صبیح احمد
راجیہ سبھا کے رکن اور عام آدمی پارٹی کے سینئر لیڈر سنجے سنگھ کی رہائی سے عام آدمی پارٹی کو بڑی راحت ملی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کے رہنما بھی سنجے سنگھ کو ضمانت ملنے سے بہت خوش ہیں۔ ایک طرف جہاں اپوزیشن سنجے سنگھ کی ضمانت کو اپنی جیت کے طور پر دیکھ رہی ہے، وہیں بی جے پی بار بار کہہ رہی ہے کہ ضمانت ملنے سے شراب گھوٹالہ کا کھیل ختم نہیں ہوجائے گا۔ بہرحال تقریباً 6 ماہ بعد جیل سے رہا ہونے والے سنجے سنگھ عام آدمی پارٹی کے لیے ’سنجیونی بوٹی‘ تو نہیں ہیں، لیکن وہ موجودہ زخموں پر ایک مؤثر مرہم کی طرح درد سے نجات ضرور دلا سکتے ہیں۔ لوک سبھا الیکشن سے عین قبل سنجے سنگھ کی رہائی سے عام آدمی پارٹی نے بلاشبہ راحت کی سانس لی ہوگی۔ ادھر اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد ’انڈیا‘ بلاک بھی اب تقریباً حتمی شکل اختیار کرچکا ہے۔ سنجے سنگھ کی ضمانت اور سیاسی میدان میں ان کی واپسی نہ صرف عام آدمی پارٹی بلکہ پورے ’انڈیا‘ بلاک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ اپنی سیاسی صلاحیتوں سے وہ بی جے پی کے خلاف اپنی حکمت عملی بنانے میں اپوزیشن کی نمایاں مدد کرسکتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کو اپوزیشن اتحاد کے ساتھ لانے میں سنجے سنگھ کا بڑا رول رہا ہے۔ انہوں نے اپوزیشن کو متحد کرنے میں بھی بڑا کردار ادا کیا تھا۔ فی الحال سنجے سنگھ ہی سب سے بڑے چہرہ کے طور پر پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر سنجے سنگھ کی جیل سے رہائی گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ ممکنہ طور پر موجودہ لوک سبھا انتخابات میں سیاست کی سمت بدل سکتی ہے۔
جیل سے باہر آنے کے بعد سنجے سنگھ اپنے مخالفین پر مسلسل حملہ آور ہیں۔ انتخابی موسم میں مشکلات میں گھری عام آدمی پارٹی کے لیے یہ راحت کتنی فائدہ مند ہوگی، اس کا اندازہ آئندہ چند دنوں میں ہی لگ پائے گا۔ منیش سسودیا اور سنجے سنگھ کے بعد جب اروند کجریوال بھی جیل گئے تو عام آدمی پارٹی کی قوت ارادی کو بڑی چوٹ لگی تھی اور اس کے حوصلے بری طرح مجروح ہوگئے تھے۔ اگر یہ الیکشن کجریوال کے بغیر ہوتا ہے تو عام آدمی پارٹی کے لیے بہت مشکل ہو سکتی ہے۔ سنجے سنگھ عام آدمی پارٹی کے قیام سے پہلے سے ہی اروند کجریوال کے ساتھ ہیں۔ جب پارٹی بنی تو اس کے 3 بڑے چہرے اروند کجریوال، منیش سسودیا اور سنجے سنگھ تھے۔ سنجے سنگھ کے جیل سے باہر آنے کے بعد پارٹی کو پھر سے اپنا چہرہ اور بلند آواز لیڈر مل گیا ہے۔ سسودیا اور کجریوال جب تک جیل میں رہیں گے، سنجے سنگھ پارٹی کی ذمہ داری سنبھالتے رہیں گے۔ کجریوال اور سسودیا کی غیر موجودگی میں سنجے سنگھ پارٹی کے واحد لیڈر ہیں، جو پارٹی کے ہر لیڈر کو یہ بتا سکتے ہیں کہ ایسا کریں یا نہ کریں۔ سنجے سنگھ عام آدمی پارٹی میں ’ایکٹوزم‘ کے کلچر سے تھوڑا مختلف رہے ہیں۔ ان کا سوشلسٹ پس منظر رہا ہے۔ کجریوال کے جیل جانے کے بعد عام آدمی پارٹی بحران کا شکار ہوگئی تھی۔ عام آدمی پارٹی دوسری پارٹیوں سے مختلف ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے عام آدمی پارٹی کی توجہ کبھی بھی کیڈر بنانے پر مرکوز نہیں رہی۔ سینئر لیڈروں کی گرفتاری کے بعد پارٹی کے اندر کجریوال کے ہم رتبہ کوئی لیڈر نہیں رہ گیا تھا۔ جب تک کوئی پارٹی کیڈر پر مبنی نہ ہو، اس کے لیے طویل عرصہ تک منظم رہنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے سنجے سنگھ کی جیل سے رہائی کے بعد کجریوال کی غیر موجودگی سے جو خلا پیدا ہوا تھا، اس کی بہت حد تک بھرپائی ہو سکتی ہے۔
