنس کو دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح حکومت کے شعبہ مواصلات کی بجائے ریلائنس کے ’جیو‘ کو فروغ دیا گیا ۔ نوٹ بندی کے زمانے میں ’پے ٹی ایم‘ کی تشہیر پر زیادہ توجہ دی گئی۔ ایسی کوششوں اور عنایات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جو آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں۔ اس عمل سے سرکاری شعبوں کو جو مالی طور پر بھاری نقصان پہنچ رہا ہے اور نجی کمپنیوں کی جس طرح تجوریاں بھری جا رہی ہیں ،اس سے ملک کے خزانہ پر زبردست منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جن کی بھرپائی ظاہر ہے کہ مختلف ٹیکس کی شکل میں ملک کے غریب عوام سے ہی وصولا جا رہا ہے اور وصولا جائے گا ۔ اس سلسلے میں جب یہ ہنگامہ ہوا کہ یہ حکومت اڈانی اور امبانی وغیرہ کی جانب داری کے ساتھ انھیں مالی منفعت پہنچا رہی ہے ، تو اس کے جواب میں کہا گیا کہ یہ لوگ قبل سے ہی دولت مند ہیں۔
بڑھتی مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری کا ہی یہ نتیجہ سامنے آرہا ہے کہ کرپشن سرکاری محکموں میں اوپر سے نیچے تک ناقابل یقین حد تک داخل ہو چکا ہے ۔ یوں تو اس حکومت کے زیر سایہ کرپشن کی فہرست کافی لمبی ہے ، لیکن میں صرف ایک کرپشن ’ویاپم ‘ کا ہی ذکر کروں یا رشوت خوروں کو پکڑنے والی ای ڈی ٹیم کے ذریعہ رشوت لیتے پکڑے جانے کا ذکر کر دوں تو بھی کام چل جائے گا کہ ایسے کرپشن نے گزشتہ کئی دہائیوں کی بدعنوانیوں کے ریکارڈ توڑ دئے ہیں۔ اب ایسی حکومت کس مُنھ سے کرپشن دور کرنے کی بات کرے گی۔ رشوت خوری کا اس طر ح بازار گرم ہے کہ ایشیائی ممالک میں بڑھتی بد عنوانیوں پر سروے کرنے والی ایک تنظیم ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق رشوت خوری کے معاملے میں بھارت کافی اُونچی پائیدان پر پہنچ گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 69 فی صد بھارتیوں کو اپنے کام کے لئے رشوت دینی پڑتی ہے۔ ٹرانس پیرنسی کے چیئرمین جوس اگاز نے اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کو کرپشن مخالف قانون کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کروڑوں لوگ رشوت دینے پر مجبور ہوتے ہیں اور اس کا منفی اثر غریبوں پر پڑتا ہے۔
بھارت کی معیشت کو بار بار ترقی کی راہ پر بتایا جا تا ہے اور ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ان کے سامنے غلط جی ڈی پی کو پیش کیا جاتا ہے ۔ جوان معاملے کے ماہرین کے سامنے مذاق کاموضوع بن رہا ہے۔ ’ دی اکنامسٹ ‘ان جھوٹے اور من گڑھت ترقی کے اعداد وشمار کو پوری طرح خارج کرتے ہوئے بتا رہا ہے کہ ملک کے بینکوں اور تجارتی اداروں کے نتائج بالکل اس کے برعکس ہیں۔ملک کے 70 فی صد بینک سرکاری تحویل میںہیںاور ان بینکوں نے حکومت کی سفارش پر بڑے صنعتی و تجارتی کمپنیوں کو اب تک لاکھوں کروڑ روپے قرض دے رکھے ہیں ۔ وجے مالیا اور اس جیسے کئی تاجر چونکہ ملک کی معیشت کو چونا لگا کر فرار ہو گئے ہیں ، اس لئے ایسے قرض کی تفصیل عوام کے سامنے لائی گئی، ورنہ نہ جانے ایسے کتنے صنعت کار اور تاجر ہیں ، جو ملک میں بیٹھ کر بینکوں کو چونا لگا رہے ہیں۔ جس کا خمیازہ ملک کے عوام بھگت رہے ہیں ، جو بینکوں کے ذریعہ آئے دن سروس ٹیکس کے طور دینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