بہرحال سنجے سنگھ کے جیل سے باہر آنے کے ساتھ ہی لوک سبھا انتخابات میں سیاسی گہما گہمی بھی تیز ہوگئی ہے۔ سنجے کو ایک ماہر حکمت عملی ساز اور شاندار مقرر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کی موجودگی انتخابی ماحول کو عام آدمی پارٹی کے حق میں بدل سکتی ہے۔ سنجے سنگھ کی رہائی سے پہلا بڑا پیغام پارٹی کو جائے گا۔ کارکنوں اور قائدین کے حوصلے بلند ہوں گے۔ ایک تجربہ کار لیڈر کے طور پر سنجے سنگھ نے گزشتہ کچھ سالوں میں پارٹی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بنیادی طور پر وہ اپنی تنظیمی صلاحیتوں کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ انہیں پارٹی اور اس کے رضاکاروں کو متحد رکھنے، اتحاد اور تحریک دینے والے لیڈر کے طو رپر بھی جانا جاتا ہے جو پارٹی کی انتخابی مہم کو نمایاں طور پر سبقت دلا سکتے ہیں۔ سنجے سنگھ اپنے تخلیقی ذہن کے لیے بھی جانے جاتے ہیں، وہ اکثر طاقتور نعرے وضع کرتے ہیں اور ترغیب دینے والے گانے تیارکرتے ہیں۔ یہ نعرے اور گانے براہ راست عام ووٹروں کو جوڑتے اور متاثر کرتے ہیں۔ وہ انتخابی مہم کے دوران عوام کے موڈ کوبھانپنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ سنجے سنگھ کی رہائی سے پنجاب یونٹ کو بھی فائدہ ہوگا۔ اب پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت مان پر دباؤ میں کمی آنے کا امکان ہے۔ اروند کجریوال کی گرفتاری کے بعد بھگونت مان پارٹی تنظیم سے لے کر انتظامیہ تک کی ذمہ داریاں نبھاتے نظر آرہے ہیں۔ مان چونکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں، اس لیے انہیں اکثر اہم میٹنگوں کے لیے پنجاب میں وقت گزارنا پڑتا ہے اور دہلی کے درمیان سفر بھی کرنا پڑتا ہے۔ جیل سے رہا ہونے والے سنجے سنگھ اب دہلی میں قلعہ سنبھال سکتے ہیں اور انتخابات میں اسٹرٹیجک کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اپنی اسٹرٹیجک صلاحیت کے علاوہ سنجے سنگھ ایک غیرمعمولی مقرر بھی ہیں۔ کجریوال کی عدم موجودگی میں وہ اپنی جارحانہ لیکن جذباتی تقریروں سے حمایت حاصل کرکے پارٹی کی مہم کو مضبوطی سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔ اترپردیش سے تعلق رکھنے والے سنجے سنگھ کے پاس ہندی پٹی کے ووٹروں سے جڑنے کا ایک بہترین فن ہے۔
سنجے سنگھ کے جیل سے باہر آنے کے بعد پہلا فائدہ جو عام آدمی پارٹی کو ملے گا، وہ یہ ہے کہ وہ تنظیم میں جان پھونکنے کی کوشش کریں گے جس کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ لوک سبھا انتخابات سر پر ہیں اور سب کچھ اروند کجریوال کے جیل جانے کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔ بھگونت مان بھلے ہی اپنی صلاحیت کے مطابق پنجاب کو سنبھال رہے ہوں، لیکن دہلی کی 7 سیٹوں پر کام نہیں ہو پا رہا ہے۔ جس مقصد سے اروند کجریوال نے کانگریس کے ساتھ انتخابی معاہدہ کیا تھا، اس میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہو پا ئی ہے۔ کجریوال کے جیل جانے کے بعد عام آدمی پارٹی کے کارکنوں میں جو مایوسی چھائی تھی، اب اسے ختم کرنے میں کافی مدد ملے گی۔ عام آدمی پارٹی کے کارکنوں میں سنجے سنگھ کا اثر و رسوخ ویسا ہی سمجھا جاتا ہے جیسا کہ کبھی شیو پال یادو کی سماج وادی پارٹی اور مکل رائے کی ترنمول کانگریس میں تھا۔ ان کے لیے تو یہ ماضی کی بات ہوگئی ہے، لیکن سنجے سنگھ نئے جوش کے ساتھ میدان میں ہیں۔ وہ پھر سے نئی توانائی کے ساتھ وزیراعظم مودی اور بی جے پی کے خلاف میڈیا کے مباحثوں اور انتخابی مہم میں عام آدمی پارٹی کی آواز اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں،بلکہ وہ جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوگئے ہیں اور بی جے پی پر مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ درحقیقت یہ تمام سیاسی حملے آئندہ عام انتخابات کو مدنظر رکھ کر کیے جا رہے ہیں۔ نہ صرف عام آدمی پارٹی بلکہ اپوزیشن اتحاد میں شامل تمام پارٹیاں جانتی ہیں کہ سنجے سنگھ کے جیل سے باہر آنے کے بعد بی جے پی کے خلاف انتخابی مہم میں کچھ جان ضرور پڑ جائے گی۔ اس سے عام آدمی پارٹی کی انتخابی مہم کو بھی تقویت ملے گی جو بیک فٹ پر چل رہی ہے۔ پارٹی لیڈران اب ای ڈی کے غلط استعمال اور انتخابات میں مخالفین کو غلط طریقے سے پھنسانے کے معاملے کو زور شورسے اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کو دفاعی موڈ میں آنا پڑ سکتا ہے۔
[email protected]