ان چند مثالوں کے بعد اب یہ دیکھا جائے کہ ان سب حالات کے اثرات سے ہمارے ملک کے عوام کس قدر خوش اور خوشحال ہیں، تو اس سلسلے میں بھی عالمی سطح پر برطانیہ کے لیگاٹم انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ رپورٹ کو دیکھنے کے بعد بڑی مایوسی ہوتی ہے کہ 149 ملکوں کی مالی حیثیت ، فی کس آمدنی، کام کرنے والے افراد کی تعداد شرح وغیرہ جیسے اہم نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے انھیں 9 حصوں میں منقسم کیا گیا ہے ۔ جن میں اقتصادی مساوات، کاروباری ماحول، طرز حکومت، صحت، تعلیم، تحفظ، ذاتی آزادی اور قدرتی ماحول وغیرہ میں جہاں نیوزی لینڈ سر فہرست ہے ، وہیں ہمارا ملک بھارت 104 ویں مقام پر کھڑا اپنی کسمپرسی پر آنسو بہا رہا ہے۔ فرقہ واریت پر تو اس ملک نے ہر لحاظ سے سبھوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔
اب ایسی صورت حال میں ہمارے ملک کے وزیر اعظم اور دوسرے ’ ذمّہ دار ‘ وزرا ملک کے عوام کے سامنے ملک کی جس طرح کی تصویر پیش کر رہے ہیں ۔ وہ زمینی حقائق سے کوسوں دور ہے۔ میں یہ بات مانتا ہوں کہ موجودہ حکومت کو پارلیمنٹ اور بیشتر ریاستوں میں اکثریت حاصل ہے اور وہ اپنے ’ہندوتو‘ ایجنڈے پر کافی تیزی سے آگے بھی بڑھ رہی ہے۔ لیکن خوف اس بات کا ہے کہ بھارت کے عوام جب کبھی مڑ کر ’ہندوتو‘ ایجنڈے کے ساتھ ساتھ اپنی غربت، بے روزگاری، صحت، تعلیم، سماجی استحصال، اقتصادی مساوات اور آزادیٔ اظہار پر نظر ڈالیں گے، تو پھر کیا ہوگا ؟ اس لئے کہ ایسی ہی بھاری اکثریت سے نوازنے والے عوام نے، اب سے برسوں قبل کانگریس کو پارلیمنٹ میں 414 اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو 2 سیٹوں تک پہنچا دیا تھا ۔ لیکن کانگریس کی نااہلی اور عوام کی بنیادی ضرورتوں سے چشم پوشی نے اسے کہاں پہنچا دیا ہے، یہ بھی دیکھنے والی بات ہے۔ ’ہندوتو ‘ کا نظریہ اور فرقہ واریت کے جنون سے عوام کو تھوڑے دنوں تک ضرور ورغلایا اور بہلایاجا سکتا ہے، لیکن بہت دنوں تک نہیں۔ اس لئے کہ یہ نظریہ او ر یہ جنون بنیادی ضرورتیں پورا نہیں کرتے ہیں ۔ اس لئے توقع ہے کہ تاریخ کی اس حقیقت کو وقت رہتے موجودہ حکومت ضرور سمجھنے کی کوشش کرے گی اور وہ ملک کے غریبوں، مزدوروں، کسانوں اور بے روزگاروں کے بنیادی مسائل پر بھی توجہ دے کر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے گی۔ چار ریاستوں میں سے تین ریاستوں کی کامیابی ممکن ہے مودی اور شاہ کو مزید مغرور بنا دے اور تکبر میں عوام کے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے صرف اپنے ہڈن ایجنڈوں پر توجہ مبذول کریں تو یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ لوک سبھا کا انتخاب اب زیادہ دور نہیں ہے ۔ کانگریس کی بھی اس انتخاب کے نتائج سے بہت ساری خوش فہمیاں دور ہو گئی ہوںگی۔ کانگریس کی شکست سے ایک جانب جہاں بی جے پی کے خیمہ میں جشن کا ماحول ہے وہیں ’انڈیا‘ کی بہت ساری حلیف پارٹیوں میں بھی خوشیاں ہیں کہ اب کانگریس مختلف علاقائی پارٹیوں سے زیادہ سیٹ مانگنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ممکن ہے، 3 دسمبر کا نتیجہ ’انڈیا‘ میں نئی جان پھونک دے اور کانگریس اپنی شکست سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔
[email protected]